کرپشن اور لوٹ مار کی سیاست، جعلی احتساب اور سیاسی بھونچال
پاکستانی سیاست کا بحران پیچیدہ مسئلہ ہے، کیونکہ جب ہم بحرانوں کو مثبت اور درست حکمتِ عملی کے تحت حل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، بحران مزید سنگین اور پیچیدہ ہوتے رہیں گے۔ سیاسی پنڈتوں کے بقول ملک مشکل صورتِ حال سے دوچار ہے، اور جو اِن مسائل کے حل کے براہِ راست ذمہ دار ہیں وہ یا تو حالات کی سنگینی کو محسوس یا قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، یا پھر اُن میں واقعی مسائل کو خود حل کرنے کی صلاحیت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی نظام میں امید کے مقابلے میں مایوسی غالب ہے، اور اس کی وجہ ملک کی طاقت ور اشرافیہ کا طرزِعمل ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ نہ تو خود کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی عوام کے حالات درست کرنا اُن کی ترجیحات کا حصہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست، جمہوریت، آئین اور قانون کے درمیان ایک مضبوط باہمی گٹھ جوڑ غالب نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست سے جمہوریت، جمہوریت سے آئین، اور آئین سے قانون یا احتساب کے عمل کے فقدان کا غلبہ ہوگیا ہے۔ اس طرح کے باہمی گٹھ جوڑ جو ریاست، حکومت اور مافیاز کے درمیان ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے بنائے جاتے ہیں ان کی سیاسی ساکھ پر سوالیہ نشان ہیں۔ یہی باہمی گٹھ جوڑ مل کر ایسی پالیسیاں، قانون، عملی اقدامات یا حکمت عملیاں بناتا ہے جس میںٖ مخصوص طاقت ور افراد یا گروہوں کے مفادات کو تقویت دی جاتی ہے۔ نیب کے قانون میں جو ترامیم کی گئیں ان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے تو داخلی حالات اوراس میں موجود تضادات کو سمجھنے کا موقع مل سکتا ہے۔
شہباز حکومت، پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں نے مل کر نیب میں ترامیم کو بنیاد بناکر اپنی ذاتی اورخاندانی سیاست کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ ایف اے ٹی ایف کی منظوری کے وقت بھی اُس وقت کی پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی جو حزبِ اختلاف میں تھیں، انہوں نے نیب ترامیم کو بنیاد بناکر یا شرط عائد کرکے اس کی حمایت میں ووٹ دینے کی بات کی تھی۔ رجیم چینج کے بعد جب فوری طور پر ملک میں نئے انتخابات پر بات چیت جاری تھی اُس وقت بھی یہی نقطہ تھا کہ حکومت پہلے نیب قوانین میں ترامیم کرے گی اور خود کو محفوظ بنانے کو یقینی بنائے گی پھر انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نیب میں جو ترامیم پی ڈی ایم حکومت نے کی تھیں اس کا مقصد سیاسی، قانونی، آئینی یا عوامی مفاد یا ریاستی مفاد کے مقابلے میں چند مخصوص اور طاقت ور افراد کو تحفظ دینا تھا۔ یعنی حکومت میں شامل جن افراد پر بدعنوانی کے مقدمات تھے چاہے وہ درست تھے یا غلط، انہوں نے ہی اپنے اوپر قائم مقدمات کو ختم کیا۔کرپشن اور بدعنوانی کی یہ کوئی نئی کہانی نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہمارا حکمرانی کا نظام ان ہی کرپٹ لوگوں کو سیاسی و قانونی تحفظ دینے کے کھیل کا حصہ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے طاقت ور افراد سیاست کا حصہ بن کر اقتدار کی سیاست کرتے ہیں تاکہ اسے ہتھیار بناکر اپنے ذاتی کاروباری مفادات کو فائدہ دے سکیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نیب کے قانون میں کی جانے والی حالیہ ترامیم کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا، اورخیال تھا کہ عدالتی محاذ پر ان ترامیم کو کالعدم ہی قرار دیا جائے گا۔ 10 میں سے 9ترامیم کو کالعدم قرار دینا اور اس میں سیاسی بددیانتی کو نمایاں کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ہماری سیاست اور جمہوریت میں کتنی ’’شفافیت‘‘ ہے۔ عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے کیسز بحال، پچاس کروڑ کی حد ختم، پلی بارگین کی ترمیم، کرپشن اور بے ایمانی کی تعریف، دوسرے ملک سے ملی دستاویز قابلِ قبول شہادت، بارِ ثبوت ملزم کی ذمہ داری کی شقیں، نیب کی جانب سے سات روز میں عدالتوں کو ریکارڈ بھیجنے، تفتیش اور انکوائریاں احتساب عدالتوں کو بھیجنا جیسے معاملات، یا ترامیم کو کالعدم قرار دینے سے ایک نیا سیاسی بھونچال سامنے آیا ہے۔ کچھ لوگ نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے معاملات کو پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بالادستی یا عدالتوں کی پارلیمانی معاملات میں مداخلت سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب بہت سے سیاسی لوگوں نے نئے چیف جسٹس، جسٹس فائز عیسیٰ سے بڑی توقعات وابستہ کرلی ہیں۔ نئے چیف جسٹس کو ابتدا ہی میں ایک بڑے ہیرو یا انقلابی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ چیف جسٹس ہمارا ہے اور ان کی وجہ سے ہمیں بڑا ریلیف ملنے والا ہے۔ اس کھیل میں مسلم لیگ (ن) نمایاں نظر آتی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ نیب میں کی جانے والی ترامیم کو سابق چیف جسٹس کی جانب سے جو کالعدم قرار دیا گیا ہے اس فیصلے کو بھی نئی عدالت ختم کردے گی اور ہمارا ریلیف باقی رہے گا۔ دیکھنا ہوگا کہ نئے چیف جسٹس خود کو کیسے غیر جانب دار کے طور پر پیش کرتے ہیں، اور عدلیہ میں مختلف نوعیت کی جو تقسیم ہے یا جو عدالتی اصلاحات درکار ہیں اس میں اُن کا کردار کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حکمرانی کے نظام میں جو بڑے بڑے چیلنج ہیں اور جن کا براہِ راست تعلق عدلیہ سے جڑے گا اس میں عدالت کیا فیصلے کرتی ہے۔ ہمارا قومی مزاج ہے کہ ہم فوری طور پر نئی قیادت سے بڑی جان دار نوعیت کی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں، اور پھر جب کچھ نہیں ہوتا تو جلد ہی مایوسی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ نئے چیف جسٹس کے پاس ایک برس ہے۔ اسی برس انتخابات کا ہونا بھی آئینی تقاضا ہے، دیکھنا ہوگا کہ جو لوگ بھی آئین اورقانون کو بنیاد بناکر انتخابات میں تاخیری حربے اختیار کرنا چاہتے ہیں ان کو سپریم کورٹ اورنئے چیف جسٹس کیسے لگام ڈالتے ہیں۔ کیونکہ سابقہ دور میں چیف جسٹس کے حکم کے باوجود پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخابات کرانے سے انکار کردیا گیا اور عدالت اپنے ہی فیصلے پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی۔ عدالتی فیصلوں پر جو انداز حکومت اور انتظامیہ یا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اختیار کیا ہے اس پر عدالتی نظام کی ساکھ پر کئی سوالیہ نشان لگے ہیں۔ اب اگر نئے چیف جسٹس واقعی کچھ بڑا کام کرنے میںکامیاب ہوتے ہیں یا ان کو کچھ بڑا کرنے دیا جاتا ہے تو یہ عدالتی نظام میں بہتری کی طرف ایک قدم ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ان حالات میں عدالتی نظام کی فعالیت اور طاقت ور طبقات کو آئین اورقانون کے دائرۂ کار میں لانا کوئی معمولی یا آسان کام نہیں ہے۔ یہی نئے چیف جسٹس کا امتحان ہے، دیکھنا ہوگا کہ وہ اس امتحان میں کس حد تک خود بھی اور عدالت کو بھی سرخرو کرتے ہیں۔
جہاں تک نیب ترامیم کا تعلق ہے تواس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ یہاں نیب کے معاملات کبھی بھی شفاف نہیں رہے۔ نیب کو ایک سطح پر سیاسی مخالفین کے خلاف ایک بڑی سیاسی انجینئرنگ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، اور یہ استعمال آج بھی بڑی شدت سے جاری ہے۔ اس لیے جو لوگ بھی نیب کے معاملات پر سخت تنقید کرتے ہیں یا اس کی شفافیت پر سوالات اٹھاتے ہیں وہ بھی بہت حد تک درست ہیں۔ لیکن جو لوگ سیاست اورجمہوریت کی بنیاد پر یہ کہتے ہیں کہ کرپٹ اور بدعنوان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہیے، یا سیاست دانوں کو کرپشن سے پاک بناکر پیش کیا جاتا ہے، یا یہ منطق دی جاتی ہے کہ کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے، یا نیب جیسے ادارے جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں… یہ بنیادی طور پر کرپٹ لوگوں کو بچانے کی کوشش ہوتی ہے۔ مسئلہ نیب کی شفافیت کا ہے، اور ادارے کو آئین اور قانون کے مطابق چلانے کے بجائے اسے عملاً سیاسی بنیادوں پر چلانے کی روش خطرناک نتائج کا سبب بنتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اوّل تو نیب کے ادارے کی شفافیت کو یقینی بنانے کے بجائے اس کا سیاسی استحصال کیا گیا، یا اسے خود اپنی ہی پالیسیوں یا حکمت عملیوں نے مفلوج بنایا، اور دوئم ہمیں اگر نیب پر اعتراضات ہیں تو پھر یہ سوال تو بنتا ہے کہ نیب کو ختم کرکے اس کا متبادل شفاف احتساب کا نظام کیوں نہیں بنایا گیا؟پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت کو بنیاد بنا کر اس کے خاتمے کا اعلان کیا تھا ، مگر دونوں بڑی جماعتوں کی حکومتوں میں سیاسی سمجھوتوں اور سیاسی مفاہمت یا سیاسی کمزوریوں کی وجہ سے اس ادارے کو نہ ختم کیا گیا اور نہ ہی اس کی شفافیت کو قائم کیا گیا۔
