آنکھ آئی ہے

سماجی آشوبِ چشم ہی کیا کم تھا کہ اب ہمارے شہرکراچی میں طبی آشوبِ چشم بھی پھیل گیا ہے۔ خیر گزری کہ اس بیماری کا انگریزی نام زباں زدِ عام نہیں، ورنہ بیماری کے ساتھ ساتھ شہر میں بیماری کی انگریزی بھی خوب پھیل رہی ہوتی۔ ’آشوب‘کا مطلب یوں تو فتنہ، فساد اور شور غوغا ہے، مگر آنکھوں میں سُرخی، دُکھن اور چبھن شروع ہوجائے تو اس فساد کو ’آشوبِ چشم‘ کہتے ہیں۔ والدہ محترمہ ایسے موقع پر کہا کرتی ہیں کہ ’آنکھ آئی ہے‘۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ ’آنکھ ‘Eye’ ہے‘۔ آنکھ آنے کی صورت میں ایسی ہر چشم پر چشمۂ سیاہ لگ جاتا ہے۔ چشمے کا ذکر آیا ہے تو لو اے صاحبوایک ’چشماٹُو‘ شعر بھی سن لو:

چشم پر چشمہ لگایا تا کہ سوجھے دُور کی
مفت میں اندھے بنے صورت ہوئی لنگور کی

لنگور کی صورت ہم نے دیکھی نہیں۔ آئینہ دیکھنے سے فرصت ملے تو کسی اور کو دیکھیں۔قصہ مشہور ہے کہ کسی چندے آفتاب چندے ماہتاب دلھن کے ہاتھ میں ہاتھ دیے کالا بھجنگ دولھا سڑک پر چلا جارہاتھا۔ایک شوخ، شریر اور باذوق لڑکے نے جوڑی دیکھی تو آوازہ کسا

پہلوئے حور میں لنگور خدا کی قدرت!
دولھامیاں نے سنا تو آؤ دیکھا نہ ’جاؤ‘(یہاں’تاؤ ‘کا استعمال ہمیں بالکل فضول لگتا ہے، تاؤنہ دیکھا ہوتا توآتاکیسے؟)تاؤ کھا کرلڑکے کو دُور تک دوڑالیا۔ بالآخر پکڑلائے۔لاتے ہی پیٹنا شروع کردیا۔مار مارکربھرکس نکال چکے اور خود ہانپنے لگے تب دلھن نے ’’دخل در مُکّا، لات‘‘ کرتے ہوئے التجا کی:’’اب بس بھی کیجیے۔ آپ نے تو بچارے کا بھرتا ہی بنا ڈالا‘‘۔

دولھا میاں نے خشمگیں بلکہ ’خصمگیں‘ نگاہوں سے گھورکر بیگم کو دیکھا اورموٹی موٹی آنکھیں نکال کرمزید ہانپتے ہوئے بولے:

’’بیگم! تم سمجھ نہیں پا رہی ہو۔ یہ گدھے کا بچہ تمھیں لنگور کہہ رہا تھا!‘‘

لنگور کی صورت بھی،چشمہ لگانے کے بعدیقیناً کسی نہ کسی اور جانور جیسی ہوجاتی ہوگی۔بعض لوگ اپنے دیدۂ (کم)بینا پر گول گول شیشوں کا چشمہ لگا کر،گول گول آنکھیں مٹکاتے ہوئے، اپنے تئیں یورپ کا ایک دانشمند پرندہ بنے اُڑے چلے جاتے ہیں۔ بزعمِ خود فلسفی کہلاتے ہیں۔ اسی طرح کے گول گول شیشوں کا ’’منشی پریم چند مارکہ‘‘ چشمہ ہمارے پرانے دوست اور بی بی سی کے موجودہ کالم نگارجناب وسعت اﷲ خان عالمِ نوجوانی میںاپنی عقابی آنکھوں پر لگایا کرتے تھے۔اﷲ بخشے کشش صدیقی مرحوم سخت موحد ہونے کے باوجود ہمارے اس عزیز دوست کوآسمانی دیوتاؤں کا درجہ دیا کرتے تھے۔وسعت اللہ کو ‘Expansion of God’کہا کرتے تھے۔

