عالمی بینک اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی پریشان کن رپورٹیں
ماضی میں ایک بیانیہ تھا ”پہلے احتساب پھر انتخاب“۔ آج چالیس سال بعد ایک بیانیہ بنایا جارہا ہے کہ ”پہلے معاشی استحکام پھر انتخاب“۔ احتساب کی بات ہو یا ملکی معیشت کے استحکام کا نعرہ لگے، دونوں میں سے چاہے کسی ایک بیانیے کا ہی تجزیہ کریں، ملک میں جمہوری عمل پہلی ترجیح نہیں رہی۔ ملک میں بے شمار سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو احتساب اور معاشی استحکام کے بیانیے کے پھیلائو کے لیے دستیاب رہتی ہیں، اب بھی کم و بیش یہی صورتِ حال ہے۔ بلاشبہ ملک کے کمزور معاشی حالات بھی ایک حقیقت ہیں۔ ملک کے معاشی حالات اور قومی معیشت کس قدر دبائو میں ہیں اس کی ایک ہلکی سی جھلک دو عالمی سطح کے تسلیم شدہ اداروں کی تازہ رپورٹ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ عالمی بینک نے پاکستان کے معاشی حالات پر ایک رپورٹ مرتب کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اس وقت 12 کروڑ50لاکھ افراد غربت میں جکڑے ہوئے ہیں، بے روزگاری کی شرح دوگنا ہوچکی ہے اور یہ کُل آبادی کا 12.2فیصد ہے، سرکاری شعبہ غیر موثر، ٹیکس نظام تنگ، مسخ شدہ اور غیر مساوی ہے، بچوں کی نشوونما میں غیر معمولی رکاوٹیں ہیں، اور پاکستان ایک ایسے موڑ پر ہے جہاں اسے کم از کم اصلاحاتی ایجنڈے پر سیاسی جماعتوں، ملکی اداروں اور بیوروکریسی میں اتفاق رائے پیدا کرکے ایک وسیع البنیاد پالیسی لانے کی ضرورت ہے۔ عالمی بینک نے ’’روشن مستقبل کے لیے اصلاحات…فیصلہ کن وقت‘‘ کے عنوان سے ایک مسودے کا اجرا کیا ہے جس میں کم انسانی ترقی، غیر پائیدار مالیاتی صورتِ حال، زراعت، توانائی، نجی شعبہ جات کو ضابطے میں لانا اور ان شعبوں میں اصلاحات اور دیگر اقدامات آئندہ حکومت کے لیے ترجیحی قرار دیئے گئے ہیں۔ عالمی بینک نے پانچ بڑے شعبوں کی نشاندہی کی ہے اور قومی سیاسی جماعتوں اور پالیسی سازوں سے کہا ہے کہ وہ میثاقِ معیشت کے لیبل کو چھوڑیں اور بیمار معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر وسیع البنیاد اتفاقِ رائے پیدا کریں۔ پراپرٹی، زراعت اور کاربن کے اخراج پر ٹیکس لگائیں۔ براہِ راست ٹیکس بڑھایا جائے اور قومی معیشت کے لیے جنرل سیلزٹیکس پر انحصار کم کیا جائے۔ ٹیکس وصولیاں جی ڈی پی کے 5 فیصد تک بڑھائی جائیں اور اخراجات 2.7فیصد تک کم کیے جائیں۔ عالمی بینک نے سرکاری اداروں کی بہتری، موسمیاتی تبدیلیوں سے موافقت رکھنے والے انفرااسٹرکچر کی تعمیر، برآمدات اور سرمایہ کاری بڑھانے اور بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملی تیار کرنے کے اہم اقدامات بھی تجویز کیے ہیں۔
بلاشبہ ملک میں مہنگائی اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت کے باعث سنگین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ قومی سیاسی اور عسکری قیادت کو بھی موجودہ معاشی صورتِ حال کا ادراک کرنا ہوگا اور پاکستان کو خود ان بحرانوں سے نکلنے کی تدبیر کرنا ہوگی۔ اشرافیہ سے ٹیکس نہیں لیں گے تو ملک تباہ ہوجائے گا۔ جب تک صاحبِ حیثیت افراد سے ٹیکس نہیں لیں گے مسائل ختم نہیں ہوں گے۔ معیشت کو درست کرنے کے لیے اخراجات کو کم کرنا پڑے گا۔ ملک میں 40 فیصد مہنگائی ہے جبکہ مڈل کلاس تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔ مہنگائی نوٹ چھاپنے کی وجہ سے ہے۔ اس وقت 261 ارب روپے نوکری پیشہ افراد سے لیے جارہے ہیں، تمام بڑے ایکسپورٹرز سے 61 ارب روپے ٹیکس لیا جارہا ہے۔ ملک 20 سال سے تنزلی کا شکار ہے، اب ہم اس سے زیادہ نیچے نہیں گر سکتے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ بتارہی ہے کہ اس وقت پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے، اگر صحیح فیصلے کرلیے تو درست راستے پر چلے جائیں گے۔ اگر ہم صحیح فیصلے نہ کرپائے تو معاشی طور پر ہمارے لیے شدید مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ پاکستان ایشیائی ممالک میں 40 سال پہلے سب سے آگے تھا، آج سب سے پیچھے ہے۔ اگر ملک میں غربت کی شرح بڑھ گئی ہے تو 12 کروڑ لوگوں کے لیے راشن کا نظام لانا پڑے گا۔ پاکستان میں40 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ پاکستان کے عوام کے 50 فیصد مسائل صرف انتظامی معاملات میں بہتری سے حل ہوسکتے ہیں۔