اب بھی نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب شفافیت پر مبنی احتساب ممکن ہوسکے گا؟ یا ان ترامیم کے کالعدم ہونے کے بعد بھی اس ادارے کو پرانی ڈگر یعنی سیاسی مخالفین کے خلاف بطورہتھیار استعمال کیا جائے گا؟ ماضی کو دیکھیں تو پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) عتاب میں تھیں، اوراب ان دونوں جماعتوں کے ساتھ پی ٹی آئی کو بھی ماضی جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا یا اس کا سارا ملبہ پی ٹی آئی پر گرے گا۔ خدشہ یہ ہے کہ ان ترامیم کے کالعدم ہونے کے بعد بھی نیب اورسیاسی انجینئرنگ کا کھیل جاری رہے گا۔یہ سب کچھ ایسے موقع پر ہوا ہے جب ملک میں عام انتخابات کا مطالبہ کیا جارہا ہے، اورانتخابات سے پہلے تمام فریقین کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ بھی پیش پیش ہے۔ ایسے میں نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے اور اسے بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کی باتیں بھی سیاسی محاذ پر گردش کررہی ہیں۔ یہ واقعی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہماری سیاسی قیادت ہو یا غیر سیاسی قیادت… حکمرانی پر مبنی کوئی بھی نظام ملک میں احتساب کا شفاف نظام قائم نہیں کرسکا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ احتساب کی وجہ سے ملکی معیشت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں وہ بھی غیر منطقی بات کرتے ہیں۔ کیونکہ احتساب اور شفافیت پر مبنی نظام کے بغیر بہتر سے بہتر معاشی اصلاحات بھی ہمیں معاشی عمل کی اصلاح نہیں کرسکیں گی۔
کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کے خاتمے کے لیے جہاں ہمیں اپنے اداروں کی شفافیت کو قائم کرنا ہے، وہیں ان کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے سخت گیر پالیسیاں اور اسٹرکچرل اصلاحات درکار ہیں جو سیاست دانوں سمیت تمام اداروں کو بھی آئین اور قانون کی حکمرانی اور احتسابی عمل میں جواب دہ بناسکیں۔ایک طرف سیاست دان دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے خلاف تمام مقدمات سیاست کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں اورانہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی، تو پھر سوال یہ بنتا ہے کہ کرپشن اوربدعنوانی کی سیاست کس فریق نے کی اورکیوں ان فریقین کو سیاسی حکومتوں نے جواب دہ نہیں بنایا؟ نیب میں کی جانے والی ترامیم واضح کرتی ہیں کہ ان ترامیم کا مقصد سیاسی تھا اور خود کو قانونی گرفت سے بچانا تھا۔یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ نیب کی بنیاد پر سیاسی قیادتوں پر دبائو بڑھایا جائے گا اورکوشش کی جائے گی کہ ان کو سیاسی طو رپر مخصوص مفادات کے تحت کنٹرول کیا جائے۔ نیب میں کی جانے والی ترامیم اوراس کے بعد ان کا کالعدم ہونا بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کے داخلی جمہوریت کے نظام کو ناکامی کے طور پر اور غیر سیاسی قوتوں کی بڑی کامیابی کے طو رپر پیش کرتا ہے جو اچھا شگون نہیں ہے۔جمہوریت اور شفافیت پر مبنی حکمرانی کی جو کمزور اور لاغر شکلیں ہم دیکھ رہے ہیں اس میں جہاں اسٹیبلشمنٹ قصور وار ہے وہیں خود سیاست دان بھی ذمہ دار ہیں۔
سیاست اور جمہوریت کو آئین اورقانون کی حکمرانی کے تابع نہ کرنے کے مسائل نے ہمیں ریاستی محاذ پر ایک بڑی مشکل صورت حال میں کھڑا کردیا ہے۔ کیونکہ یہ بحران جو ریاستی محاذ کا ہے ہمیں مزید پیچھے کی طرف لے کر جارہا ہے اورہمیں اس سے آگے نکلنے کے لیے جو راستہ درکار ہے وہ غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور حزبِ اختلاف سمیت تمام ریاستی، آئینی اور انتظامی اداروں کی شفافیت یقینی بنانے کے لیے ہمیں آئین اور قانون کی حکمرانی کو ہی بنیاد بنانا ہوگا۔ کیونکہ کرپشن اورلوٹ مار کی سیاست سمیت جعلی اور سیاسی نوعیت کے انتقامی احتساب کے عمل نے ملک کے ریاستی نظام کو مفلوج کردیا ہے۔