پی ٹی آئی کے ٹکٹ کو اب بھی انتخابی مارکیٹ میں جیت کی نشانی سمجھا جارہا ہے
پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین کو وجود میں آئے ہوئے تقریباً دوماہ کا عرصہ ہونے کو ہے، لیکن ان دو ماہ میں یہ نومولود پارٹی اب تک سوائے ایک جلسہ عام کے نہ تو کوئی دوسری بڑی سرگرمی دکھا سکی ہے اور نہ ہی اب تک پی ٹی آئی یا کسی دوسری جماعت سے اس نوخیز جماعت میں کوئی بڑی سیاسی شخصیت شامل ہوئی ہے۔ تادم تحریر پاکستان کی اکثر موروثی اور خاندانی جماعتوں کی طرح یہ پارٹی بھی ان ہی جماعتوں میں ایک نیا اضافہ ثابت ہوئی ہے۔ یہاں اس امر کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ پرویز خٹک نے جس پھرتی سے پی ٹی آئی سے چھلانگ لگائی ہے اور جس تیزی سے اپنا الگ دھڑا بنانے کا اعلان کیا ہے یہ اُن کی سیاسی تاریخ کومدنظر رکھتے ہوئے کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ یاد رہے کہ پرویز خٹک پی ٹی آئی میں شمولیت سے قبل پیپلز پارٹی، اے این پی اور پیپلز پارٹی شیرپائو گروپ کے پلیٹ فارم سے بھی اپنی انتخابی سیاست کرتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو خیرباد کہتے ہوئے انھوں نے لاگ لپیٹ رکھے بغیر واضح اور صاف الفاظ میں کہا ہے کہ وہ نہ تو انقلابی ہیں اور نہ ہی انقلابی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، بلکہ وہ مروجہ انتخابی سیاست کے ذریعے اپنے عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں… اور شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی کوئی الگ نئی پارٹی بنانے کے بجائے پی ٹی آئی ہی میں نقب لگانے پر اکتفا کیا ہے اور اس کے لیے پی ٹی آئی سے الگ ہونے والے اپنے اس نئے دھڑے کا نام بھی پی ٹی آئی پارلیمنٹرین رکھا ہے۔ دراصل وہ اس پلیٹ فارم پر پی ٹی آئی کے اُن سیاسی راہنمائوں کو جمع کرنا چاہتے ہیں جن کا مطمح نظر عمران خان کی نام نہاد انقلابی سیاست کے بجائے پارلیمانی سیاست ہے۔ پرویزخٹک کے ساتھ شامل ہونے والوں میں اب تک کوئی واضح طور پر منظرعام پرآنے کی جرأت نہیں کرسکا ہے، اور ان میں سوائے سابق وزیراعلیٰ محمود خان کے کوئی اور نامی گرامی الیکٹ ایبل شامل بھی نہیں ہے۔ ویسے بھی پی ٹی آئی کے تمام سابق منتخب ارکان کا اپنے انتخاب میں کوئی کمال نہیں تھا بلکہ یہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ اور عمران خان کی کرشماتی شخصیت کا کمال تھا کہ 2018ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایسے امیدوار بھی کامیاب ہوگئے تھے جنہیں اپنے محلے میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا، اور جو کبھی اپنے بل بوتے یا کسی دوسری جماعت کے ٹکٹ پر کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان میں سے اکثریت فی الحال توخاموش ہے، لیکن حالات سازگار ہوئے اور عام انتخابات میں اگر پی ٹی آئی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی تو یہ لوگ اس امید پر چھپ کربیٹھے ہوئے ہیں کہ ایک بار پھر پی ٹی آئی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ کو اب بھی انتخابی مارکیٹ میں جیت کی نشانی سمجھا جارہا ہے، اور یہی وہ امید ہے جس کی بنیاد پر بہت سے لوگ عمران خان کے نامعقول اور نامقبول رویّے سے نالاں ہونے کے باوجود ان کے ٹکٹ اور جیت کی امید پر پی ٹی آئی کے ساتھ چمٹے رہنے پر مجبور ہیں۔
یہاں اس امر کی نشاندہی بھی اہمیت کی حامل ہے کہ پی ٹی آئی کی سابق صوبائی اور وفاقی کابینہ میں خیبر پختون خوا سے شامل رہنے والوں میں اب تک بہت کم بلکہ گنے چنے لوگوں ہی نے عمران خان کو داغِ مفارقت دیا ہے، جن میں دو نمایاں نام پرویز خٹک اور محمود خان کے ہیں، باقی تقریباً ساری قیادت پارٹی اور عمران خان کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی ہے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ ان کی اکثریت یا تو گرفتار اور زیر عتاب ہے، یا پھر روپوشی کی زندگی گزار رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین کی فی الحال عدم مقبولیت کے پیچھے بھی پی ٹی آئی کی مقبولیت بحال رہنے کی وجہ کارفرما ہے، اور اس وقت پرویز خٹک اور ان کی نوزائیدہ پارٹی کو سب سے بڑ اچیلنج بھی یہی درپیش ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی اس کی مخلص قیادت کو کس طرح توڑ کر اپنی صفوں میں شامل کریں! اس حوالے سے پرویز خٹک کی بات اس حد تک تو شاید درست مانی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی نشست جیسے تیسے کرکے جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے، لیکن ان کے ہاتھ اب تک وہ گیدڑ سنگھی نہیں آئی جس کے بل بوتے پر وہ اپنے دوسرے ٹکٹ ہولڈرز کی جیت کی راہ بھی ہموار کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔
دریں اثناء اطلاعات کے مطابق سابق گورنر خیبر پختون خوا اور تحریک انصاف کے رہنما شاہ فرمان بھی انتخابی سیاست سے دست بردار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ میرے خاندان سے کوئی فرد بھی الیکشن میں حصہ نہیں لے گا۔ شاہ فرمان نے کہا کہ حلقہ کارکنوں کے حوالے کرتا ہوں۔ سابق گورنر نے مزید کہا کہ پارٹی میں میرے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ شاہ فرمان کے مطابق سب کو پتا ہے کہ پارٹی میں کس نے کتنے پیسے بنائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کور کمیٹی اجلاس میں مجھ سمیت 3 رہنماؤں پر غداری کے بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں۔ شاہ فرمان کے مطابق وہ 1996ء سے عمران خان کے ساتھ ہیں۔ ان کے مطابق 2012ء تک تو تحریک انصاف کو نشست ملنے کا بھی امکان کم تھا، تاہم وہ پھر بھی تبدیلی کے لیے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ ان کے مطابق سیاست ان کا خاندانی پیشہ ہے اور نہ ہی آمدنی کا ذریعہ۔ شاہ فرمان کے مطابق وہ نو سال اقتدار میں رہنے کے باوجود بیرونِ ملک کسی دورے پر نہیں گئے۔ ان کے مطابق انہوں نے سیکرٹ فنڈ بھی استعمال نہیں کیا ہے، مگر اس کے باوجود ان پر الزامات عائد کیے جارہے ہیں جس پر انہوں نے دلبرداشتہ ہوکر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