جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ا حتجاجی دھرنا
بجلی، پیٹرول، آٹا، چینی اور ضروریاتِ زندگی کی دیگر اہم اشیا کی قیمتوں میں فی الفور کمی کی جائے
جماعت اسلامی کا کراچی سمیت پورے ملک میں مہنگائی کے خلاف احتجا جاری ہے، اس پس منظر میں بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کی مجموعی صورتِ حال کے خلاف گورنر ہاؤس پشاور کے سامنے دھرنے کا آغاز کردیا ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنے کارکنوں اور عوام کو پیر کے روز سہ پہر 4 بجے گورنر ہاؤس کے سامنے پہنچنے کی کال دی تھی۔ کارکن بسوں، ویگنوں، سوزوکیوں اور اپنی ذاتی گاڑیوں میں 4 بجے سے پہلے ہی دھرنے کے مقام پر پہنچ گئے تھے، گاڑیوں پر جماعت اسلامی کے جھنڈے لگائے گئے تھے، جبکہ دھرنے کے مقام پر بینر اور پینا فلیکس آویزاں کیے گئے تھے جن پر مہنگائی اور بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کے خلاف نعرے درج تھے۔ کنٹینر پر اسٹیج سجایا گیا تھا جہاں پر جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق اور دیگر قائدین کے لیے کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ یہ دھرنا تین دن جاری رہے گا۔ قائدین عصر کے بعد دھرنے سے خطاب کریں گے۔ دھرنے کے پہلے روز مرکزی امیر سراج الحق نے اپنے خطاب میں کہا کہ شدید مہنگائی میں عوام کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ نوجوان بے روزگار، بچے اسکولوں سے باہر ہیں، ہر پانچواں شخص ڈپریشن کا شکار ہے، روزانہ خودکشیاں ہورہی ہیں۔ دنیا میں پاکستان کا قومی نشان پہلے چاند ستارہ تھا، اب کشکول بن چکا ہے۔ بھارت چاند پر پہنچ گیا، ہم آٹے، چینی اور بجلی کی تلاش میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان کے لیے آسمان سے رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھولتے۔ قوم اپنے حق کے لیے اٹھے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے سوا کوئی پارٹی ملک کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ ملک میں ظلم اور ناانصافی ہے، اور اس صورتِ حال میں عوام نئے آنے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ظلم کے نظام کے خاتمے کے لیے عدل کا ترازو بلند کریں گے، قوم کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے جماعت اسلامی پشاور کو عظیم الشان احتجاج کے انعقاد پر مبارک باد دی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ بجلی، پیٹرول، آٹا، چینی اور ضروریاتِ زندگی کی دیگر اہم اشیا کی قیمتوں میں فی الفور کمی کی جائے، نگران حکومت کا کام نہیں کہ بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرے۔
سراج الحق نے کہا کہ آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرثانی اور ان معاہدوں کے ذمہ داران کا احتساب کیا جائے، جماعت اسلامی آئی پی پیز معاہدوں کے خلاف سپریم کورٹ جائے گی۔ امید کرتا ہوں کہ عوامی مطالبات پورے ہوں گے، اگر ایسا نہ ہوا تو جماعت اسلامی کے پاس دیگر آپشن بھی موجود ہیں، ہم پُرامن جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں، عوام کا حق لے کر رہیں گے ورنہ اگلا پڑاؤ اسلام آباد میں ہوگا۔
امیر جماعت اسلامی خیبر پختون خوا پروفیسر محمد ابراہیم، سابق صوبائی وزیر عنایت اللہ خان، سیکرٹری جنرل کے پی عبدالواسع اور امیر جماعت اسلامی پشاور بحراللہ خان ایڈووکیٹ نے بھی احتجاجی دھرنے کے شرکاء سے خطاب کیا۔ سراج الحق نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے، اسے آزادی دی، ایٹمی طاقت بنایا، یہاں 65 فیصد باصلاحیت نوجوان، سونا اگلتی زمینیں، معدنیات، ساحلِ سمندر، چار موسم ہیں، ملک میں 25 کھرب ڈالر کا کوئلہ موجود ہے، 105 کھرب کیوبک فٹ گیس ہے۔ صرف پانی، ہوا اور سورج سے لاکھوں میگاواٹ بجلی بنائی جاسکتی ہے، مگر نااہل حکمرانوں نے آئی پی پیز سے مہنگے معاہدے کیے اور کمیشن کھایا۔ دو فیصد حکمران اشرافیہ 98 فیصد عوام کے وسائل پر قابض ہے۔ کرپٹ ٹولے اور سیاسی پنڈتوں کی وجہ سے عدالتی نظام تباہ ہوا۔ احتساب ختم، تعلیم و صحت کا نظام درہم برہم اور ہر گھر میں قیامت برپا ہے۔ گزشتہ 76 برسوں میں حکمران امیر سے امیر تر اور قوم غریب سے غریب تر ہوتی گئی۔
جماعت اسلامی کے احتجاجی دھرنے کے دوران سراج الحق سمیت اکثر مقررین نے خیبر پختون خوا کے گورنر حاجی غلام علی کو اُن کے بارے میں مشہور کرپشن کے قصوں کے تناظر میں آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر گورنر واقعی بے اختیار ہیں تو وہ اتنے بڑے گورنر ہائوس میں سرکاری مراعات کیوں لے رہے ہیں؟ مقررین نے کہا کہ گورنر صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہے، کیا وہ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے صوبے کے غریب عوام کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتا؟ انہوں نے کہا کہ گورنر کہتا ہے کہ وہ بے اختیار ہے، اگر وہ بے اختیار ہے تو اب تک صوبائی معاملات میں کس بنیاد پر دخل اندازی کرتا رہا ہے؟ اور اس نے اپنی جماعت کے من پسند وزراء کی فوج کس بنیاد پر بھرتی کررکھی تھی؟ مقررین نے گورنر کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اگر آپ بے اختیار ہیں تو پھر اتنے بڑے گورنر ہائوس میں سرکاری مراعات کس بنیاد پر حاصل کررہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ گورنر کسی ایک جماعت کا نہیں ہوتا، جب کہ حاجی غلام علی ببانگِ دہل کہتا ہے کہ وہ ایک مخصوص جماعت سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے ہاں اس جماعت کے اجلاس ہوتے رہتے ہیں، بلکہ پارٹی نے یہاں پر اپنے پارٹی راہنمائوں کی باقاعدہ ڈیوٹی لگارکھی ہے جو تمام سرکاری معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ مقررین نے بیک زبان ہوکر کہا کہ ہمارے گورنر ہائوس کے سامنے احتجاج کا مقصد یہی ہے کہ وہ ہمارے مطالبات وفاقی حکومت تک پہنچائے کیونکہ گورنر صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی آج ہر پاکستانی کا مشترکہ مسئلہ ہے اور اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہم اپنا اخلاقی اور قومی فریضہ سمجھتے ہیں، اور اسی لیے آج گورنر ہائوس کے سامنے یہ بھرپور احتجاج کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس دھرنے کا اعلان امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی اپیل پر ملک میں جاری ہوش ربا مہنگائی کے خلاف 2ستمبر کو کی جانے والی ملک گیر ہڑتال کے موقع پر کیا گیا تھا، اور اب اسی اعلان کے تسلسل میں ملک کے چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں احتجاجی دھرنوں کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ہے، اور اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر پہلا دھرنا پشاور کے گورنر ہائوس کے سامنے منعقد کیا گیا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں جماعت اسلامی کے کارکنان اور عام لوگوں کے علاوہ ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کرکے مہنگائی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