ماہرِ زراعت ، سندھ کی توانا آوازاور ایک عہد ساز شخصیت رئیس عبدالمجید نظامانی  کی رحلت

رئیس عبدالمجید نظامانی ماہرِ زراعت، ایک روشن دماغ، سندھ کی توانا آواز اور ایک عہد ساز شخصیت تھے جو 7 ستمبر بمطاب20 صفر المظفر 1445ھ کو قضائے الٰہی سے وفات پاگئے۔ـ

اس دن شہدائے کربلا کا چہلم تھا، انٹرنیٹ و موبائل کی سروس معطل تھی۔ غروبِ آفتاب کے بعد سندھی ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز شروع ہوئی کہ سندھ آبادگار بورڈ کے سربراہ رئیس عبدالمجید نظامانی کراچی کے نجی اسپتال میں انتقال کرگئے۔ وہ کچھ عرصے سے علیل تھے، اسی رات 10بجے انہیں گوٹھ باقر نظامانی سے، جو ضلع ٹنڈومحمد خان کا ایک نواحی دیہات ہے، لایا گیا جبکہ جلوس و حالات کے باعث سڑکوں پر ٹریفک کم اور ہُو کا عالم تھا، پبلک ٹرانسپورٹ تو تھی نہیں، تاہم سیکورٹی خدشات کے باوجود لوگوں کی ایک معقول تعداد ان کی نمازِ جنازہ میں شریک ہوئی، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی بھی کسی طرح کراچی سے گوٹھ باقر نظامانی پہنچے۔ سب نے اشک بار آنکھوں،آہوں و سسکیوں اور ڈاکٹر معراج الہدیٰ کی رقت انگیز دعا کے ساتھ اپنے پیارے رئیس کو رخصت کیا۔ ـ

اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر

رئیس عبدالمجید نظامانی روایتی وڈیرے نہیں تھے۔ وہ ایک دردِ دل رکھنے والے انسان تھے۔ ان کے چہرے کا نور، آنکھوں کی چمک، وضع داری، معاملہ فہمی اور معمولات سے ان کی شخصیت اجاگر ہوتی تھی۔ ان سے زراعت سے وابستہ تمام ہی لوگ واقف تھے۔ خوش لباس تھے لیکن ہاری ہو یا بڑا کسان، سب سے رواداری اور فضیلت سے ملتے۔ کوئی بات یا مسئلہ بیان کرتا تو غور سے سنتے اور حتی المقدور اس کے کام آتے۔ اپنے و پرائے سبھی انہیں بے حد احترام دیتے تھے۔ ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے ان کی رحلت پر افسوس کا اظہار کیاـ

موت اس کی ہے جس کا زمانہ کرے افسوس
یوں تو دنیا میں سب ہی مرنے کے لیے آتے ہیں

رئیس عبدالمجید نظامانی زراعت پیشہ گھرانے میں 8مئی1935ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد رئیس اللہ داد نظامانی کو اللہ نے4 بیٹے اور 6 بیٹیاں دیں۔ والد نے بچوں کو زراعت کے ساتھ دینی و دنیاوی تعلیم کی جانب راغب کیا۔ رئیس عبدالمجید نظامانی نے ناظرہ قرآن کے بعد ابتدائی تعلیم ٹنڈومحمد خان سے حاصل کی، حیدرآباد میں بی اے اور ایل ایل بی کیا، کچھ عرصہ وکالت کی اور پھر صرف زراعت کی طرف توجہ مرکوز کرلی۔ شادی کے بعد اللہ نے انہیں 3 بیٹے اور7بیٹیاں عطا کیں۔ بڑے بیٹے کا نام انہوں نے اپنے والد کے نام پر اللہ داد نظامانی رکھا، پھر خداداد نظامانی اور تیسرا عبدالحفیظ نظامانی ہے۔ تینوں بیٹے بھی زراعت سے ہی وابستہ ہیں۔ ان کے داماد بھی بہت لائق ہیں۔ ایک داماد کا تو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے مکہ مکرمہ میں انتقال ہوگیا تھا۔ خود نظامانی صاحب نے کئی بار حج کی سعادت حاصل کی۔ ان کا یادگار حج 1973ء میں پانی کے جہاز سے سفر کا تھاـ

