زکریا اسٹریٹ کے رنگون ریستوران کی وہی حیثیت تھی جو کسی زمانے میں لاہور کے عرب ہوٹل یا بمبئی کے کافی ہائوس کی۔ اس کا مالک ایک ایرانی تھا اور یہاں دن بھر اردو اور فارسی کے ادیبوں اور شاعروں کا جمگھٹ رہتا تھا۔ اسی سڑک پر امجدیہ ہوٹل تھا جس کے بالا خانے پر خلافت کمیٹی کا دفتر اس امر کی شہادت دے رہا تھا کہ مسلمانانِ ہند ہنوز نسیان کی اسی علت میں مبتلا ہیں جس کا مظاہرہ تیرہویں صدی سے ہوتا چلا آیا تھا جب ہلاکو کے ہاتھوں خلافتِ عباسیہ کا چراغ گل ہوجانے کے تیس سال بعد تک دہلی کی مسجدوں میں معتصم باللہ کا خطبہ پڑھا جاتا رہا۔ کمیٹی کے صدر اس زمانے میں حسین شہید سہروردی تھے۔ اس کے دفتر نیز امجدیہ ہوٹل میں سیاسی گپ شپ کا بازار گرم رہتا تھا۔ آگے چل کر جب مجھے خالی وقت کاٹنا منظور ہوتا تو رنگون ریستوان کا رخ کرتا جہاں ان ایرانی نوجوانوں کی صحبت مجھے پسند تھی جو اپنے ملک کی ناکام انقلابی جدوجہد کے خوں چکاں واقعات سنایا کرتے تھے۔ وہیں بیٹھ کر مجھے ایران کی تہذیب اور شاعری سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور سے لے کر تاایں دم کلکتہ میں غیر ملکی تاجروں کے ساتھ ایرانی بھی خاصی تعداد میں رہتے آئے تھے اور ان میں سے کئی میں علم و ادب کا اچھا ذوق تھا۔ سب سے مقتدر ہستی موئیدالاسلام جلال الدین کی تھی جو جمال الدین افغانی کے رفیق اور حبل المتین کے مدیر کی حیثیت سے دنیائے اسلام میں روشناس تھے۔ گو وہ نابینا تھے لیکن ان کی ذہنی و سیاسی بصیرت کا سب احترام کرتے تھے۔
ثقہ قسم کے مسلمان دانش ور مسلم انسٹی ٹیوٹ میں جمع ہوتے تھے۔ وہاں میں نے مولانا وحشت، صلاح الدین خدا بخش اور نواب نصیر حسین خیال کی باتیں کبھی کبھی سنیں۔ البتہ مولانا آزاد حسبِ معمول کہیں آتے جاتے نہ تھے ماسوا عید کی نماز کے موقع پر۔ وہ سال میں دو بار چورنگی کے میدان میں نماز پڑھاتے تھے۔ آغا حشر کاشمیری بھی مختار بیگم کے سوا کسی کے گھر نہ جاتے تھے۔ وقت کے ساتھ جیسے تیسے مجھ میں خود اعتمادی پیدا ہوتی گئی، میں ان بزرگوں سے علم کی جستجو میں بے دریغ ملتا رہا۔
رنگون ریستوران کی فضا میں ایک ناقابلِ فراموش کشش تھی اور گاہے گاہے ایسے نادر روزگار نظر آتے تھے جن کا ثانی پھر نہ ملا۔ مجھے ہمایوں مرزا خوب یاد ہیں جو مٹیا برج میں رہتے تھے اور واجد علی شاہ کا زمانہ دیکھ چکے تھے۔ ان کے والد آخر تاج دارِ اودھ کے ساتھ لکھنؤ سے یہاں آپڑے تھے۔ ہمایوں مرزا اب پیر سال ہوچکے تھے لیکن انہیں خاندانی نجابت سے زیادہ اس فریب پر یقین تھا کہ کوہ قاف کی پریاں ان پر عاشق ہیں۔ افیون کی ترنگ میں وہ لکھنؤ کے دربار اور مٹیا برج کے پرانے مکانوں کے ایسے ہوش ربا قصے سناتے کہ کیا ایرانی اور کیا تورانی، کیا گاہک اور کیا ملازم، دم بخود سنتے اور آفریں آفریں کی صدا بلند کرتے۔ سنا ہے کہ جب اوّل جنگ ِعظیم سے پہلے مولانا محمد علی کلکتہ سے ”کامریڈ“ نکالتے اور حسن امام وہاں وکالت کرتے تھے تو ہمایوں مرزا ان کے زمرۂ احباب میں اس شرط پر شامل ہوئے کہ سب مل کر انہیں ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیں گے تاکہ وہ اپنی وضع نبھاسکیں۔ البتہ اگر انہوں نے کوئی غلط بات کہی تو جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ غرض مہینے بھر کے جرمانے کی اوسط نو سو روپے بیٹھتی تھی جس کے بعد انہیں سو روپیہ باقاعدگی سے ادا ہوجاتا تھا۔ لکھنؤ کے دبستانِ شاعری کے وہ مداح تھے اور اس رنگ میں خوب کہتے تھے۔ افسوس کہ ان باتوں کا شوق مجھے دیر سے ہوا، ورنہ ہمایوں مرزا اور مٹیا برج کی خاک بسر تہذیب پر اُس وقت خاصا مواد موجود تھا۔
(”گردِ راہ“۔ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری)
مجلس اقبال
یہی زمانۂ حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیرہ و نِگہ بے باک
اس شعر میں علامہ نے جدید تہذیب کی حقیقت سے آگاہ بھی کیا ہے اور اسے شدید طنز کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی تہذیب کے پیروکار اپنے آپ کو بہت روشن دماغ قرار دیتے ہیں، مگر پوری بات نہیں کرتے، یعنی ان کی سوچ کے بارے میں روشن ہونے کا دعویٰ تو کر ڈالتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ ان کے دل اتنے تاریک ہیں اور ان کی نظریں کس قدر بے شرمی اور بے حیائی سے بھرپور ہیں، یعنی دل کی دنیا تاریک تر اور نگاہیں بصارت سے محروم ہیں تو ایسی روشن دماغی انسان کے کس کام کی! علامہ کا مستقل فلسفہ ہے کہ جب تک انسان کے دل کی دنیا روشن نہ ہو اور اس کی نگاہیں بصارت و بصیرت سے مالا مال نہ ہوں، وہ حقیقی طور پر انسانیت کے مقامِ بلند سے محروم رہتا ہے۔