خواہ قیاسی سہی، آدمی کے ’تصور‘ پر یونانی فکر ارسطوئی فلسفے کا ذکر کیے بغیر نامکمل ہے۔ ایک نظر دیکھتے ہیں کہ ارسطو نے افلاطون کے کلیہ ’تصور‘ کی قدر میں کیسا اور کتنا اضافہ کیا ہے، اور کس طرح اس کا ازسرِنو جائزہ لیا ہے۔ اگرچہ یہ سرسری طور پر ’تصور‘ کی علمی حیثیت سے متعلق ہے، کہ آیا یہ سچ کے لیے تعمیری کردار ادا کرتا ہے یا جھوٹ کا مددگار بنتا ہے۔
ارسطو آدمی کے ’تخیل‘ کو ماورا الطبیعات سے علم النفس کی سطح پر لے آتا ہے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ارسطو ’خیالِ پیکر‘ کو مثالیت پسندی کے بجائے حقیقت پسندی کے پیمانے میں جانچتا ہے، اور افلاطون سے اس فرق کا مطلب ’تخیل‘ کو عقل و دل کے درمیان ذہن کی مصالحت کاری قرار دیتا ہے۔ یہ یہاں خدائی خلّاقیت کی کوئی بت پرستانہ نقل نہیں ہے۔
بوطیقا Poetics(1447-8) میں ارسطو ’نقالی‘ کے تصور کی ازسرنو تعریف کرتا ہے۔ وہ اسے آدمی کے ہنر میں ایک مثبت عنصر سمجھتا ہے کہ جو آدمی کے وجود کی عالمی معنویت متعین کرتا ہے۔ جیسا کہ یہ ’نقل‘ ایک عمل کا تخلیقی مظہر ہو، ایسی اسطوری کہانیاں جو انسان کے روزمرہ تجربات کو کائنات کی سچائیوں سے الگ تھلگ کردیتی ہوں۔ یہ ہمارے وجود کو ایک ارفع احساس کے ساتھ متحد اور ہم رنگ بناکر پیش کرتی ہیں۔ یہ حقیقت کا ازسرنو بیان ایسے اکتشاف کے طور پر کرتی ہیں کہ جو اشیا کی ’لازمی‘ جہت سامنے لے آئے۔ اس طرح ارسطو یہ باور کرنے کے قابل ہوجاتا ہے کہ افلاطون کا ملامت زدہ ’تخلیق کار‘ جھوٹ کی نسبت ’سچ‘ کے شاعرانہ پہلو کو نمایاں کرتا ہوا نظر آتا ہے، یہ ظاہر کم اور پوشیدہ زیادہ ہے۔ گوکہ بوطیقا میں آدمی کے ’تخلیقی تصور‘ پر زیادہ کچھ نہیں کہا گیا، مگر یہ نظریہ ارسطو کے دیگر رسالوں سے مطابقت میں ہے۔ ارسطو ’نقل‘ کو افلاطون کی مانند ’خارجی نقل‘ نہیں سمجھتا بلکہ اسے آدمی کے نفس کا ترجمان باور کرتا ہے۔ یونانی روایت میں صرف ارسطو ہے جس نے سب سے پہلے آدمی کے تخلیقی تصور کو اُس کے نفس میں جامع نظام کے طور پر پیش کیا۔ عقل اور احساس میں مصالحت کی راہ نکالی، آدمی کے وصف ’تصور‘ کو داخلی اور خارجی وجود کے درمیان پُل قرار دیا، اسے باہر کی دنیا کی جانب کھلنے والی کھڑکی اور عقل کا آئینہ دونوں قرار دیا۔ دراصل افلاطون کی نسبت ارسطو کا طریقہ تحقیق زیادہ سائنسی ہے۔ وہ De Insomniis میں افلاطون کا یہ نظریہ رد کرتا ہے کہ انسان کے نفس میں خدا پراسرار تصویریں یا تصورات ودیعت کرتا ہے۔ ارسطو کہتا ہے کہ آدمی کے تخیل کی شبیہیں حواس کے تجربات کا حاصل ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ ’تصور‘ اور ’احساس‘ ایک ہیں، ’تصور‘ ’احساس‘ کی ایک نوع ہے، گوکہ دونوں کا طریقہ اظہار مختلف ہے۔ اور اس طرح خواب بھی ’تخیل‘ ہی کی ایک صورت ہے، اور تصورکا ایک ڈھنگ ہے۔ (De Insom,459a)
ارسطو افلاطون کی آسمانی بصیرتوں کو رد کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ سارے خواب وخیال ہمارے بدنی تاثرات ہیں جو عقل سے حالتِ نیند میں سرزد ہوتے ہیں یا بیماری میں بیدار ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو گہری بصیرتوں کے دعوے دار ہیں ’تصور‘ اور ”تصور کی ترجمانی‘‘ میں عموماً الجھ جاتے ہیں۔ (De Memoria,451a)۔ اس الجھن سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ تسلیم کرلیا جائے کہ ہماری بصارتوں، خیالی تصویروں، اورتخیلات کا مرکزی ذریعہ ہماری اُن یادداشتوں کا ذخیرہ ہے جوحقیقت کے حواسی تجربات سے درآمد ہوتا ہے۔ (De Mem,451)
