وقت آگیا ہے کہ حکومتیں بنانے کا اختیار مخصوص افراد یا طاقت ور گروہوں کے بجائے عوام کو دیا جائے۔
اگر کوئی پاکستان کی سیاست، جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی سمیت اخلاقی معیارات کا جائزہ لینا چاہے تو اسے یہاں بہت اہم نوعیت کے سیاسی تماشے دیکھنے کو ملیں گے۔ ہر فریق چاہے وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی، اور ریاستی ادارے اپنے اپنے سیاسی وآئینی دائرۂ کار سے باہر نکل کر کھیلنے کے عادی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں نہ تو سیاست اور جمہوریت کی کوئی مضبوط شکل دیکھنے کو مل رہی ہے اورنہ ہی اس ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا کوئی معیار نظر آتا ہے۔ طاقت کی حکمرانی کے اس کھیل نے ہمیں داخلی اور خارجی سطح پر تنہا کردیا ہے اور ہماری ریاستی ساکھ پر کئی طرح کے سوالیہ نشان بھی کھڑے کردیے ہیں۔ بدقسمتی سے کوئی یہ تجزیہ کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اس وقت جو حالات ہیں ان کا ذمہ دار کون ہے؟ اور وہ خود ان حالات کی خرابی کے کتنے ذمہ دار ہیں؟ ہر کوئی اپنا دامن بچا کر دوسروں پر الزامات کی سیاست کررہا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ سیاست کا دائرۂ کار بھی محدود ہوا ہے اور سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کا سیاسی کردار بھی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ سیاست عملی طور پر غیر سیاسی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، اور پورا سیاسی نظام ان ہی کی یرغمالی کی صورت میں اپنا حال سنا رہا ہے۔ یہ جو کچھ ہورہا ہے اس کی ذمہ داری جہاں اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے وہیں ان حالات کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں بھی ہیں جو ان کی سہولت کاری میں پیش پیش نظر آتی ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے نئے انتخابات کے لیے اگلے برس جنوری کے آخری ہفتے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ پہلی بار ہم نے الیکشن کی تاریخ کے بجائے ہفتے کا اعلان سنا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ ہفتہ جنوری کا آخری ہفتہ ہی ہوگا، یا یہ بھی کھیل کھیل میں کچھ اور تبدیلی کا سبب بنے گا؟ اگرچہ انتخابات کا اعلان ہوگیا ہے مگر ابہام کی کیفیت بدستور موجود ہے اور لوگ اپنے اپنے انداز میں اس کی تشریح کررہے ہیں۔ کوئی انتخابات، اورکوئی انتخابات کے بجائے کچھ اور دکھانے کی کوشش کررہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں کے فیصلہ ساز انتخابات کے معاملے میں اتنے پُرجوش نہیں جتنی باہر کی قوتیں لگتی ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے سفارت کار، اور آئی ایم ایف، ایشین ڈیولپمنٹ بینک یا یورپی یونین انتخابات میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کے بقول عالمی سطح پر انتخابات کروانے کے لیے دبائو بڑھ رہا ہے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے تناظر میں کچھ سرگرمیاں نظرآرہی ہیں۔ پہلی سرگرمی لندن کی سیاست ہے جہاں نوازشریف کی واپسی کی تاریخ دے دی گئی ہے اورکہاجارہا ہے کہ وہ تمام تر خطرات کے باوجودپاکستان آرہے ہیں۔ ان کی پاکستان آمد سے قبل دو بیانات نے بھی خاصی ہلچل مچادی ہے، نوازشریف نے سابق فوجی جرنیلوں جن میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض بھی شامل ہیں، سمیت حاضر اور ریٹائرڈ ججوں کے کڑے احتساب کا مطالبہ کیا ہے، اور اُن کے بقول ان کے احتساب کے بغیر کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ حالانکہ کچھ دن قبل مسلم لیگ (ن) کے میڈیا میں موجود حامی افراد نے یہ سیاسی دھوم مچادی تھی کہ نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تمام معاملات پر اتفا ق ہوگیا ہے اور دونوں فریق ایک نئی سیاسی ڈیل کو حتمی شکل دے چکے ہیں۔ ان کے بقول اس ڈیل کے نتیجے میں نوازشریف چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے اور عمران خان کو کسی بھی صورت اقتدار میں نہیں آنے دیا جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ڈیل ہوگئی ہے تو پھر نوازشریف کو اس قدر اینٹی اسٹیبلشمنٹ جارحانہ انداز کیوں اختیار کرنا پڑا؟ اورکیا وجہ ہے کہ وہ ڈیل کے باوجود سب سے بدلہ لینے کی باتیں کررہے ہیں؟ اسی طرح ایک ماہ کے بعد سابق وزیراعظم شہبازشریف کی وطن واپسی اور اگلے ہی دن واپس لندن جانا بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ نوازشریف کے حامی میڈیا کے بقول ڈیل حتمی ہے البتہ نوازشریف عمران خان کے مقابلے میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بنا کر سیاسی میدان میں اترنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بنتا ہے کہ کیا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی اجازت نوازشریف کو خود اسٹیبلشمنٹ نے دی ہے؟ یہ بات سمجھ میںنہیں آتی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نوازشریف کی ڈیل کے معاملات میں کچھ نہ کچھ ہوا ہے اور کھیل میں کچھ خرابیاں ایسی پیدا ہوئی ہیں جو یقینی طور پر نوازشریف کے لیے قبول نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نوازشریف کے حالیہ بیانات اسٹیبلشمنٹ پر دبائو بڑھانے کی کوشش ہوں تاکہ وہ اپنے حق میں زیادہ سے زیادہ چیزیں منواسکیں۔ اس کھیل میں شہبازشریف کا کردار بھی خاصا پُراسرار ہے، بظاہر وہ نوازشریف کے ساتھ ہیں لیکن اندر ہی اندر اپنے لیے بھی سیاسی میدان ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو بھی یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ نوازشریف یا مسلم لیگ (ن) کے لیے اسٹیبلشمنٹ میں اس کے مقابلے میں نرم گوشہ ہے جس کا اظہار مسلسل بلاول بھٹو کے بیانات میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر نوازشریف واقعی ایک جارحانہ بیانیہ بنا کر میدان میں اترتے ہیں اوراسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرتے ہیں تو کیا شہبازشریف اور ان کی مسلم لیگ اس بوجھ کو اٹھاسکے گی؟ جواب نفی میں ہے۔کیونکہ ماضی میں بھی نوازشریف کو اپنے جارحانہ طرزِعمل کی وجہ سے پارٹی کی سطح پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔نوازشریف کے حالیہ بیانات کو مسلم لیگ (ن) اور بالخصوص انتخاب لڑنے والے افراد نے پسند نہیں کیا، اوران کے بقول اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ہمارے مفادات کے خلاف ہے جو ہمیں قبول نہیں۔ اس لیے اگر نوازشریف واقعی اس بیانیے کو بنیاد بناکر سیاسی میدان میں اترتے ہیں تو ان کو اپنی ہی جماعت میں خاصی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا، اورشہبازشریف بھی اس بیانیے کے ساتھ کھڑا ہونا پسند نہیںکریں گے۔
دوسری جانب صدر ڈاکٹر عارف علوی اور محمد علی درانی کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں بھی ایک نئی ڈیل کی نوید سنارہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ کوشش کی جارہی ہے کہ عمران خان اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو ٹکرائو ہے اسے کم کیا جائے اوراس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر ریلیف مل سکے۔ محمد علی درانی اسٹیبلشمنٹ کے خاص آدمی ہیں اورجنرل پرویزمشرف کے دور میں اقتدار کا حصہ بھی رہے ہیں، ان کے بقول ان کی کوشش ہے کہ موجودہ حالات میں سیاست اور جمہوریت کو قومی مفادات اورریاستی تحفظ سمیت ریاستی ادارو ں کی سلامتی کے تناظر میں دیکھا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں طرف کے لوگ اپنے اپنے معاملات میں لچک کا مظاہرہ کریں۔ سوال یہ ہے کہ محمدعلی درانی کو کیسے متحر ک کیا گیا اور کس نے ان کو متحرک کیا ہے؟ کیونکہ ان کی سرگرمیوں کو سیاسی تنہائی میں نہ دیکھا جائے۔ محمد علی درانی نے نہ صرف صدرِمملکت بلکہ پی ٹی آئی کے دیگر راہنمائوں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ خبر یہ ہے کہ خو داسٹیبلشمنٹ کو اندازہ ہوا ہے کہ موجودہ حالات میں مفاہمت کے ساتھ ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ اگر یہ پیش رفت ہورہی ہے تو پھر سوا ل یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس کی شکل کیا ہوگی؟ کیا واقعی قومی منظر نامے میں عمران خان خود کو سیاسی طو رپر مائنس کرسکیں گے؟ اورکیا اپنی شمولیت کے بغیر وہ انتخابات کو قبول کرلیں گے؟ اگر پی ٹی آئی اپنے قائد کے بغیر سیاست کرتی ہے تو اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ اسی طرح اگر عمران خان کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت ملتی ہے یا ان کو انتخابات میں حصہ لینے کی بھی اجازت ہو تو پھر قومی سیاست کا رنگ کیا ہوگا۔ کچھ لوگوں کا خیا ل ہے کہ عمران خان سے ڈیل اسی صورت میں ممکن ہوگی اگر عمران خان خود ملک چھوڑنے پر تیار ہوجائیں یا پارٹی سے کچھ عرصے کے لیے کنارہ کشی اختیار کرلیں اورانتخابات میں خود امیدوار کے طور پر شریک نہ ہوں ، لیکن یہ سب شرائط عمران خان ان حالات میں کیونکر تسلیم کریں گے؟ کیونکہ جو لوگ عمران خان کے بارے میں خبریں رکھتے ہیں ان کے بقول عمران خان کسی بھی صورت میں اپنے آپ کو نظرانداز کرکے اسٹیبلشمنٹ سے کسی بھی صورت میں ڈیل کرنے کے لیے تیار نہیں، اوریہ بات عمران خان کے سیاسی مخالفین بھی کہہ رہے ہیں کہ ان سے اسٹیبلشمنٹ کی ڈیل آسان نہیں ہوگی۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ خود اسٹیبلشمنٹ پر عالمی دبائو ہے کہ وہ انتخابات کو بھی یقینی بنائے اور پی ٹی آئی کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے تاکہ لیول پلیئنگ فیلڈ بھی سب کو دی جائے۔
دوسری جانب نگران وزیراعظم بھی خاصے دلچسپ آدمی ہیں۔ اُن کے بقول ہم عمران خان کی عدم موجودگی میں بھی منصفانہ اور شفاف انتخابات کروا سکتے ہیں۔ یعنی وہ ’’عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی‘‘ کی صورت میں انتخابات کروانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ سوال بھی بنتا ہے کہ ان انتخابات کی ساکھ کیا ہوگی؟ اور کیا عمران خان کے بغیر انتخابات کی حیثیت داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر قبول کی جائے گی؟ اور یہ کہ نگران وزیراعظم کا یہ مؤقف کس کے کہنے پر سامنے آیا ہے اورکس نے ان سے کہا ہے کہ عمران خان کے بغیر بھی انتخابات ہوسکتے ہیں؟ کچھ لوگ یہ منطق بھی پیش کررہے ہیں کہ عمران خان اور نوازشریف دونوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی، کیونکہ اگر عمران خان کو روک کر نوازشریف کو واپس لایا جاتا ہے تو اس پر اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہرحال یہ سارا کھیل ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی سیاست ڈیل میں گھری ہوئی ہے، اور کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر طاقت ور حلقے سیاسی قوتوں سے، یا سیاسی قوتیں طاقت ور طبقات سے لین دین کی سیاست کررہی ہیں۔ اقتدار کے اس پورے کھیل سے پاکستان کو کیا مل سکے گا؟ کیا ہمارا مستقبل مصنوعی طرز کے سیاسی نظام اورانتخابات کا متحمل ہوسکتا ہے؟ اورکیوں ہم بار بار اس طرح کے سیاسی تجربات کرکے ملک کو آگے لے کر جانے کے بجائے پیچھے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ ڈیل کی عملی سیاست سے نہیں جڑا ہوا، بلکہ ہمیں منصفانہ اور شفاف انتخابات کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے اور عوام کو یہ حق دینا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق اپنے ووٹ سے اپنی قیادت اور حکومت کا انتخاب کریں۔کیونکہ اس وقت اگر پاکستان کو کوئی چیز آگے بڑھا سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف منصفانہ اور شفاف انتخابات ہیں۔ کیونکہ ملک کا جو داخلی، سیاسی اور معاشی بحران ہے اس کا حل عدم استحکام کی سیاست نہیں ہے بلکہ ہمیں قومی سطح پر استحکام کی ضرورت ہے۔ یہی استحکام سیاسی اورمعاشی میدان میں کچھ بہتری کے امکانات پیدا کرسکے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومتیں بنانے کا اختیار مخصوص افراد یا طاقت ور گروہوں کے بجائے عوام کو دیا جائے۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی ایجنڈے سے خود کو دور رکھے اور ملک میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کی طرف عملی پیش رفت کرے۔ کیونکہ پہلے ہی الیکشن کمیشن پر بہت زیادہ تنقید ہورہی ہے کہ اس کی وجہ سے آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور 90دن میں انتخابات نہ کرواکر الیکشن کمیشن قانون اور بالخصوص آئین شکنی کا مرتکب ہورچکا ہے ۔اس لیے اب وقت ہے کہ ملک کو درست سمت میں آگے بڑھایا جائے، اور اس کی ایک ہی شرط ہے کہ ملک کو سیاسی تجربہ گاہ بنانے کے بجائے اسے آئین اور قانون کی پاس داری اور سیاسی و جمہوری خطوط پر چلایا جائے، کیونکہ یہی ہماری ریاست کے مفاد سے جڑا ہوا ہے اوریہی ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