رئیس عبدالمجید نظامانی کوئی سیاسی رہنما نہیں تھے، لیکن ان کی فکری و نظریاتی وابستگی جماعت اسلامی کے ساتھ تھی۔ وہ کتاب دوست انسان تھے، انہوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے لٹریچر کو بغور پڑھا اور سمجھا، اور 1964ء میں5 اے ذیلدار پارک اچھرہ لاہور جاکر سید مودودیؒ سے ملاقات کی۔ جیسا سنا تھا اُس سے بڑھ کر انہیں باعمل پایا۔ کئی دن ان کی میزبانی میں گزارے اور پھر دل سے ان کے معتقد بن گئے۔ اگرچہ ان کی فکر کو جِلا دینے اور جماعت اسلامی کی طرف راغب کرنے میں مولانا جان محمد بھٹو اور مولانا جان محمد عباسی مرحومین کا بھی دخل تھا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ رئیس عبدالمجید نظامانی آزادانہ سوچ رکھتے تھے، وہ خود کو جماعت کی تنظیم میں تو نہیں سمو سکے لیکن ہر طرح کے حالات میں جماعت اسلامی کی حمایت اور اس سے نظریاتی وابستگی قائم رکھی، اس جرم کی پاداش میں اور بھٹو مرحوم کی ”مہربانی“ سے انہوں نے جیل کی صعوبتیں بھی اٹھائیں، زمینداری میں نقصانات بھی برداشت کیے، لیکن وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہے۔ ایوبی آمریت میں جب مولانا مودودیؒ پر سختیاں تھیں تو وہ اور ان کے کزن رئیس شفیع محمد نظامانی، سید مودودیؒ کے حیدرآباد میں میزبان بنے، اور میزبانی کا یہ شرف انہیں سید مودودیؒ سے لے کر محترم سراج الحق تک حاصل رہا ہے۔ میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، سید منور حسنؒ اور دیگر اکابرین ان کے مہمان رہے ہیں، لیکن جب بھٹو آمریت میں امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں طفیل محمد حیدرآباد پہنچے تو سرکار نے ان کی نقل و حمل پر پابندی لگا دی، پھر میاں صاحب ایک ہفتے سے زائد ان کے مہمان رہے۔ انہیں ٹنڈو محمد خان کے نواحی دیہات اور گوٹھ باقر نظامانی کے قریب، ڈگ موری گوٹھ میں ٹھیرایا گیا تھا۔ رئیس عبدالمجید نظامانی نے انتخابات میں تو حصہ نہیں لیا لیکن انتخابی جلسوں سے ولولہ انگیز خطابات کیے۔ 1970ء میں جب پروفیسر کریم بخش نظامانی ٹنڈومحمد خان ایٹ حیدرآباد کی نشست سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑرہے تھے، اس خاندان نے اُن کی بھرپور انتخابی مہم چلائی تھی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے میر اعجاز علی تالپور کے مقابلے میں پروفیسر کریم بخش نظامانی نے کچھ ہزار ووٹوں سے شکست کھائی لیکن دیکھنے والوں نے دیکھا کہ خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ـ

سندھ میں زرعی مسائل اور زمینداروں کی آواز بننے کے لیے جب سید مودودی نے مولانا جان محمد عباسی کو ہدایت کی کہ وہ زراعت پیشہ لوگوں کی تنظیم کھڑی کریں تو سندھ آباد گار بورڈ کا قیام عمل میں آیا، جس کا مقصد بلاتخصیص زرعی مسائل اٹھانا اور زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے زمینداروں کو راغب کرنا تھا۔ سید علی میر شاہ اس کے پہلے صدر اور رئیس عبدالمجید نظامانی اس کے جنرل سکریٹری منتخب ہو ئے۔ انہوں نے بڑی عرق ریزی سے کام کیا اور جلد ہی سندھ آباد گار بورڈ کو صوبے کے زمینداروں کی آواز بنادیا۔ ان کا ایک رسالہ” آبادگار“ بھی جاری ہوا۔سید علی میر شاہ کی مصروفیات اور بیماری کی وجہ سے سندھ آباد گار بورڈ کی ذمہ داری عبدالمجید نظامانی کے سپرد ہوئی اور وہ تاحیات اس کے صدر رہے۔ اس کے علاوہ وہ آل پاکستان گروئرس ایسوسی ایشن کے صدر، اور دو مرتبہ پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے بورڈ آف گورنرز کے ممبر بھی رہے، ملک و بیرونِ ملک زرعی کانفرنسوں سے بھی خطاب کیا۔ اکثر سندھ زرعی یونیورسٹی میں انہیں مہمانِ خاص بنایا جاتا تھا۔ انہوں نے زرعی مقاصد کے لیے برطانیہ، شام، عراق، ایران اور سعودی عرب کا دورہ بھی کیا۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز انہیں اپنے دورئہ چین میں خاص طور پر ساتھ لے کر گئے۔ ـ