ارسطو نے افلاطون کی ’مثالیت پسندی‘ سے انحراف کرکے ’حقیقت پسندی‘ اختیار کی ہے جس میں آدمی کا ’تخیل‘ اور آدمی کا ’علم‘ بغیر دقت مثبت پیش رفت کرتے ہیں، یہ ایسی صورتوں میں توازن قائم کرتی ہے جو حقیقت کی معنویت کو ماورا الطبیعات تک محدود نہیں رہنے دیتیں، بلکہ حواس کی دنیا میں آباد کرتی ہیں۔ یہاں تصورات الہامی اور جوہری نہیں رہے۔ یہ اب آدمی کی فکر میں درجہ بند کردیے گئے۔ یہ یہاں حقیقی دنیا کے حسی تجربات کے ترجمان بن چکے ہیں۔
یوں ارسطو نے ماورا الطبیعات صورتوں کو حقیقت کی دنیا میں اتار دیا ہے۔ اس طرح انہیں خیالی باتیں نہیں کہا جاسکتا، بلکہ اب یہ حواس کی دنیا میں ’وجود‘ کا ذریعہ علم بن چکی ہیں۔ انہیں آدمی کے مظہری تجربات کے طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ ’فکر‘ بغیر ’تصور‘ محال ہے۔ بغیر مواد، یہ بے سمت ہے۔ آدمی کا موجودات سے رشتہ خیال اور حرکت کے گہرے تعلق پر انحصار کرتا ہے۔ ارسطو آگے چل کر ’تصور‘ کو آدمی کی خواہش سے جوڑتا ہے ’’جب تخیل حرکت کرتا ہے خواہش کے بغیر آگے نہیں بڑھتا‘‘۔ (De An,433a)
خواہش کے سبب، آدمی کا اس طرح تصور کرنے کا مطلب یہ ہوا ’’سب انسان علم کی آرزو کرتے ہیں‘‘، علم کا حصول بہترین عمل سمجھا جاتا ہے، اور اسے آدمی کی قوتِ ارادی کا محرک تسلیم کیا جاتا ہے۔ علم وہ ہدف ہے کہ جس کی سمت ہم سب حرکت کرتے ہیں۔ حرکت بغیر آرزو ممکن نہیں، اور یہ آرزو مادی ضرورت سے ذہانت کی قلمرو تک ’تصور‘ سے مکالمہ کرتی ہے۔ (De An,433-4)
ارسطو مثال دیتا ہے کہ جب کوئی تجربہ خوف اور تکلیف سے دوچار کرتا ہے، اُس کا بُرا تصور قائم ہوجاتا ہے۔ اس طرح محبت اور مسرت کے تجربات بھی اچھے تصور کا محرک بنتے ہیں۔ (Rhet.1,11,17) اس طرح ’تصور‘ آدمی کے اخلاق اور رویّے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ بہت سے ایسے عمل ہیں جن سے ہم اس لیے گریز کرتے ہیں کہ تکلیف کا باعث ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح بہت سے ایسے کام ہیں جن کے لیے ہم اس لیے تگ ودو کرتے ہیں کہ خیر کا سبب بنتے ہیں۔
تاہم، ارسطو حواس کے تجربات سے بننے والے ’تصور‘ اور غور و فکرسے بننے والے ’تصور‘ میں امتیاز قائم کرتا ہے۔ پہلا وصف انسانوں اور جانوروں دونوں میں پایا جاتا ہے، جبکہ دوسرا وصف صرف آدمی کا ہے۔ (De An.429a, 433a-b) ایسا صرف اس لیے ہے کہ ایک جانور مناظر کی مدد سے حرکت کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ مگر ’تصور‘ کرنا اور اس کا اظہار کرنا آدمی کا خاصا ہے۔ آدمی حسی تجربات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر ’عام فہم‘ بناتا ہے۔ ارسطو کے لیے ’تصور‘ (phantasia) عقل و دل کے درمیان مصالحت کار ہے۔
بہرحال ارسطو افلاطون کی مانند اس بات پر زور دیتا ہے کہ ’تصور‘ بہرصورت ’عقل‘ کا تابع ہے۔ یونانی فکر کے دونوں بانیان کی نظر میں آدمی کا ’تصور‘ مالک نہیں غلام ہے، معنی کا خادم ہے، نقل ہے، نہ کہ اصل۔