بھارت کے صوبہ جھارکھند سے جناب خالد سیف اللہ صدیقی نے ایک الجھن میں ڈال دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’یہ جو ’خوار‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے مے خوار اور شیر خوار وغیرہ میں، اس کے معنی تو وہی ہیں جو ’خور‘ کے ہیں۔ لیکن جاننا یہ چاہتے ہیں کہ اس ’خوار‘ کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ کسی اور لفظ سے مشتق ہے؟ یا کوئی مستقل لفظ ہے؟ یا ’خور‘ ہی میں ترمیم کرکے اس کو یہ صورت دے دی گئی ہے؟ معاملہ کیا ہے؟‘‘
صاحب! معاملہ بہت گمبھیر ہے، جسے بہت سے لوگ آج کل ’’گھمبیر‘‘ لکھ رہے ہیں۔ درست ’گمبھیر‘ ہے جو ہندی الاصل لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے: گہرا، عمیق، بھاری اور بوجھل۔ شاید گھمبیر لکھنے سے معاملہ زیادہ گہرا، زیادہ عمیق، زیادہ بھاری اور زیادہ بوجھل ہوجاتا ہوگا۔
’خوار‘ کے ایک معنی تو ذلیل و رُسوا، آوارہ و سرگرداں اور حیران و پریشان کے ہیں۔ اسی سے اسمِ کیفیت ’خواری‘ بنا ہے۔ یہ کیفیت بالعموم عشق ہوجانے کے بعد طاری ہوتی ہے۔ طار ی ہونے کے بعد جاری رہتی ہے۔ تب عشاق سٹپٹا کر سوچتے اورسر وغیرہ پیٹتے ہیں کہ
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
دوسرے مصرعے میں میرؔ نے زور ’عاشقی‘ پر دیا ہے۔مگر ہمارے شہر اسلام آباد کے ایک مرحوم مزاح گو شاعر بیدلؔ جونپوری نے سارا زور ’اِس‘ پر ڈال دیا۔ اسلام آباد خطۂ پوٹھوہار ہے۔اس خطے میں سادات کواحترام سے ’شاہ جی‘ کہہ کربلایا جاتا ہے۔ بیدلؔ بتاتے ہیں:
بھنگن سے دل لگا کے ہوئے خوار شاہ جی
’اِس‘ عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
خیر، اِس ’خوار‘ کے مطلب کو ایک طرف رکھیے۔ دوسرا مطلب وہی ہے جس کا ذکر صدیقی صاحب نے کیا ہے، یعنی ’کھانے والا‘۔ مثلاً شیر خوار، مے خوار، غم خوار اور خوں خوار وغیرہ۔ اس ’خوار‘ نے ہمیں خاصا ’خوار‘ کیا۔ پتا نہیں چلا کہ یہ کہاں سے خراب و خوار ہوکر یہاں پہنچا۔ البتہ یہ جو لفظ ’خور‘ ہے اس کا حسب نسب ہمیں معلوم ہے۔ وہی ’خور‘ جو گوشت خور، سبزی خور، آدم خور، رشوت خور اور حرام خور وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ مگر محض لفظ ’خور‘ کی تَہ تک پہنچ جانے سے خواری ختم نہیں ہوئی۔ ابھی ’خور‘ تک پہنچے ہی تھے کہ اس کے پیچھے سے ایک اور لفظ ’خورا‘ نکل آیا۔ یہ بھی ’کھانے والا‘ کے معنی دیتا ہے۔ مثلاً شکر خورا، شیخی خورا اور بال خورا۔ اب کون بتائے کہ مے خوار، گوشت خور اور شکر خورے میں سے زیادہ ’خورا‘ کون ہے؟ ’خورا‘ کا مطلب لغات میں کھانے والا، پیٹو اور لالچی بتایا گیا ہے۔
فارسی مصدر ’خوردن‘(کھانا، یعنی کھانے کا عمل) سے مشتق بہت سے الفاظ اردو میں رائج ہیں۔ بلکہ ایک فارسی محاورہ بھی اُردو میں رائج ہے: ’’حلوہ خوردن را رُوئے باید‘‘ یعنی حلوہ کھانے کے لیے منہ ہونا چاہیے۔ منہ تو سب ہی کے ہوتا ہے، مگر اس محاورے سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ کسی نعمت کے حصول کے لیے اُس نعمت کا اہل ہونا بھی ضروری ہے۔ جو چیزیں کھانے کے قابل ہوتی ہیں اُنھیں ’اشیائے خوردنی‘ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں نمک ہر طرح کا پایا جاتا ہے، مگر کھانے میں ڈالا جانے والانمک ’نمک خوردنی‘ کہلاتا ہے۔ سر پر ملنے اور آگ لگانے کے بجائے کسی تیل کو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جزوِ غذا بنادیا جائے تو اُسے ’خوردنی تیل‘ کہتے ہیں۔ نژادِ نو آج کل جس شے کو ‘Baking Powder’ کہا کرتی ہے، ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ بڑی بوڑھیاں اسی شے کو سودے میں ’سوڈا خوردنی‘ لکھواتی تھیں۔