باعثِ تحریر آں کہ ہمارے ان کالموں کے ایک قاری جو اپنا نام ’علی‘ بتاتے ہیں، اسی ’شہر آشوبِ چشم‘ کے ایک مشہور دارالعلوم میں مرحلۂ متوسطہ کے طالب علم ہیں۔اللہ جانے اُنھوں نے اپنی دانست میں تحسین فرمائی ہے یا تنقیص، مگر فرمایا ہے کہ

’’آپ کے کالم خاصے علمناک ہوتے ہیں‘‘۔
دارالعلوم سے درس لینے والے اپنے اس معصوم قاری کو اگر ہم مارے خوشی کے ’ملا علی قاری‘ قرار دے ڈالیں تو اُمید ہے کہ وہ خفا نہیں خوش ہی ہوں گے۔تاہم اگر انھیں’اشکال‘ ہوجائے کہ خوش ہونا چاہیے یا خفا؟ تو ہم انھیں مشورہ دیں گے کہ اپنے دارالعلوم کے دارالافتا سے رجوع کیجیے۔ (’رجوع کیجیے‘ کے لیے لغات میں مخفف ’رک‘ استعمال ہوتا ہے، ہم نے مارے ڈر کے استعمال نہیں کیا۔)

گو کہ ’آشوب‘ اور ’چشم‘ پربھی ہمیں’خاصی علمناک‘ باتیں سوجھ رہی ہیں، مگر اپنے نوجوان ملا علی قاری کی خوشی کی خاطر آج کے کالم میں ہم کچھ ’تفنن ناک‘ باتیں کیے لیتے ہیں۔ شاید کچھ اور لوگ بھی یہی کہنا چاہتے ہوں کہ ’علموں بس کریں او یار‘۔

ہاں توہم یہ عرض کر رہے تھے کہ اہلِ ظرافت کا اس بات پر اجماع ہے کہ آدمی چشم پر چشمہ لگالے تو آدمی جیسی صورت نہیں رہتی۔ مشہور شاعرشہزاد احمد مرحوم کی حاضر جوابی کا ایک قصہ آپ نے پڑھا ہوگا۔قصہ کچھ یوں ہے کہ شہزاد احمد جب گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے تو ضعف ِبصارت کی وجہ سے اُنھیں بھی چشمہ لگانا پڑگیا۔جب وہ پہلے دن(وسعت اﷲ خان جیسا گول گول) چشمہ لگاکر کالج پہنچے تو اُن کے اُستاد صوفی غلام مصطفی تبسم اُنھیں دیکھتے ہی ہنس پڑے۔ کہنے لگے:’’اوئے! یہ کیا پہن کر آگئے ہو؟ بالکل بِجُّو لگ رہے ہو‘‘۔

سعادت مند شاگرد نے ادب سے کہا :’’سر!گستاخی معاف! نظر کمزور ہوگئی ہے۔یہ نہ پہنوں تو مجھے آپ بِجُّو لگنے لگتے ہیں‘‘۔

