انجمن اساتذہ کے وفد کی حافظ نعیم الرحمٰن سے ملاقات
جامعہ کراچی ملک کی سب سے قدیم اور اہم یونیورسٹی ہے، یہ طویل عرصے سے ملک کے معروف تعلیمی اداروں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کی بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے سب سےبڑے اور اہم شہر کراچی میں واقع ہے۔ 1951ء میں قائم ہونے والی اس یونیورسٹی نے قوم کے فکری منظرنامے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم ملک کی بہت سی یونیورسٹیوں کی طرح جامعہ کراچی کو بھی متعدد چیلنجز کا سامنا ہے جو اس کی مجموعی صورتِ حال کو متاثر کررہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں جامعہ کی صورتِ حال نازک ہوگئی ہے۔ جامعہ کو مالی مشکلات، انتظامی مسائل اور سیاسی مداخلت کا سامنا ہے۔ طلبہ اور اساتذہ پریشان ہیں اور احتجاج کررہے ہیں۔
بدانتظامی اور 6سال سے گرانٹ نہ ملنے کی وجہ سے اس کی آمدنی میں کمی آرہی ہے، جبکہ اخراجات میں اضافہ ہورہا ہے۔ نتیجے کے طور پر اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے طلبہ کی فیس میں اضافہ کرنا پڑا ہے۔ انجمن اساتذہ کا کہنا ہے کہ ایوننگ پروگرام کی مالی حالت خراب ہے، 30 فیصد بچے اپنی فیس دینے میں کامیاب ہیں، جبکہ 70فیصد نہیں دے سکے ہیں۔ اور بات ایوننگ کی ہی نہیں، مارننگ پروگرام کی کی بھی فیس اس قدر بڑھا دی گئی ہے کہ متوسط طبقے کے لیے قائم یونیورسٹی میں والدین کے لیے بچوں کو پڑھانا مشکل ہوگیا ہے۔
اسی طرح اس کو انتظامی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ جامعہ کے انتظامی ڈھانچے میں بہت سے مسائل ہیں، جس سے فیصلہ سازی میں تاخیر ہوتی ہے اور اس کی انتظامی بدحالی بڑھتی جارہی ہے، یہاں کرپشن پہلے سے موجود ہے لیکن کچھ عرصے سے اس میں اضافے کی خبریں ہیں۔ مادرِ علمی کو سیاسی مداخلت کا بھی سامنا ہے اور موجودہ وائس چانسلر پر بھی اس پس منظر میں انگلیاں اٹھتی ہیں۔ ان سارے نکات کی روشنی میں کراچی یونیورسٹی کی ناگفتہ بہ صورت حال کی وجہ سے طلبہ کی تعداد میں کمی آرہی ہے، تعلیمی معیار میں کمی آرہی ہے اور معاشرے میں اس کا مقام کم ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جارہا ہے۔
اس وقت اساتذہ سراپا احتجاج ہیں، وہ احتجاج کے ساتھ شہر کے اہم لوگوں سے جو مادرِ علمی کا درد رکھتے ہیں، رابطے کررہے ہیں۔ اسی سلسلے میں انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے وفد نے ادارہ نورحق میں سیکریٹری انجمن اساتذہ ڈاکٹر فیضان نقوی کی قیادت میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن سے ملاقات کی اور انہیں جامعہ کراچی کے مسائل سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی بھی موجود تھے۔ وفد میں جوائنٹ سیکریٹری انجمن اساتذہ ڈاکٹر اسد تنولی، ارکان مجلس عاملہ انجمن اساتذہ جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر انتخاب الفت، ڈاکٹر معروف بن رؤف، ڈاکٹر عبدالجبار خان اور ڈاکٹر ندا علی شامل تھے۔ ڈاکٹر فیضان نقوی نے جامعہ کراچی کی موجودہ صورت حال اور اساتذہ کی جانب سے کی جانے والی ہڑتال کے حوالے سے اساتذہ کا مؤقف پیش کیا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے وفد کا ادارہ نورحق آمد پر خیرمقدم کیا اور اساتذہ کے مطالبات کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے تمام اساتذہ کے ساتھ ہیں، جامعہ کراچی شہر کی سب سے بڑی مادر علمی ہے، اس کے تمام مسائل کے حل کی جدوجہد میں اساتذہ اور طلبہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ کراچی یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات بنیادی تعلیمی سہولیات سے محروم ہیں، یونیورسٹی کا انفرااسٹرکچر مکمل تباہ ہوچکا ہے، کلاس روم اور لیبارٹریز کا برا حال ہے، ٹرانسپورٹ کا نظام بری طرح متاثر ہے جس کی وجہ سے ہزاروں طلبہ و طالبات کو روزانہ یونیورسٹی آنے جانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ہم سب کو مل کر جامعہ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی، کراچی کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ جامعہ کراچی برباد ہوگا تو ملک کا مستقبل تباہ ہوجائے گا۔ ڈاکٹر فیضان نقوی نے جامعہ کراچی کے اساتذہ کی جانب سے مطالبات کے بارے میں بتایا اور کہا کہ جامعہ کراچی کے مالی و انتظامی معاملات انتہائی انقلابی اقدامات کے متقاضی ہیں، شیخ الجامعہ کا رویہ اُن کے عہدے کے لیے موزوں نہیں ہے، اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اساتذہ اس مطالبے میں حق بجانب ہوں گے کہ شخصیت کو بدلا جائے۔ بارہا یاددہانی کے باوجود تمام مسائل جوں کے توں ہیں، اب تک وعدوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ تنخواہوں کی ادائیگی سے لے کر سلیکشن بورڈز، اسپتال پینل کی بندش، تنخواہوں میں بجٹ کے مطابق اعلان کردہ اضافے سمیت تمام امور تاحال حل طلب ہیں، ان کی تفصیلات سے سبھی واقف ہیں۔