عالمی بینک سے ملتی جلتی ایک رپورٹ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے اکنامکس پالیسی کے وزیٹنگ پروفیسر اسٹیفن ڈیرکون نے تیار کی ہے۔ اُن کی رائے میں حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ اب پاکستان کی اشرافیہ بھی اپنی طاقت اور قانونی جواز کھو رہی ہے، چنانچہ اب ان کو تبدیل ہونا ہوگا تاکہ معیشت ازسرنو بحال ہوسکے اور باہر سے آنے والے ڈالروں پر ملک کا انحصار ختم ہو۔ پاکستانی معیشت بری حالت میں ہے اور وقت آگیا ہے کہ اسے زنجیروں سے نجات دلائی جائے۔
اگر یہ حقائق جو اِن رپورٹوں میں بیان کیے گئے ہیں، نصف حد تک بھی درست ہیں تب بھی یہ بات بہت تشویش ناک ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو آئی ایم ایف کے آئندہ بیل آئوٹ پیکیج سے بھی کوئی حل نہیں نکلے گا۔ حالات تبدیل کرنے کے لیے اشرافیہ کو اب سامنے آنا ہوگا اور خود کو تبدیل کرنا ہوگا، اس کے بغیر صورتِ حال کا کوئی حل نہیں ہے۔ ماہرینِ معیشت اس نکتے پر متفق ہیں کہ ملک کی اشرافیہ ”اسٹیٹس کو“ برقرار رکھنے کے لیے درکار استحکام پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، لیکن اب ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ صرف ”اسٹیٹس کو“ برقرا رکھنے سے کوئی حل نہیں نکل پائے گا۔ یہ ”اسٹیٹس کو“ ایسا کھیل ہے جس کا حاصل صفر جمع صفر ہے۔ پاکستان کی معیشت بری حالت میں ہے اور کوئی ملک کی بیمار معیشت کو بچا نہیں رہا۔ اس کا مشترکہ حل تلاش کرنا ہوگا۔ ہم واقعی ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں اور عالمی معاشی ماہرین ہماری توجہ اس جانب مبذول کرا رہے ہیں کہ ملک کا معاشی ماڈل اب پائیدار نہیں رہا، اور اس کے اشارے غیر متوازن میکرو اکنامک اشاریوں سے مل رہے ہیں جس کا مطلب غیر ملکی پارٹنرز پر مسلسل انحصار ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستانیوں کا معیار زندگی اپنے دیگر غیر ملکی ہم عصروں کی نسبت مسلسل گررہا ہے۔ پاکستان کو دنیا کی معیشت میں بھرپور حصہ ڈالنے، میکرواکنامک پائیداری کے حصول، بڑی بچتوں اور سرمایہ کاری، منڈیوں کو وسائل فراہم کرنے کی اہلیت دینے اور ملک میں پُرعزم، معتبر اور قابل حکومت کے حصول کے لیے بہت بڑا پالیسی شفٹ چاہیے۔ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی ملک میں سرمایہ کاری کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹیں ہیں جو کہ ایک کمزور اور اکثر اوقات متزلزل کارکردگی کا سبب بنتی ہیں، چنانچہ گورننس کے وہ اشارے درکار ہیں جو کہ مشکل اصلاحات کے لیے وسیع البنیاد سیاسی عزم کا اظہار کرتے ہوں۔ جہاں تک سرمایہ کاری کا معاملہ ہے سرکاری سرمایہ کاری کے اخراجات کی ترجیحات کا ازسرنو تعین کرنا ہوگا، کیونکہ قومی خزانے کے ایک ایک پیسے کو اس موثر انداز میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں معیار حاصل ہوسکے۔ تجویز یہ ہوسکتی ہے کہ پی ایس ڈی پی میں تبدیلیاں کی جائیں اور ارکانِ پارلیمنٹ کی اسکیمیں ختم کی جائیں۔ بجلی کے شعبے کی ایک مثال لے لی جائے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران اس شعبے میں 110 ہزار ارب (11 ٹریلین) سے 140 ہزار ارب (14 ٹریلین) روپے ضائع ہوئے ہیں۔
