صوبہ سندھ پورے ملک کی طرح بدامنی اور لاقانونیت کی ایک بدنما آماج گاہ بن کر رہ گیا ہے۔ گزشتہ ایک عرصے سے جرائم پیشہ عناصر دندناتے پھر رہے ہیں لیکن انہیں لگام دینے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ اب تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے سے شاید جرائم کا خاتمہ کسی بھی حکومت میں نہیں ہوسکے گا۔ سندھ کی موجودہ نگراں حکومت بھی بدامنی کا خاتمہ کرنے میں مکمل ناکام دکھائی دیتی ہے۔ لاقانونیت، بدامنی اور بدعنوانی اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بسا اوقات یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ ہم کسی انسانی معاشرے کے بجائے جنگل میں رہ رہے ہوں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب لرزہ دینے والے بھیانک اور خوف ناک جرائم کی خبریں منظرعام پر نہ آتی ہوں۔ ہمارے معاشرے میں اس وقت بلامبالغہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا محاورہ اب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ سندھ پولیس گائوں، دیہات اور قصبات سے سندھ کے شہروں میں آنے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو روک کر ان میں سوار عام افراد سے کاغذات اور شناختی کارڈ دکھانے کا تقاضا تو کرتی نظر آتی ہے لیکن ہر روز اغوا ہونے والے افراد کو صرف اس لیے بازیاب نہیں کرواتی کہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے پس پردہ بڑی بڑی قبائلی اور سیاسی شخصیات موجود ہیں۔ اسی طرح سے آج کل سندھ میں ’’سیپکو‘‘ اور ’’حیسکو‘‘ کے زیر انتظام علاقوں میں بجلی کے نادہندگان کے خلاف جو آپریشن جاری ہے وہ بھی ’’نزلہ برعضوِ ضعیف‘‘ کے مصداق ہی ثابت ہوا ہے۔ بڑے بڑے بجلی چوروں، بڑے نادہندگان اور بڑے بڑے ہوٹلوں، فیکٹریوں، آئس اور رائس ملوں کے بااثر مالکان کی جانب ’’سیپکو‘‘ اور ’’حیسکو‘‘ کے افسران کو جانے کی جرأت ہی نہیں ہوسکی ہے۔ بااثر سیاسی شخصیات، بیوروکریٹس، وڈیرے، بھوتار اور خود مذکورہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے افسران اور اہلکار تاحال نام نہاد بجلی ااچوری کے خاتمے کے لیے شروع کیے گئے آپریشن کے باوجود دھڑلے سے بے خوف و خطر بجلی چوری کر بھی رہے ہیں اور اپنے منظورِ نظر افراد کو کروا بھی رہے ہیں لیکن انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، البتہ عام نادہندہ اور کنڈے کے توسط بجلی استعمال کرنے والا عام فرد فی الفور گرفتار بھی ہورہا ہے اور اسے جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ اصل اور بڑے بجلی چور تاحال محفوظ اور مامون ہیں اور اپنی کامیابی پر شاداں و فرحاں بھی۔
بروز پیر 25 ستمبر کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے صفحۂ اوّل پر چھپنے والی ایک نمایاں خبر کے مطابق ’’وفاقی اور صوبائی حکومت کے لیے 250 ڈاکو چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف آپریشن کے باوجود ابھی تک کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔ کوئی ڈاکو ابھی تک گرفتار ہوا ہے اور نہ ہی اپنے انجام کو پہنچ سکا ہے۔ ڈاکوئوں کے پاس بے حد جدید ہتھیار ہیں اس لیے پولیس، ڈاکوئوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے، حتیٰ کہ بکتربند گاڑیاں بھی ناکام ثابت ہوئی ہیں (اکثر گاڑیوں کا دورانِ آپریشن تیل ختم ہوجانے کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنی رہتی ہیں۔ ا۔ت)، کچے کے علاقے کا ہزاروں لاکھوں ایکڑ پر محیط رقبہ ڈاکوئوں کی محفوظ پناہ گاہوں میں تبدیل ہوچکا ہے۔ مختلف اضلاع میں 250 ڈاکوئوں پر 45 کروڑ روپے مالیت کے انعامات رکھے گئے ہیں۔ بیشتر ڈاکوئوں کے سر کی قیمت 50 تا 60 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔ 5 اضلاع میں ڈاکوئوں کے خطرناک ٹولے سرگرم عمل ہیں۔ شکارپور میں 146، گھوٹکی میں 28، اور کشمور کندھ کوٹ میں 64 ڈاکو جرائم کی وارداتیں کررہے ہیں۔ سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کے مطابق ڈاکوئوں کے پاس اینٹی ایئرکرافٹ گنیں اور مشین گنیں ہی نہیں بلکہ ایسے جدید ترین اور خطرناک ہتھیار بھی ہیں جو پولیس والوں کے پاس بھی نہیں ہیں۔ ان ڈاکوئوں کی سرپرستی بااثر سیاسی شخصیات، پیر، میر، بھوتار اور وڈیرے کررہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوپاتی‘‘۔
پولیس افسران کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ڈاکوئوں کے پاس بے حد جدید اور خطرناک اسلحہ موجود ہے۔ بروز بدھ 27 ستمبر کو کندھ کوٹ کے کچے کے علاقے سے سبزوئی قوم کے چند بچوں کو ایک راکٹ لانچر کا گولہ ہاتھ آیا۔ وہ اسے اپنے ساتھ گھر لاکر اس سے کھیلنے لگے۔ اسی اثنا میں یہ گولہ شدید دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا جس کی وجہ سے 5 بچوں سمیت گائوں کے 11 افراد جاں بحق ہوگئے۔
دریں اثنا سندھ کی نگراں حکومت نے کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف جس فوجی، رینجرز اور پولیس کے مشترکہ آپریشن کا اعلان کیا ہے اہلِ سندھ نے بہ حیثیتِ مجموعی اس کا زبردست خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ہماری زراعت، معیشت، امن و امان اور ذہنی سکون کو تباہی و بربادی سے دوچار کرنے والے ڈاکوئوں کے خلاف فوری آپریشن شروع کرکے ظالم، سفاک اور بے رحم ڈاکوئوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
ایک طرف سندھ بھر میں جرائم کی بے پناہ وارداتوں نے عوام کی زندگی اجیرن بنادی ہے تو دوسری جانب معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی اور اس کے بعد انہیں بے رحمی سے قتل کرنے کی افسوس ناک وارداتوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سندھ کی تہذیب و ثقافت میں اوائل ہی سے صنفِ نازک کو ایک خاص عزت، احترام اور مقام سے نوازا گیا ہے۔ دینِ اسلام کی یہاں آمد کے بعد تو اس میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے، لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی، جدید سائنسی اور ٹیکنالوجی پر مبنی آلات بشمول موبائل فون کے بے تحاشا، بے روک ٹوک منفی استعمال کی وجہ سے معصوم بچوں، بچیوں اور خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی اور انہیں قتل کرکے پھینک دینے کے سانحات میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب اس نوع کے الم ناک، کرب ناک اور دردناک واقعات رونما نہ ہوتے ہوں، جنہیں پڑھ، سن اور ٹی وی پر دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کیا ہمارا یہ وہی معاشرہ ہے جس میں ایک بیٹی کا مقام اور مرتبہ سات قرآن کے برابر قرار دیا جاتا تھا، جہاں ایک راہ چلتی خاتون کو دیکھ کر سارے مرد اسے راستہ دینے کے لیے احتراماً سر ایک طرف کرکے کھڑے ہوجایا کرتے تھے؟ اب تو زوال اور انحطاط نے کچھ اس طرح سے راہ دیکھ لی ہے کہ ہولناک اور لرزہ خیر سانحات رونما ہورہے ہیں اور وہ بھی بڑے تواتر اور تسلسل کے ساتھ۔ جدید برقی آلات اور موبائل فون کے غلط استعمال نے اخلاقی اقدار کا وہ جنازہ نکالا ہے جس کی روداد لکھتے ہوئے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے، قلم کانپنے سا لگتا ہے۔ یہ قانون کی عمل داری نہ ہونے کا ایک واضح اور منہ بولتا مظہر ہے۔