حافط نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ایوننگ کی تنخواہیں مکمل اور فوری ادا کی جائیں، سلیکشن بورڈز کا اجلاس فوری منعقد کیا جائے، پینل اسپتال بلاتاخیر بحال کیے جائیں، ایم فل/ پی ایچ ڈی استثناء فیس فی الفور بحال کی جائے۔ یونیورسٹی کے تباہ حال انفرااسٹرکچر کی بحالی بھی ضروری ہے۔ انتظامی معاملات سنبھالنا شیخ الجامعہ اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اساتذہ کی نہیں۔ پی ایچ ڈی کرنے والے اساتذہ کی ایڈہاک اسسٹنٹ پروفیسر تعیناتی جو سینڈیکیٹ سے منظور شدہ ہے، بحال کی جائے۔ یونیورسٹی میں تحقیق کی بحالی کے لیے فنڈز کا فی الفور اجراء کیا جائے۔ یونیورسٹی کا بجٹ جو گزشتہ چھے سال سے منظور نہیں ہوا یہ ایک مالی بدعنوانی ہے، اس کی تحقیقات بذریعہ کمیشن کروائی جائے۔ تنخواہوں میں بجٹ 2023ء کا اعلان کردہ اضافہ بلاتاخیر شامل کیا جائے۔ اسٹیچوری باڈیز سینیٹ، سینڈیکیٹ، اکیڈمک کونسل وغیرہ کے اجلاس یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق مقررہ وقت پر منعقد کیے جائیں۔ کیونکہ جامعہ کراچی اس شہر کی سب سے اہم اور غریب و متوسط طبقے کے بچوں کی تعلیمی پناہ گاہ ہے، اگر یہ بھی مکمل تباہ ہوگئی تو اس شہر کے بچے کس پبلک یونیورسٹی میں پڑھیں گے! اسی لیے امیر جماعت اسلامی کراچی نے اگلے روز ہی جامعہ کراچی کے معاملات پر اہم پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی، سیکریٹری کراچی منعم ظفر خان بھی موجود تھے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے سندھ کی نگراں حکومت سے مطالبہ کیا کہ ”کراچی یونیورسٹی اور وفاقی اردو یونیورسٹی کی گرانٹس میں اضافہ اور اساتذہ و طلبہ کے مسائل حل کیے جائیں۔ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر خود آگے آئیں اور اساتذہ کے ساتھ مل کر معاملات بہتر کیے جائیں، اردو یونیورسٹی کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد منتقل نہ کیا جائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جامعہ کراچی اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں اساتذہ و طلبہ شدید پریشان ہیں، اردو یونیورسٹی میں باقاعدہ وائس چانسلر کا تقرر ہی نہیں کیا جاتا اور اب ایک سازش کے تحت اس کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد منتقل کرنے کی تیاری کی جارہی ہے، جامعہ کراچی میں اساتذہ ہڑتال پر ہیں۔ ماضی میں بھی جب اساتذہ ہڑتال پر گئے تھے تو ہم نے کہا کہ سب مل کر مسائل حل کریں، لیکن جب صورتِ حال یہ ہو کہ 6سال سے جامعہ کی سینیٹ میں جامعہ کا بجٹ ہی پیش نہ کیا گیا ہو، اساتذہ اپنی تنخواہوں، واجبات اور دیگر ضروری سہولتوں کے حوالے سے پریشان ہوں اور کہیں ان کی شنوائی نہ ہورہی ہو تو پھر کیا کیا جائے؟ جامعہ کراچی میں نہ صرف اساتذہ بلکہ طلبہ بھی پریشان ہیں، طلبہ کو ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولتیں میسر نہیں ہیں، فیسوں میں اضافے کے باعث صورت حال یہ ہے کہ 70فیصد طلبہ اپنی فیسیں جمع نہیں کراسکے۔ ریسرچ کے نام پر چند مخصوص جامعات کو گرانٹ دی جارہی ہے۔ اس صورت حال میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کو خود آگے آنا ہوگا اور حکومت سے بات کرنی ہوگی۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے ایک اہم بات سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہی کہ اگر صوبے کی نگراں حکومت پیپلز پارٹی کی ایکسٹینشن نہیں ہے تو کچے اور پکے کے ڈاکوؤں کے خلاف حقیقی معنوں میں کارروائی کرے، سسٹم کے نام پر کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کو گرفتار کرے، اسٹریٹ کرائمز اور مسلح ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث عناصر اور ان کے سرپرستوں کو قانون کی گرفت میں لائےـ
ہم اس میں اضافہ یہ کریں گے کہ نگراں وزیراعلیٰ جامعہ کے مسائل کو بھی دیکھیں، یہاں ہونے والی کرپشن اور تباہی کا بھی نوٹس لیں۔ حافظ نعیم اور نگراں وزیراعلیٰ کے کہنے پر اساتذہ نے احتجاج کا سلسلہ موقوف کردیا ہے اور امید ہے حکومت بھی ان معاملات کو سنجیدہ لے گی۔ جامعہ کراچی شہر کی صرف ایک تعلیمی درس گاہ نہیں بلکہ یہ یہاں کے لوگوں کا مستقبل اور امید ہے، یہ ٹھیک ہوگی تو شہر پر اس کے مثبت اثرات پڑیں گے۔