اسلام آباد میں قومی توانائی کانفرنس سے سراج الحق اور ماہرین کا خطاب
توانائی کے بحران نے ملک میں عام صارف کے لیے زندگی مشکل بنادی ہے۔ علاقائی مسابقتی ٹیرف کے ذریعے برآمدی شعبے کے لیے توانائی کی استطاعت کو فروغ دینا، قابلِ اعتماد توانائی کی فراہمی اور ترسیل کے نظام کے لیے سرمایہ کاری اور رسائی میں اضافہ موجودہ مشکل وقت میں معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے اہم عوامل ہیں۔ اوپیک ممالک کی جانب سے پیداوار بڑھانے سے انکار اور دیگر بین الاقوامی تنازعات کے باعث عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے توانائی کے بل میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے توانائی کی موجودہ قیمتوں میں افراطِ زر بھی بڑھ گیا ہے، جس سے حکومت کی سبسڈی میں کمی واقع ہوئی ہے اور قابلِ تجدید توانائی کی طرف منتقلی اور بھی اہم ہوگئی ہے۔ عالمی اور مقامی سطح پر ایسی حکمتِ عملی اپنانا ہوگی جس سے توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ادائیگی کے مسائل کے درمیان توازن قائم کیا جا سکے تاکہ عوام کے مصائب کچھ کم کیے جاسکیں۔ متبادل توانائی کے لیے مسابقتی بولی کے ذریعے شمسی اور ہوا کے منصوبوں پر عمل درآمد کی فوری ضرورت ہے۔ حکومت نے ریگولیٹرز گائیڈ لائنز جاری کی ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد ریگولیٹری پالیسیاں تشکیل دی جائیں اور آئوٹ آف باکس حل دیا جائے، کیونکہ ڈالر کی شرح بڑھ جانے سے مسائل پیدا ہوئے ہیں اور ادائیگی دو نہیں بلکہ تین گنا بڑھ گئی ہے۔ کیپیسٹی پیمنٹ کچھ اس طرح سے بنتی ہے کہ ڈالر 100روپے کا ہو تو سالانہ کیپیسٹی پیمنٹ 1082روپے ہوگی، ڈالر 200 روپے کا ہو تو کیپیسٹی پیمنٹ سالانہ 1617 ارب روپے، اور ڈالر 300 روپے کا ہو تو کیپیسٹی پیمنٹ سالانہ 2152 روپے بنے گی۔ اسی طرح جب ڈالر 100روپے کا ہو تو فی یونٹ کیپیسٹی پیمنٹ 10روپے ہوگی، جبکہ ڈالر کی قیمت 300 روپے ہو تو فی یونٹ کیپیسٹی پیمنٹ 19روپے فی یونٹ بنے گی۔
نگراں حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی خاطر نرخوں کے تعین کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ گھریلو صارفین کے لیے اس وقت 12 سلیب ہیں جن میں سے ابتدائی چار سلیب ایسے ہیں جن میں صارفین بالترتیب 0.25 ہیکٹر مکعب میٹر، 0.5 ہیکٹر مکعب میٹر، 0.6 ہیکٹر مکعب میٹر اور 0.9 ہیکٹر مکعب میٹر گیس استعمال کرتے ہیں، ایسے صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا، تاہم باقی 8 سلیب والے صارفین کے لیے گیس کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ زیادہ گیس استعمال کرنے والے ایسے صارفین جن کا استعمال 4 ہیکٹر مکعب میٹر سے زیادہ ہے، ان کے لیے گیس کے نرخوں میں بھاری اضافہ کیا جائے گا جو 3600 سے 3700 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک ہوسکتا ہے۔ 3 اور 4 ہیکٹر مکعب میٹر گیس استعمال کرنے والے صارفین کے لیے نرخوں میں بھاری اضافہ متوقع ہے۔ تاہم 60 فیصد صارفین کے لیے فی ایم ایم بی ٹی یو کے نرخوں میں 200 سے 400 روپے تک کا اضافہ متوقع ہے۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ’’ٹیکس نادہندگان کے خلاف بڑے پیمانے پر ریکوری مہم‘‘ نے معمول کے مشتبہ افراد کو بڑے چوروں کے طور پر شناخت کیا ہے۔ نئی فہرست نے کس کو چھوڑ دیا ہے اور کس کو پکڑ لیا ہے؟ اصل یہی تو سوال ہے۔ یہ اس عمل کا اگلا حصہ ہے جو حکومت کے لمبے لمبے دعووں کو پرکھے گا۔ اصل کامیابی تب ہوگی جب حکومت اُن چوروں کو پکڑے گی جو سیاسی جماعتوں کے لیے ٹیکس چوری کے پیسوں سے مالی ایندھن کا کام کرتے ہیں اور پھر اقتدار سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اور ایس آر اوز کے ذریعے ٹیکس نیٹ سے باہر رہتے ہیں۔ اِس وقت تو حکومت واضح طور پر کوئی ریلیف فراہم کرنے کے قابل نہیں ہے، اور بل ہر گزرتے مہینے کے ساتھ مزید بڑھیں گے۔ قانون کی پاس داری کرنے والے ٹیکس دہندگان خاص طور پر پریشان ہیں کہ انہیں دوسرے زیادہ طاقتور لوگوں کی چوری کی تلافی کے لیے اضافی ادائیگی کرنی ہوگی۔ اب جب کہ زیادہ تر چوروں کی شناخت کرلی گئی ہے نگراں حکومت کو ایک واضح ٹائم لائن دینا چاہیے کہ کیا فالو کرنا ہے۔ وقت کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ جتنی جلدی تمام واجب الادا ٹیکس تمام چوروں سے نچوڑے جائیں گے، اتنی ہی جلد حکومت آئی ایم ایف کے پاس واپس جا سکتی ہے اور کچھ سخت ’’ابتدائی حالات‘‘ پر منصفانہ نظرثانی کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اس اقدام کی کامیابی سے معیشت کو مدد ملے گی۔
کتنی ناانصافی ہے کہ ہمارے جمہوریت کے پیروکار، جنہیں عام لوگ ووٹ دے کر اقتدار میں لاتے ہیں، ایمان داروں کا ہی استحصال کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ ملک کے لیے ایک ساتھ کام کرنے کا آخری موقع ہے۔ اب پاکستان دنیا کی پانچویں بڑی آبادی ہے جو بے مثال مہنگائی اور بے روزگاری کے نیچے دب گئی ہے اور ایک اور معجزے کی منتظر ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کے ایمان دار ٹیکس دہندگان اور بے ایمان ٹیکس چوروں کو وہ مل جائے جس کے وہ واقعی حق دار ہیں۔
ملک کو اس وقت بجلی کے نظام میں 2500 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے، تاہم بجلی چوروں کے خلاف مہم جاری ہے جس کے کچھ کچھ اچھے نتائج نکلے ہیں۔ تاہم اصل کام یہ ہے کہ اُن سابق حکمرانوں کو کٹہرے میں لایا جائے جنہوں نے بجلی کی پیداوار کے لیے نجی بجلی گھروں کے قیام کے وقت مہنگے معاہدے کیے۔ حکومت کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بجلی چوری کئی برسوں سے ہورہی تھی، یہ آج کا مسئلہ نہیں ہے۔ گزشتہ 15 برسوں سے اس پر کام نہیں کیا گیا۔ اب حکومت کا دعویٰ ہے کہ بجلی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے، اور دوسری رپورٹ کے مطابق ہم گیس کے شعبے میں 2900 ارب روپے نقصان میں ہیں۔ توانائی شعبے کو مجموعی طور پر 5400 ارب روپے نقصان کا سامنا ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں تیل و گیس کے ذخائر تلاش کرنے میں کمی آئی ہے جس کے لیے حکومت کو پالیسی مرتب کرنا ہوگی۔ بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لیے نگراں حکومت اقدامات کررہی ہے، لیکن یہ معاہدے کیسے ہوں گے؟ بجلی کے بحران پر بہت گفتگو ہوچکی ہے اور مزید ہوتی رہے گی، لیکن ملک میں کوئی ایسا ماہر نہیں ہے جو بجلی چوروں اور ان کے سیاسی و حکومتی سرپرستوں کے خلاف اصل حقائق بیان کرسکے۔ یہ سب ماہرین سیاست سیاست کھیل رہے ہیں اور مصلحت کا شکار ہیں۔ انہیں بجلی کے نئے اور زیر تعمیر منصوبوں سے متعلق بھی مکمل واقفیت نہیں ہے۔ اگر صرف پن بجلی کے منصوبوں کی بات کرلی جائے تو پیڈو کے منصوبے ہی گفتگو کے لیے کافی ہیں۔ پیڈو کے تحت 162 میگاواٹ کی مجموعی استعداد کے حامل پن بجلی کے 7 بڑے منصوبے مکمل کیے جاچکے ہیں جن سے سالانہ اربوں روپے آمدن ہورہی ہے، جبکہ مزید 5منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں جن سے مجموعی طورپر216 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ محکمہ توانائی خیبرپختون خوا کے حکام کی تصدیق ہے کہ پیڈو کے تحت منصوبوں میں 84 میگاواٹ گورکن مٹلتان ہائیڈروپاور پراجیکٹ، 69 میگاواٹ لاوی، 40 میگاواٹ کوٹو،11 میگاواٹ کروڑہ،10میگاواٹ جبوڑی ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شامل ہیں۔ پیڈو صوبے میں سستی پن بجلی کی پیداوار کے لیے کام کررہا ہے، پیڈو کے تحت پیدا ہونے والی بجلی سے اب تک 47 ارب روپے سے زائد آمدن حاصل کی گئی ہے۔ یہ تمام حقائق کیوں نظروں سے اوجھل رہتے ہیں، اور صارفین ہی کیوں نشانہ بنتے ہیں؟ انہی معاملات پر غور کے لیے جماعت اسلامی پاکستان نے ایک قومی انرجی کانفرنس اسلام آباد میں کی ہے جس سے ماہرین نے خطاب کیا۔ اسلام آباد میں قومی توانائی کانفرنس کا موضوع تھا ’’بجلی بحران، اسباب، اقدامات اور حل‘‘۔ اس کانفرنس میں ملک کے نامور ماہرینِ توانائی اور سینئر صحافیوں نے شرکت کی جن میں سابقہ ڈین کنگ فیصل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر سید آفاق حسین، انجینئر اخلاق احمد، انجینئر صلاح الدین رفیع، انجینئر ارشد حسین عباسی، ڈاکٹر فیاض احمد، ڈاکٹر محمد بشیر لاکھانی، حامد میر، نائب امیر جماعت اسلامی میاں محمد اسلم و دیگر شامل تھے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیرسراج الحق نے کانفرنس کی صدارت کی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی کے لیے عالمی عدالت سے رجوع کیا جائے، ہم اس معاملے کو سپریم کورٹ لے کر جائیں گے، کسی آڈٹ رپورٹ میں ان معاہدوں کا ذکر نہیں، قوم کو معلومات دی جائیں کہ مہنگے معاہدے کس نے کیے؟ تمام منصوبے سو فیصد سیاسی فوائد کے لیے لگائے گئے۔ ذمہ داران قومی مجرم ہیں، ان کا کڑا احتساب کیا جائے۔ پاکستان میں کوئلہ موجود ہے، درآمد کیوں ہوتا ہے؟ درآمدی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے ساحلِ سمندر کے قریب لگانے کے بجائے ہزاروں میل دور لگائے گئے، ٹرانسپورٹیشن چارجز کی مد میں اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ امریکی دبائو پر ایران پاکستان گیس پائپ لائن مکمل نہیں کی جارہی، جہاں سے ہمیں سستی توانائی حاصل ہوسکتی ہے۔ ہر حکومت ملکی فیصلوں کے لیے آئی ایم ایف اور امریکہ کی طرف دیکھتی ہے۔ بجلی کے بلوں کی قسطوں میں ادائیگی کے لیے بھی نگراں حکومت کو آئی ایم ایف نے اجازت نہیں دی، حکمرانوں نے پاکستانیوں کو غلام قوم بنادیا۔ کرپٹ حکمران اشرافیہ نے ملک کے پورے سسٹم کو یرغمال بنایا ہوا ہے، ان ظالموں کا کوئی احتساب نہیں کرسکا، اب قوم کے پاس کوئی چارہ نہیں، مہنگائی اور ظلم برداشت کرتے کرتے گھروں میں سسکتے رہیں، مرجائیں یا کرپٹ نظام سے جان چھڑانے کے لیے جماعت اسلامی کی پُرامن جمہوری جدوجہد میں شامل ہوجائیں۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ کسی قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتی جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنے کو تیار نہ ہو۔ مہنگی بجلی، پیٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے اور جان لیوا مہنگائی کے خلاف احتجاجی تحریک کے دوسرے مرحلے میں چاروں گورنر ہاؤسز کے سامنے دھرنے دیں گے، عوامی حقوق کی جدوجہد بھرپور طریقے سے جاری رہے گی۔‘‘