تمباکو کی بھی تین مشہور اقسام ہیں۔ ’تمباکو دُخانی‘ جسے حقے، سگریٹ یا سگار کے دھوئیں میں اُڑا دیا جاتا ہے۔ ’دُخان‘ کا مطلب دھواں ہوتا ہے۔ اسی مفہوم میں قرآنِ مجید کی ایک سورہ کا نام بھی ’دُخان‘ ہے۔ عربی میں تمباکو کی دھوئیں بازی کو ’تدخین‘ کہتے ہیں اور ہندی میں ’دھومر پان‘۔ دھومر کے میم اور’ رے‘ دونوں ساکن ہیں۔ تمباکو کی دوسری قسم کو ’تمباکو چشیدنی‘ کہہ لیجیے۔ چکھا جانے والا تمباکو۔ اسے نچلے ہونٹ یا گال اور مسوڑھوں کے درمیان رکھ لیتے ہیں۔ پھر دیر تک لطف لیتے اور پِچ پِچ کرکے پِچکاری مارتے رہتے ہیں۔ ایسے تمباکو کا زیادہ استعمال پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا اور ہمارے پختون بھائیوں میں ہے جو اسے ’نسوار‘ قرار دیتے ہیں۔ نسوار میں شاید کبھی ’س‘ کے بجائے ’ص‘ استعمال ہوتا ہوگا، کیوں کہ ہم نے کہیں یہ مصرع پڑھا تھا: ’’عجب نصوارِ خوش رنگ است و اعلیٰ‘‘۔ نصوار لکھنے سے نسوار واقعی خوش رنگ ہوجاتی ہے، اعلیٰ ہو نہ ہو۔ تمباکو کی جس قسم کا ہمارے آج کے موضوع سے تعلق ہے وہ ہے ’تمباکو خوردنی‘۔ اسے پان میں ڈال کر یا بعض اوقات پان میں ڈالے بغیر محض چونے میں مَل کر پھانک لیا جاتا ہے۔ اس طرح کے پھانکے جانے والے تمباکو کی جنس تبدیل کرکے اہلِ ہند نے اسے ’سُرتی‘ میں تبدیل کرلیا ہے۔ سُرتی، خشک تمباکو ہتھیلی پر رکھ کر اُس میں چونا ملتے ہوئے، تالی بجا بجا کر پھانکی جاتی ہے۔
’تمباکو خوردنی‘ نے مختلف شکلیں اختیارکرکے خود کو کھا جانے والوں کا حلیہ ہی بگاڑکر رکھ دیا۔ ممبئی اور کراچی میں آپ کو بہت سی قبول صورت، خوب صورت بلکہ حسین لڑکیا ں اور وجیہ لڑکے ایسے دکھائی دیں گے جو اپنا منہ بند رکھیں توبھلے معلوم ہوں گے۔ بھلے ہی نہیں، دل کش دکھائی دیں گے۔ لیکن منہ کھولتے ہی اُن کے منہ سے ایک انتہائی بھیانک بھوت نمودار ہوجا تا ہے۔ اس بھوت (یا بھوتنی) کے اکثر دانتوں کو گُٹکا کھا چکا ہے۔ غالباً گُٹکا ہی تمباکو کی سب سے ’’کھاؤ‘‘ قسم ہے۔ یہ دانت خورا ہی نہیں ’دہن خورا‘ بھی ہے۔ سرطان کا فعال سبب ہے۔ اسے بھی منہ میں گھنٹوں گھمایا جاتا ہے۔ گٹکا کھانے والوں سے گپ شپ تو دُور کی بات ہے، اگر آپ راہ چلتے ہوئے ان میں سے کسی سے کسی کے کوچے کا پتا بھی پوچھ بیٹھیں تو وہ آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر بلبلانا شروع کردے گا۔
لفظ ’خوراک ‘بھی خوردن سے مشتق ہے۔ خوراک کا مطلب غذا بھی ہے اور دوا بھی۔مثلاً ہمارے پیارے بھائی اور بے تکلف دوست جناب سہیل بلخی خوش زبان بھی ہیں، خوش بیان بھی ہیں، خوش مزاج بھی ہیں اور خوش خوراک بھی۔آخری خوبی کی وجہ سے:
ہر کوچۂ طعام میں وہ سر کے بل گئے
کوچۂ طعام کو آج کل غالباً ‘Food Street’کہا جاتا ہے۔ دوا کی وہ مقدار جو مریض کو ایک وقت میں کھلائی یا پلائی جائے وہ بھی ’خوراک‘ کہلاتی ہے۔ جانوروں کی غذا کو بھی خوراک کہتے ہیں۔ مثلاً گنا ہاتھی کی خوراک ہے۔ خوراک بمعنی طعام کو ’خورِش‘ بھی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا مسرورؔ غم کی خوراک پاکر مسرور ہیں کہ
غمِ عشق کھانے کی لذت نہ پوچھ
یہی اب تو اپنی خورِش ہو گئی
کھانے پینے کی چیزوں کو ’اشیائے خور و نوش‘ کہا جاتا ہے، ’خورد و نوش‘ نہیں۔ ’خورد‘ کا مطلب ہے ’کھا گیا‘۔ شخصی یا قومی امانت کھا جانے کو ’خورد بُرد‘ کرنا کہا جاتا ہے۔ ’بُرد‘ کا مطلب ہے ’ڈبو دیا‘۔ محققین جس شخصیت پر تحقیق کرتے ہیں مارے تحقیق کے اکثر اُس کی لُٹیا ہی ڈبو دیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک ’پَن ڈُبّی‘ کے بارے میں چلتے چلتے ایک شعرپھر سن لیجیے، کیا مضائقہ ہے۔ یہ پُرمزاح شعر ہمارے برادرِ بزرگ اور مشہور محقق ڈاکٹر تحسین فراقی سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے جعفر بلوچ مرحوم نے کہا تھا:
جب سے اے تحسین فراقی تیرے سپرد ہوا
عبدالماجد دریا بادی دریا بُرد ہوا