ابھی رانی پور کی حویلی میں 14 اگست کو بہیمانہ انداز میں زیادتی اور تشدد کے بعد قتل کی جانے والی معصوم کم سن بچی فاطمہ، قبل ازیں شہیدِ ماحولیات ناظم جوکھیو، اُم رباب کے والد اور چچا، بہادر اور دلیر صحافیوں جان محمد مہر اور عزیز میمن کے قاتل بھی کیفر کردار کو نہیں پہنچ سکے تھے کہ 6 ستمبر کو مسلم کالونی جیکب آباد کی 10 سالہ معصوم اور کم سن بچی حسینہ ولد سوہنو خان کھوسو کو بھی نامعلوم سفاک قاتلوں نے گھر سے قریبی دکان پر دودھ خرید کر لے جانے کے لیے جاتے ہوئے راستے میں اغوا کرلیا۔ اسے پہلے شدید تشدد کا نشانہ بنایا، اس سے زیادتی کی اور پھر بڑی بے دردی سے اس کا گلا گھونٹ کر قتل کرنے کے بعد قریبی نہر رندواہی میں پھینک دیا۔ معصوم حسینہ کھوسو کے والد اپنی بیٹی کی جدائی کے صدمے سے نڈھال ہیں۔ اتنے دن گزرنے کے باوجود تاحال معصوم بچی حسینہ کھوسو کے قاتل گرفتار نہیں ہوسکے ہیں۔ جیکب آباد کی سیاسی و سماجی تنظیموں، ضلعی صدر جے یو آئی ڈاکٹر اے جی انصاری اور امیر ضلع جماعت اسلامی جیکب آباد دیدار لاشاری نے اس سانحے کی سخت مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ کتنی الم ناک بات ہے کہ محکمہ پولیس جیکب آباد میں 6 ستمبر کو رونما ہونے والے اس سانحے کے ملزمان کو گرفتار نہیں کرسکا جبکہ ہم ایک جدید سائنسی اور ترقی یافتہ عہد میں سانس لے رہے ہیں لیکن قاتلوں کی گرفتاری کے لیے جدید سائنس و ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔
امیر صوبہ جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی اور سیکریٹری اطلاعات سندھ مجاہد چنا نے بھی مذکورہ سانحے میں ملوث قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈیڑھ ماہ پیشتر اسی طرح کے ایک سانحے میں وارہ ضلع قمبر شہداد کوٹ کی 16 سالہ معصوم بچی نازیہ چنا کو بھی 5 ملزمان نے اغوا کرکے شدید تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ورثا اور اہلِ خانہ شدید متاثرہ اس بچی کو بہ غرضِ علاج کراچی لے گئے جہاں وہ مقامی اسپتال میں ایک ماہ تک زیر علاج رہی اور اس عرصے میں سسکتی رہی، بلکتی رہی، تڑپتی رہی اور بالآخر شدید زخموں اور خود پر روا رکھے گئے ظلم و زیادتی کی تاب نہ لاتے ہوئے گزشتہ سے پیوستہ روز دم توڑ گئی۔ کہاں ہے قانون اور حکومت کی رٹ؟ لگتا ہے کہ ہم کسی مہذب معاشرے میں نہیں بلکہ جنگل میں رہتے ہیں، لیکن بہ قول کسے جنگل کے بھی کچھ قانون ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تو قانون کی عمل داری اور اس کا نفاذ کہیں پر بھی اور کسی سطح پر بھی دکھائی نہیں دیتا۔ 27 ستمبر کو شکارپور میں اپنی بیمار والدہ کے ہمراہ مقامی اسپتال میں آنے والی لڑکی ثنا ابڑو کو امداد برڑو نامی اسپتال کے ایک ملازم نے زبردستی زیادتی کا نشانہ بنایا جسے پولیس نے گرفتار کرلیا ہے اور اللہ کرے کہ اُسے کیفرِکردار تک بھی پہنچانا ممکن ہوسکے، کیوں کہ ہمارے ملک اور خصوصاً صوبہ سندھ میں حکومت اور قانون کی رٹ اور اس کا نفاذ عملاً ختم ہوچکے ہیں، عوام صرف اللہ کے سہارے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ اوپر جتنے بھی سانحات کا ذکر ہوا ہے وہ بذریعہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا منظرعام پر آنے کی وجہ سے ہائی پروفائل بنے اور پولیس قدرے متحرک ہوسکی، ورنہ ہر روز رونما ہونے والے دیگر بے شمار سانحات کی طرح یہ بھی غت ربود ہوجاتے اور کسی کو ان کا پتا بھی نہ چلتا۔ سندھ میں ماضی اور ماضیِ قریب میں رونما ہونے والے تمام سانحات کے ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچاکر انہیں سخت ترین اور عبرت ناک قرار واقعی سزائیں دی جائیں، ورنہ بدامنی اور لاقانونیت کی آگ حکمران اور مقتدر طبقے کے گھروں اور ایوانوں تک بھی پہنچ کررہے گی اور بالآخر انہیں بھی خاکستر کر ڈالے گی۔
ایسا نہ ہو کہ مرض بنے پھر لادوا
ایسا نہ ہو کہ پھر تم بھی مداوا نہ کر سکو