سراج الحق نے مزید کہا کہ ’’بجلی چوری ختم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، چوری شدہ بجلی کا بوجھ غریب عوام پر کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ 220 ارب روپے سے زیادہ مفت بجلی حکمران اشرافیہ استعمال کرتی ہے، 500 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے، اتنے ہی لائن لاسز ہیں۔ ہر پاکستانی اصل استعمال ہونے والی بجلی کا بل دینے کو تیار ہے، چوروں کی چوری شدہ بجلی کے بل غریب کیوں برداشت کریں؟ حکومت کی نااہلی کا بدلہ عوام سے کیوں لیا جارہا ہے؟ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ فوری واپس لیا جائے۔ طاقتور کمپنیوں اور افراد نے 4 کھرب اور 30 ارب سے زیادہ قرضے لیے اور پھر معاف کروائے جس کا کیس آج تک سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہے۔ افسوس ہے کہ بجلی کے بل کو لوگ موت کا پروانہ سمجھتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے مہنگائی کے مسئلے کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں میں اٹھایا، ہم نے عوامی سطح پر اس ایشو کو اجاگر کیا۔ احتجاج کے ساتھ ساتھ توانائی پر کانفرنس کے ذریعے ہم نے توانائی بحران سے نکلنے کے لیے آج ملک کے نامور ماہرین کواسلام آباد میں جمع کیا۔ پاکستان سولر سسٹم سے 3 لاکھ 44 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے۔ صرف خیبرپختون خوا سے پن بجلی پیدا کرکے پورے ملک کو سستی ترین بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔ ہمارے پاس ونڈ پاور، اٹامک پاور کے ساتھ ساتھ کئی دیگر سستے آپشن موجود ہیں۔ ہم آج بھی سسٹم ٹھیک کردیں تو 6 روپے فی یونٹ کے حساب عوام کو بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’1994ء میں واپڈا تقسیم کرکے پاور سیکٹر کو آئی پی پیز کے حوالے کرنا ملک کے ساتھ بڑی زیادتی تھی۔ آج کا معاشی بحران جنگ سے بھی سنگین ہے۔ حکومت نے بجلی کے بعد پیٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ کردیا، روس سے سستے تیل کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بتائیں کہ وہ تیل کہاں گیا؟پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے اشیائے خورونوش کے دام بھی بڑھ رہے ہیں، عوام کے لیے سانس لینا مشکل ہوگیا ہے۔‘‘
اس موقع پر ماہرین نے ملک میں پن بجلی، سولر سسٹم اور دیگر کلین ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا، انھوں نے ٹرانسمیشن سسٹم کو بہتر بنانے اور بجلی چوری روکنے کے لیے سخت اقدامات کی حمایت کی۔ ماہرین کے مطابق توانائی سیکٹر کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو بارہا تجاویز دی گئیں مگر ان پر کبھی کسی نے کان نہیں دھرا، پالیسیوں کی تشکیل سازی اور ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا، ملک میں بجلی پیداوار کا45 فیصد انحصار آئی پی پیز پر ہے، بقیہ 25فیصد ہائیڈل اور10فیصد حکومت کے تھرمل پاور پلانٹ سے حاصل ہوتی ہے، عجیب اتفاق ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں تھرمل پاور پراجیکٹ لگانے تھے تو حکومتی کارخانوں پر پابندی کیوں لگائی گئی۔ 2023ء کی رپورٹ کے مطابق 55فیصد بجلی آئی پی پیز سے اور 45فیصد ملکی ذرائع سے لی گئی، 1980ء کی دہائی میں ہائیڈل سے فی یونٹ پیداوار دو پیسے اور تھرمل پر چوبیس پیسے خرچ آتا تھا، آج بھی یہی ریشو برقرار ہے۔ سابقہ حکومتوں کو علم ہونے کے باوجود ہائیڈل پاور پلانٹس نصب نہیں کیے گئے اور کرپشن اور کک بیکس کے عوض درآمدی فیول کے کارخانوں کو ترجیح دی گئی، یہ سب لوگ قومی مجرم ہیں۔ ماہرین نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی اور انہیں عالمی عدالت میں لے جانے کی تجویز پیش کی۔ واپڈا نے گزشتہ دس سالوں میں سستی بجلی پیدا کرنے کا کوئی پراجیکٹ شروع نہیں کیا، سستی بجلی پیدا کرنے کی سوفیصد گنجائش موجود ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدے بھی سامنے لائے جائیں۔