رئیس عبدالمجید نظامانی روایتی کاشت کاری کے بجائے دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق قدرتِ خداوندی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جدید زراعت کے قائل تھے، اسی لیے انہیں سندھ میں ترقی پسند زرعی ماہر کہا جاتا اور ان کی آراء کو اہمیت دی جاتی تھی۔ مختلف سیاسی زعما زرعی معاملات پر ان سے مشورہ کرتے، وہ انہیں آگاہی دیتے۔ متعدد بار وفاقی و صوبائی حکومتوں کی کمیٹیوں میں بھی وہ شامل رہے، کئی حکومتوں میں انہیں وزیر اور مشیر زراعت بننے کی پیشکش بھی ہوئی۔ انہوں نے دوسروں کو مشورہ دینے کے علاوہ اپنی زمینوں پر تنظیم و اہتمام کے ساتھ کاشت کاری کی۔ پھلوں میں آم، امرود، کیلا وغیرہ کے علاوہ گندم، چاول، کاٹن، لیموں وغیرہ کی پیداوار بڑھائی، سورج مکھی (سن فلاور) کی کامیاب کاشت بھی کی۔ وہ سمجھتے تھے کہ نعمتِ خداوندی سے فائدہ اٹھانے کے لیے پھل و اجناس کو منظم طریقے سے کاشت کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم سندھ میں بار بار پانی کی قلّت سے زراعت پر جو مضر اثرات مرتب ہوئے اس پر وہ سخت چراغ پا تھے۔ جب سابق صدر جنرل پرویزمشرف کالاباغ ڈیم کے قیام کے لیے سندھ میں راہ ہموار کررہے تھے تو انہوں نے صوبے کے آبادگار رہنماؤں کے ساتھ بھی اجلاس کیا۔ عام جلسوں و پریس کانفرنسوں میں اچھل کود کرکے کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے فوجی وردی کے سامنے خاموش یا بھیگی بلّی بنے ہوئے تھے اور وقت کو ٹالنا چاہتے تھے، لیکن رئیس عبدالمجید نظامانی نے سندھ کی زرعی زمینوں کی تباہی و پانی کی تقسیم سے متعلق تاریخ، اور سندھ سے ہونے والی ناانصافیوں کو بیان کرکے جرات مندی سے کہا کہ ”جنرل صاحب! اپنے ذہن سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا خیال

نکال دیں“۔ جنرل پرویز بھی خاموش تھے کیونکہ سندھ کے اس وکیل کے ہر ہر لفظ میں دلیل تھی۔ وہ بنیادی مسائل کے حل اور شکایات کے ازالے کے بغیر ایسے کسی پروجیکٹ کے حق میں نہیں تھے جو مسئلہ حل کرنے کے بجائے حالات مزید پیچیدہ کردےـ

رئیس عبدالمجید نظامانی نے مئی 2021ء میں مٹیاری میں امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق کی موجودگی میں نہایت شان دار اور جان دار خطاب کیا، انہوں نے کرپشن، حکمرانوں کی نااہلی و نالائقیوں کو ہدفِ تنقید بنایا اور سندھ کے زرعی مسائل پر کھل کر بات کی۔ اس جلسے کو دو سال ہوچکے ہیں لیکن آج کی سی بات لگتی ہے۔ اس جلسے میں سید محمود شاہ، سید ندیم شاہ اور دیگر مقررین سمیت محترم سراج الحق نے نظامانی صاحب کی رائے کا اعادہ کیا۔ تاہم ملکی معاملات کی طرح پانی کی تقسیم، بیج وکھاد کے معاملات اور زراعت و زمینوں کے دیگر مسائل دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کے اقتدار میں آنے سے ہی حل ہوسکتے ہیں۔ سید علی میر شاہ اور رئیس عبدالمجید نظامانی نے تو اپنے حصے کا کام دل جمعی سے ہمہ تن مصروف رہ کر کیا، اب ان کے ساتھیوں و ہمدردوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کے مشن کو لے کر اٹھیں، حق کا پرچم تھامیں اور باطل کو سرنگوں کریں۔

رئیس عبدالمجید نظامانی نے اپنی وفات سے قبل گوٹھ باقر نظامانی کی مرکزی سڑک سے متصل ایک وسیع و عریض ”جامعہ مسجد جنت الفردوس“ قائم کی ہے۔ یکم ستمبر کو جمعہ کی نماز انہوں نے یہاں ادا کی، لیکن دوسرے جمعہ سے قبل 7ستمبر کو باقاعدہ اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ اب ان کی اولاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسجد و مدرسہ کی دیکھ بھال کریں۔