ملک کے اس معاشی پس منظر میں ہمیں ملکی سیاست نامہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جس دن سے شہبازشریف نے ایون فیلڈ کے فلیٹ کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کیا ہے کہ میاں صاحب 21 اکتوبر کو واپس آرہے ہیں، یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ نوازشریف کے استقبال کو کتنے لوگ آئیں گے؟ نوازشریف بہت عرصے سے خاموش تھے، اب دھیرے دھیرے ان کے بیانات پھر منظرعام پر آنے لگے ہیں۔ وہ کبھی عمران خان کو لانے والوں پر برستے ہیں تو کبھی امن و آشتی کا پیغام دیتے ہیں۔ اب نوازشریف کو اس ملک سے گئے چار برس گزر چکے ہیں۔ ان چار برسوں میں یہ ملک بہت بدل چکا ہے۔ سابق فوجی جرنیلوں اور ریٹائرڈ ججوں کے بارے میں سربراہ مسلم لیگ (ن) نوازشریف کے مؤقف میں اچانک تبدیلی پارٹی صفوں میں بے چینی کا باعث بن رہی ہے، بہت سے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ اس طرح کے بے باک بیانات اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کو دعوت دے سکتے ہیں۔ پارٹی کے متعدد راہنمائوں کا خیال ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) طاقتور حلقوں کی ”پسندیدہ“ سیاسی جماعت بن چکی ہے۔ نوازشریف کی جانب سے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، جنرل (ر) فیض حمید اور سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور ثاقب نثار کے احتساب کا سخت مؤقف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کو خراب کرسکتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے اعلان کے مطابق نوازشریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آنے والے ہیں، وہ جن جرنیلوں اور ججوں پر 2017ء میں خود کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی ”سازش“ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں اُن کے ”کڑے احتساب“ کے دیرینہ مطالبے کو ترک کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔ اسی لیے شہبازشریف اور مسلم لیگ(ن) میں ان کے ہم خیال اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کے لیے قائل کرنے کی پوری کوشش میں ہیں۔ پارٹی کے کچھ راہنماؤں کا خیال ہے کہ باجوہ مخالف بیانیے میں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ تین سال قبل نوازشریف کی جانب سے جنوری 2020ء میں جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے مسلم لیگ(ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف کو بھیجا جانے والا تحریری پیغام ان کے آج کے بیانیے سے متصادم ہے جو وہ اپنی حکومت کے خلاف سازش کے حوالے سے اختیار کررہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے جنوری 2020ء میں غیر مشروط انداز سے تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے پیش کی گئی قانون سازی کی حمایت کی تھی۔ نوازشریف کی رضامندی کے بعد ہی جنرل باجوہ کو تین سال کی توسیع ملی تھی۔ اب نوازشریف جنرل باجوہ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض، سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ اور جسٹس اعجازالاحسن کے احتساب کی باتیں کررہے ہیں کہ ان لوگوں نے عمران خان کو لانے کی سازش کی۔ جن لوگوں نے سازش کی اُن کے ہی ’’سربراہ‘‘ کو تین سال کی توسیع کیوں دی؟ مسلم لیگ(ن) کے اندر ایک دھڑا سمجھتا ہے کہ 2014ء میں جنرل پرویزمشرف کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کرنے کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے، ماضی کو بھول کر مصالحت کی طرف جانا چاہیے، اور اس موضوع کو انتخابات تک چھوڑ دینا مناسب ہے۔ لیکن ایک گروہ سمجھتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ نوازشریف مزاحمتی بیانیے کے ساتھ آئیں۔ کیا یہ مزاحمتی بیانیہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلے گا؟ یہ کسی کی پسند اور ناپسند کا سوال نہیں ہے بلکہ اس وقت جو سیاسی منظرنامہ سامنے آرہا ہے یہ معاملہ اس کی ایک ہلکی سی شکل سے متعلق ہے۔ فی الحال نوازشریف کی 21اکتوبر کو واپسی حتمی ہے، اگر نوازشریف پاکستان نہ آئے تو پھر عام انتخابات کا معاملہ بھی کٹھائی میں پڑ سکتا ہے۔ فیصلہ ساز قوت متعدد آپشن پر کام کررہی ہے، کچھ تفصیلات بالکل سامنے ہیں اور کچھ نظروں سے اوجھل ہیں، تاہم آئندہ سیاسی منظرنامے کے حوالے سے منصوبہ بندی بڑی حد تک واضح اور حتمی ہے۔ اکتوبر میں نوازشریف کی وطن واپسی ہوگئی تو پاکستان میں سیاسی ہوائیں بدلنا شروع ہوجائیں گی، لیکن سیاست میں واپسی کے لیے نوازشریف کا تمام مقدمات میں بری ہونا یا کم از کم ضمانت ملنا ضروری ہے۔ یہ بات تو طے ہوچکی ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اس کا ازالہ ہوگا، لیکن صحیح وقت کا انتظار کیا جارہا ہے۔
؎اب اس پر بات کرتے ہیں کہ ملک میں انتخابات کے لیے اصل نقشہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) نے بالآخر اعلان کیا ہے کہ عام انتخابات جنوری کے آخری ہفتے میں ہوں گے۔ آئینی طور پر مقرر کردہ 90 دن کی حد میں دو ماہ گزر چکے ہیں، اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کی تاریخ دینے سے گریز کیا ہے۔ ایسا کرنے میں اس کی ہچکچاہٹ جان بوجھ کر ابہام پیدا کرنے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کا اپنے لیے ایک قانون ہے، جس کی خالق پی ڈی ایم حکومت ہے، اس نے ہی الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں ترمیم کی تھی، جس کے تحت الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار دیا گیا۔ جبکہ آئین یہ کہتا ہے کہ صدر اسمبلی تحلیل کرنے کی تاریخ وزیراعظم کے مشورے پر دیں گے، اسی مناسبت سے صدر عارف علوی نے ای سی پی کو ایک خط لکھا جس میں 6 نومبر کی تاریخ تجویز کی گئی۔ دو سیاسی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے جنوری کے انتخابات کے مبہم اعلان کا خیرمقدم کیا ہے جبکہ پی ٹی آئی نے جنوری کی ٹائم لائن کو عدالت میں چیلنج کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی ان الزامات کو آسانی سے ثابت کرسکتی ہے کہ اسے الگ تھلگ رکھنے کے لیے سیاسی انجینئرنگ کی جارہی ہے۔
ملک میں اس سیاسی منظر نامے میں سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جاتے جاتے نیب قوانین کے بارے میں جو فیصلہ کیا اُس کی روشنی میں متعدد سیاسی راہنماؤں کے خلاف مقدمات پھر سے کھل گئے ہیں۔ ان میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے 89 سابق ارکانِ پارلیمان، مسلم لیگ (ن) کے 62، تحریک انصاف کے 47، ایم کیو ایم کے 8، پاکستان مسلم لیگ ق اور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) کے 12، مسلم لیگ(ق) کے 12، پختون خوا پارٹی، وطن پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی کے 11 ارکان اسمبلی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے ارکان اسمبلی شامل ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران اور پرائیویٹ کاروباری اور سرمایہ کار بھی قومی احتساب بیورو کے نشانے پر آچکے ہیں۔ تقریباً 1809 ریفرنس اور انکوائریاں دوبارہ کھل رہی ہیں، جب کہ 700 ارب روپے کے مبینہ کرپشن کیس اس فیصلے کے مطابق کھل گئے ہیں۔سابق صدرِ مملکت، سات وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ، 78 وزرا اور 1170 ارکان صوبائی اسمبلی اور 114 افسران کے کیس بھی ازسرنو احتساب عدالتوں میں چلے گئے ہیں۔ اس فیصلے کے نہ صرف پاکستانی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس کی باز گشت آئندہ آنے والے عام انتخابات میں بھی سنائی دے گی۔