اس قصے کا ذکر مشتاق احمد یوسفی نے بھی کیا ہے، مگر اور طرح سے۔ایک زمانے میں چشمہ پڑھے لکھے ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ عام تصور یہی تھا کہ لوگ پڑھ پڑھ کر ’بھاویں‘ ہو جاتے ہیںتو چشمہ لگالیتے ہیں۔زیادہ پڑھ جائیں تو بوتل کے پیندے جتنے موٹے شیشوں کا چشمہ لگا تے اور دانشور کہلاتے ہیں۔ اسی خیال کو رئیس فروغ مرحوم نے بچوں کے لیے کہی جانے والی ایک سہل ممتنع قسم کی آزاد نظم میں یوں باندھا تھا: ’’ابوکے ابو دادامیاں!…اتنے بڑے؟…جی ہاں، جی ہاں!…دادا میاں کے چشمے سے حرف بڑے ہوجاتے ہیں … اُن سے مل کر لوگ بہت لکھے پڑھے ہوجاتے ہیں!‘‘مگراب تو کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ٹی وی چینلوں اور موبائل فونوں کی بدولت خود پوتے میاں بھی پیدا ہوتے ہی اتنی موٹی عینک لگا لیتے ہیں کہ بڑے بڑے پروفیسروں کو مات دے جاتے ہیں۔بچوں کا ذکرہوا تو ہمیں بچپن کی بوجھی ہوئی ایک پہیلی یاد آگئی۔یہ پہیلی پڑ ھ کر پہلے توبہت ہنسی آتی تھی۔ بچپن کی بے ساختہ اور کھلکھلاتی ہوئی ہنسی۔ اب کسی بات پر نہیں آتی۔

ایسا کون ہے وہ شیطان؟
بیٹھے ناک پہ پکڑے کان!

بچپن میں تو یہ شیطان ہمیں صرف اپنے ہیڈماسٹر صاحب کے کان پکڑے اُن کی ناک پر بیٹھا نظر آتا تھا۔مگر اب کوچہ و بازار میں نکل جائیے توقریب قریب ہر انسان کی ناک پر ایک شیطان بیٹھا اُس کے کان پکڑے اُسے کہیں لیے چلا جارہا ہوگا۔ یقین نہیں آتا کہ کوئی وقت ایسا بھی رہا ہوگاجب دُنیا میں کسی کی چشم پر چشمہ نہ تھا۔ہر چشم، چشمِ بینا تھی۔شاید یہ وقت وہ تھا جب لوگوں کی نظریں چھے بٹا چھے ہوا کرتی تھیں اور وہ دُور سے دیوار پر چلتی ہوئی اکیلی چیونٹی بھی دیکھ لیا کرتے تھے۔ اب چشمِ بینا کم ہے اور’’ چشمِ بنیا‘‘ زیادہ۔ اکبرؔ کا خیال تھا کہ نیا دردِ شکم اور نئی کم نگاہی نئی مشینی تہذیب کا تحفہ ہے۔چناں چہ وہ نئے قومی و ملّی’آشوبِ چشم‘ کے اسباب یوں بتایا کرتے تھے :

پانی پینا پڑا ہے پائپ کا

حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
پیٹ چلتا ہے، آنکھ آئی ہے
شاہ ایڈورڈ کی دُہائی ہے

شاہ ایڈورڈ کے دیس کا ایک شاعر ’ہومر‘ نابینا ہوگیا تھا۔ایک روز ایک اخبار میں ہم نے نظر کا چشمہ بنانے والی ایک کمپنی کااشتہار پڑھا۔ اشتہار کی سُرخی تھی:’’ہومر کیوں نابینا ہوگیا تھا؟‘‘نیچے متن میں اِس سُرخ سوال کا جواب یوں دیا گیا تھا :’’کیوں کہ اُس وقت عینک ایجاد نہیں ہوئی تھی‘‘۔ ایما یہ تھا کہ اے شاعرو، کم بختو! کم ازکم تم تو اندھے نہ بنو۔آؤ اور کمپنی کی بنائی ہوئی عینکیں لگا لگا کر عینکُو بن جاؤ۔
عینک ایجاد ہوئی تو طرح طرح کی عینکوں کا رواج ہوگیا۔شاعری ہو، ادب ہو، صحافت ہویا سیاست، جس شعبے کے شعبدہ بازوں کو دیکھیے، اپنے اپنے تعصب کی عینک لگائے لوگوں کو گھور رہے ہیں۔کچھ کو قریب کی عینک سے گھورتے ہیں،باقی کو دُور کی عینک سے۔