انسانی تاریخ میں جن جن اقوام نے عروج پایا، اس کے پس منظر میں علم و تحقیق کا کمال نظر آتا ہے۔ علوم و فنون کی آبیاری جامعات (یونیورسٹیوں) میں ہوتی ہے اور علم و تحقیق کا میدان بنیادی طور پر یونیورسٹیاں قرار پاتی ہیں۔ جامعات سے وابستہ ماہرین اور محققین اخلاقی، سیاسی، معاشرتی، معاشی اور طبی ایشوز پر رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں جس سے معاشرے کو درپیش مسائل کا علمی و فکری اور عملی لائحہ عمل پیش کیا جاتا ہے، نیز اس کے ذریعے علمی و فکری، تہذیبی اور اخلاقی تقاضوں کی حفاظت کا اہتمام ہوتا ہے۔
پاکستانی جامعات میں شعبۂ علومِ اسلامیہ ہی میں نہیں دوسرے شعبہ جات بالخصوص اردو، انگریزی، مطالعہ اور دوسرے مضامین میں ایم فل، پی ایچ ڈی کے ہزاروں مقالہ جات پرکام ہوا اور ہزاروں پر کام جاری ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستانی جامعات میں تحقیق کا معیار اور تحقیقی مقالہ جات کی حالتِ زار نازک اور قابلِ توجہ ہے، مغربی دنیا کی یونیورسٹیوں میں تحقیقی پراجیکٹس میں ریسرچ قوانین خاص طور پر مدنظر رکھے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں یونیورسٹیاں اس میں خاصی پیچھے نظر آتی ہیں۔
ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات کے لیے موضوعات کی تلاش بھی ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔ موضوع طے ہوجاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پر یا اس سے ملتے جلتے موضوع پر تو پہلے ہی کسی دوسری یونیورسٹی میں تحقیقی کام ہوچکا ہے۔ یونیورسٹیوں میں باہم رابطے کی کمی کے باعث بہت سے موضوعات پر دوبارہ، سہ بارہ تحقیقی کام ہورہا ہوتا ہے جس سے یونیورسٹیوں اور طلبہ کے وقت اور سرمائے کا ضیاع ہوتا ہے۔
یونیورسٹیوں کی سطح پر مقالہ جاتی فہرست کی اشاعت کا کام طلبہ اور اساتذہ کے لیے نہایت اہم ہے، نیز موضوع طے کرانے میں سہولت رہتی ہے۔ باہمی رابطوں کے فقدان اور مقالہ جات کی کوئی جامع فہرست دستیاب نہ ہونے کے باعث مقالات کے عنوانات، موضوعات میں تکرار عام مسئلہ ہے۔
مغربی ممالک میں یونیورسٹیوں میں تحقیق کو باقاعدہ رجسٹرڈ کرنے کے لیے ادارہ جات موجود ہیں۔ امریکہ اور یورپین یونیورسٹیوں میں سائنسز کے بارے میں کوئی نیا موضوع طے نہیں ہو پاتا جب تک اس موضوع کی ضرورت و اہمیت کی سائنٹفک ریسرچ کے اداروں سے باقاعدہ تصدیق نہیں ہوجاتی۔ اسی طرح عرب ممالک کی یونیورسٹیوں میں بھی کوئی تحقیقی موضوع اُس وقت تک طلبہ کو نہیں دیا جاتا اور نہ تحقیقی مقالہ جمع ہوتا ہے جب تک مقالے کی ہارڈ اور سوفٹ کاپی، یونیورسٹی کے کچھ مخصوص اداروں میں جمع نہیں ہوجاتی۔
وطنِ عزیز پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں، صرف چند افراد اپنی کوششوں اور کاوشوں سے یہ علمی کام سرانجام دے رہے ہیں جن میں نمایاں ترین ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر سعید الرحمن اور محمد شاہد حنیف کے نامِ نامی نظر آتے ہیں۔ موخر الذکر محمد شاہد حنیف رسائل و جرائد کی اشاریہ سازی کے علاوہ جامعات میں تحقیقی مقالات کے عنوانات و موضوعات کی فہرست بندی (اشاریہ سازی) میں نمایاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
زیرنظر ’’پراجیکٹ‘‘ جس کو یونیورسٹی آف لاہور نے ’’جامعات میں اسلامی تحقیقی مقالہ جات‘‘ کے نام سے بطور ’’پراجیکٹ‘‘ بناکر شائع کیا ہے وہ محمد شاہد حنیف اور اُن کی بنیادی ٹیم کے رُکن سمیع الرحمن کی کاوشوں کا ثمر ہے، کیونکہ یہ افراد عرصۂ دراز سے یہی کام کررہے ہیں، اور کتاب کے موضوعات، ترتیب اور دیگر مواد کا اندازِ بیان و ترتیب انہی کی بیسیوں کتب میں موجود ہے۔ بہرحال اس علمی اور تحقیقی کام کے لیے پاکستان میں مستقل کسی ایسے شعبے کی ضرورت و اہمیت مسلمہ ہے۔ اس ضمن میں یونیورسٹی آف لاہور کے تحت شائع ہونے والی زیرنظر کاوش اس جانب ایک اہم کڑی ہے۔
اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے زیرنظر کتاب ’’جامعات میں اسلامی تحقیقی مقالہ جات‘‘ یونیورسٹی آف لاہور نے تین حصوں میں شائع کی ہے، جس میں 82 سے زائد پاکستانی اور بھارتی جامعات میں پیش کردہ مقالہ جات کے عنوانات، 900 نگرانوں کی زیر نگرانی پیش کردہ اسلامی موضوعات بالخصوص بی ایس، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی سطح کے ہزاروں مقالہ جات کے موضوعات شامل ہیں، جبکہ مجموعہ فہرست مقالہ جات کے دوسرے ایڈیشن کے لیے مزید عنوانات کے حصول پر کام جاری ہے۔
زیر نظر کتاب میں قرآن و تفسیر، حدیث و علومِ حدیث، ایمان و عقائد، عبادات، فقہ و اجتہاد، معاشرتی نظام، تعلیم و تعلم، دعوت و تبلیغ اور تزکیۂ نفس، معاشی و سیاسی نظام، عدلیہ و نظامِ قضا، طب و سائنس، عالم اسلام و مغرب، سِیَر و سوانح، صحابہ کرامؓ و صحابیاتؓ، تابعین و عصری شخصیات، تاریخ اسلام اور مغرب، تقابل فرق و ادیان، ادارے جماعتیں، صحافت، شعر و ادب، لسانیات اور متفرقات … ان کے بنیادی عنوانات کے ساتھ سیکڑوں ذیلی موضوعات کے تحت یہ مجموعہ مرتب کیا گیا ہے۔ تمام عنوانات مقالہ نگار، نگراں، نیز مقالہ کس پروگرام کے تحت جمع کروایا گیا ہے، اسی طرح مکرر اور دہرائے جانے والے چند موضوعات جن میں تحفظِ ختم نبوت، شہادتِ عثمان غنیؓ، مقامِ صحابہ، سید مناظر احسن گیلانی، پروفیسر عبدالحمید صدیقی، جلال الدین قادری اور تفسیر، قاری محمد طیب، پاکستان میں اردو منظوم سیرت نگاری اور ڈاکٹر اسرار احمد وغیرہ کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔
یونیورسٹیوں کے مابین رابطہ کاری اور روابط کی مضبوطی اور استحکام کے لیے یونیورسٹی آف لاہور کے اس پراجیکٹ کے تحت ایک ویب گاہ (web site) بھی زیر ترتیب ہے جس پر مقالہ جات کی فہرست، تلاش کے آپشن کے ساتھ تمام عنوانات اور پہلوئوں کے ساتھ دستیاب ہوگی۔ فہرست کی ویب پر موجودگی سے استفادہ مزید آسان ہوجائے گا۔
کتاب کی تیسری جلد کے آخر میں 45 صفحات پر نگران مقالہ جات کی فہرست بطورِ اشاریہ درج کی گئی ہے، جس سے کسی نگران کے تحت ہونے والے مقالات تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔ یونیورسٹی آف لاہور کے شعبہ علوم اسلامیہ کے پراجیکٹ ریسرچرز کی یہ خوبصورت اور قابلِ قدر کاوش پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ و طلبہ کے لیے نئی راہیں کھولنے کا سبب بنے گی اور بی ایس، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کے لیے موضوعات کی عدم دستیابی اور تکرارِ موضوع کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
کتاب کی اشاعت جس سائز میں کی گئی ہے وہ مناسب نہیں، بلکہ زیادہ بہتر ہوتا کہ ا س کتاب کو رنگین اور آرٹ پیپر پر شائع کرنے کے بجائے عام کتابی سائز میں عام سستے کاغذ پر شائع کیا جاتا جس سے ہر طالب علم، محقق، ادارے اور لائبریری کی پہنچ میں آسانی سے یہ کتاب آجاتی۔ یونیورسٹی اپنے لیے اس کو آرٹ پیپر پر شائع کرلیتی۔ کتاب میں فاضل مرتبین کا تعارف نہیں دیا گیا، اگر ’’پراجیکٹ کمیٹی‘‘ کے ارکان کا مکمل تعارف دیا جاتا تو اور اچھا تھا اور ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی اور ’’پراجیکٹ کمیٹی‘‘ میں موجود افراد کا اس علمی شاہکار میں حصہ واضح ہوجاتا۔ بہرحال علمی دنیا کے لیے یہ ایک شاہکار ہے۔