انسان سوچتا ہے اور پھر دنگ رہ جاتا ہے، ساتھ ہی حد درجہ مایوس، پریشان اور دل گرفتہ بھی۔ ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں چہارسو ظلم، ناانصافی اور جبر کا دور دورہ ہے۔ ہر سرکاری ادارہ تباہی و بربادی اور زوال سے دوچار ہوچکا ہے۔ ایک عام فرد کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ جرائم پیشہ اور بدعنوان عناصر کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ جو چاہیں کر گزریں، انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ خصوصاً وطنِ عزیز کے دوسرے بڑے صوبے سندھ میں تو حالات بے حد ابتر اور دگرگوں ہیں۔ لاقانونیت اور بدامنی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ حکومت کا عملاً وجود کہیں پر بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں اتنی کثرت اور تواتر کے ساتھ ہورہی ہیں کہ عوام کا آرام، سکون اور چین برباد ہوکر رہ گیا ہے۔ پیروں، میروں، وڈیروں اور بھوتاروں نے اپنی اپنی نجی جیلوں میں عام افراد، بچوں اور بچیوں کو زرخرید غلام بنا کر رکھا ہے۔ گزشتہ دنوں رانی پور کے پیر اسداللہ شاہ کی حویلی میں کام کرنے والی دس سالہ کم سن بچی فاطمہ جو مبینہ بہیمانہ تشدد اور زیادتی کے بعد دم توڑ گئی تھی، اس کے قاتل تاحال کیفرِکردار تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ اسی طرح سندھ کے معروف صحافی جان محمد مہر کے قاتل بھی ہنوز قانون کے شکنجے میں نہیں آسکے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں نے عوام کی زندگی اجیرن کر ڈالی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان ملک کی واحد دینی اور سیاسی جماعت ہے جس کی ساری قیادت ایسے میں عوامی جذبات اور احساسات کی ترجمان بنی ہوئی ہے۔ کیوں کہ اس کا اپنا تعلق بھی عوام سے ہے، اس لیے وہ عوامی مسائل اور مصائب کا گہرا ادراک اور شعور رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق وطنِ عزیز کے قریہ قریہ، شہر شہر، نگر نگر بذریعہ عوامی اجتماعات، ریلیوں، جلسوں اور جلوسوں سے عوام کے جذبات کی نمائندگی اور ترجمانی کررہے ہیں۔ عوامی مسائل انہیں کسی پل چین اور قرار سے بیٹھنے نہیں دیتے، اور لگتا یہ ہے کہ ملک اور قوم کو گرداب میں دیکھ کر ان کے جذبے اور جوش کو بھی یک گونہ مہمیز مل گئی ہے جس کی وجہ سے ان کی قوتِ ایمانی فزوں تر اور جسمانی طاقت میں بھی ایک طرح سے بجلیاں سی بھر گئی ہیں۔ ہفتۂ رفتہ اور اس سے بھی پیوستہ ہفتے کے اپنے بیشتر ایام انہوں نے ستم رسیدہ اور مظلوم اہلِ سندھ کے لیے وقف کیے رکھے۔ اس کا صاف اور واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ وہ سندھ کے عام افراد کے دکھ، درد اور پریشانیوں سے بہ خوبی آگاہ ہیں، اس لیے وہ اپنی زمین اور اہلِ زمین سے جڑے ہوئے ہیں۔
22 اگست کو امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق اپنے طے شدہ دورے کے مطابق معروف صحافی جان محمد مہر کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے ڈی آئی جی آفس سکھر پر دیے گئے صحافی برادری کے دھرنے میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر دھرنے سے دورانِ خطاب انہوں نے جان محمد مہر کے قتل کی سخت مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جان محمد مہر ایک بے باک اور دلیر صحافی تھے۔ جرمِ حق گوئی کی پاداش میں انہیں بے رحمی سے قتل کیا گیا ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں مَیں بہ طور اظہارِ یکجہتی یہاں اس لیے آیا ہوں تاکہ یہ بتا سکوں کہ جماعت اسلامی اس مشکل وقت میں صحافی برادری کے ساتھ کھڑی ہے، وہ خود کو ہرگز تنہا نہ سمجھیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ برس میں درجنوں صحافیوں کو قتل، لاپتا اور جعلی مقدمات میں ملوث قرار دے کر ہراساں کیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے، اسے فوری طور پر بند کیا جائے۔ ان کے ساتھ مرکزی نائب امیر اسداللہ بھٹو، مرکزی سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف، امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی، مجاہد چنا، علامہ حزب اللہ جکھرو، زبیر حفیظ اور دیگر مقامی ذمے دارانِ جماعت بھی تھے۔ دریں اثنا اسی دن انہوں نے رانی پور میں بہیمانہ انداز سے تشدد کے بعد قتل ہونے والی معصوم فاطمہ کے قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے منعقدہ ایک بڑی احتجاجی ریلی جو رانی پور ٹول پلازہ سے شہر کے مین چوک باب دستگیر پہنچنے تک ایک بڑے جلسۂ عام کی صورت اختیار کرچکی تھی‘ سے دوران خطاب کہا کہ سندھ میں عملاً ہر جگہ جنگل کا قانون نافذ ہے۔ پی پی پی کے طویل دورِ اقتدار نے سندھ کے عوام کو ماسوائے بھوک، بے روزگاری، بدامنی اور افلاس کے کچھ بھی نہیں دیا ہے۔ لوگ شدید مہنگائی سے تنگ آکر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ تھرپارکر میں بچے غذائی قلت سے دم توڑ رہے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ اب سندھ میں معصوم بچے اور بچیاں تک محفوظ نہیں ہیں۔ انہوں نے معصوم فاطمہ کے قاتلوں کی فوری گرفتاری اور انہیں سخت سزائیں دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری یہ تحریک معصوم فاطمہ کے قاتلوں کو سزا دینے تک جاری رہے گی۔ فاطمہ سے ظلم کرنے والا پیر نہیں بلکہ انسان نما شیطان ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ کوئی حکومتی شخصیت فاطمہ کے والدین سے اظہارِ تعزیت کرنے نہیں آئی ہے۔ اس موقع پر جلسہ عام کے ہزاروں شرکا نے سندھ سے ڈاکو راج ختم کرنے اور فاطمہ کے قاتلوںکو پھانسی دینے کے لیے فلک شگاف نعرے بھی لگائے۔ اس موقع پر جلسہ عام سے امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی، نائب امیر صوبہ ممتاز سہتو اور دیگر رہنمائوں نے بھی خطاب کیا جن میں مرکزی نائب امیر اسداللہ بھٹو، امیر ضلع خیرپور ثنا اللہ جونیجو، سندھ کے صدر امتیاز پالاری بھی شامل تھے۔
علاوہ ازیں امیر جماعت اسلامی معصوم فاطمہ کے والدین سے اظہارِ تعزیت کرنے ان کے گائوں خان واہن پہنچے جہاں انہوں نے فاطمہ کے والد ندیم کو گلے لگایا اور ان کے آنسو پونچھے، اور فاطمہ کے والد، چچا فدا حسین اور بھائی فرحان سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس مشکل اور دکھ کے لمحات میں آپ کے ساتھ ہیں۔ ان کے ساتھ مرکزی سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف، عبدالحفیظ بجارانی، کاشف سعید شیخ اور دیگر صوبائی، ضلعی اور مقامی ذمہ داران بھی موجود تھے۔ واضح رہے کہ امیر جماعت کے مذکورہ اظہارِ یک جہتی کو اہلِِ سندھ، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کی جانب سے بھی بہت سراہا گیا کہ قومی سطح کے واحد رہنما سراج الحق نے فاطمہ نامی معصوم بچی کے قاتلوں اور صحافی جان محمد مہر کے قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں سزا دلانے کے لیے عملاً جدوجہد کی ہے اور یہاں تک کا سفر صرف اسی مقصد کے تحت اختیار کیا گیا ہے۔
دریں اثنا امیر جماعت نے اوباڑو میں استقبالیہ میں شرکت اور ڈھرکی میں الخدمت اسپتال کا دورہ بھی کیا۔ پنوں عاقل میں نامور عالم دین عبدالصمد ہالیجوی کے لواحقین سے اظہارِ تعزیت کیا۔ انہوں نے سکھر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور مہران مرکز میں ارکان و کارکنان سے بھی خطاب کیا۔ طے شدہ شیڈول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہوں نے لاڑکانہ پہنچ کر زخمی قیم جماعت سندھ کاشف سعید شیخ کی عیادت کی جہاں وہ ٹریفک حادثے میں زخمی ہونے کے بعد سلام میڈیکل سینٹر لاڑکانہ میں اپنے ساتھی علی گل چانڈیو کے ساتھ داخل تھے۔ امیر جماعت نے زخمیوں کی عیادت اور ان کی فوری صحت یابی کے لیے دعا کی۔ امیر جماعت نے بھرچونڈی شریف کے سجادۂ نشین، معروف دینی رہنما اور سابق ایم این اے میاں عبدالحق کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔
30 اگست کو امیر جماعت سراج الحق نے بدامنی سے شدید متاثرہ اور ایک طرح سے علاقہ غیر بن جانے والے ضلع کندھ کوٹ کشمور میں جماعت اسلامی کے زیراہتمام بدامنی کے خلاف منعقدہ ایک بہت بڑے احتجاجی دھرنے اور جلسہ عام سے خطاب کیا جس میں ہندو برادری، تاجر برادری سمیت مغویوں کے رشتے داروں اور ہر طبقہ فکر سے وابستہ ہزاروں افراد شریک تھے۔ یاد رہے کہ ضلع کندھ کوٹ کشمور طویل عرصے سے بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے اور اِس وقت بھی درجنوں کی تعداد میں معصوم بچوں سمیت بڑی عمر کے افراد اور خواتین علاقے میں ڈاکوئوں کے زیر قبضہ اور اغوا برائے تاون کے لیے اسیر ہیں۔ اس موقع پر گھنٹہ گھر چوک کندھ کوٹ پر منعقدہ دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج سارا سندھ بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے، خاص طور پر ضلع کندھ کوٹ کشمور میں کسی کی جان، مال، عزت اور آبرو محفوظ نہیں ہے۔ امن کے لیے بھاری بجٹ مختص ہے، اور نفاذِ امن کے ذمے دار بہت سارے اداروں اور ایجنسیوں کے باوجود سندھ بھر میں ڈاکو راج قائم ہے۔ پی پی نے اپنے 15 سالہ دورِ اقتدار میں اہلِ سندھ کو ماسوائے دکھوں، آنسوئوں اور آہوں کے کچھ نہیں دیا۔ پولیس اور انتظامیہ ڈاکوئوں سے ملے ہوئے لگتے ہیں ورنہ اتنے جرائم اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کاہے کو اور کس لیے ہوتیں؟ قبل ازیں ان کی زیر قیادت کندھ کوٹ بائی پاس تا گھنٹہ گھر چوک امن مارچ کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں ہر طبقہ فکر سے وابستہ ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ درجنوں مغویوں کے اہلِ خانہ بھی اس مارچ میں شامل تھے۔ جلسہ عام سے مرکزی نائب امیر اسداللہ بھٹو، امیر صوبہ محمد حسین محنتی، عبدالحفیظ بجارانی، اقلیتی رہنما مکھی سریش کمار، امیر ضلع غلام مصطفی میرانی اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ 31 اگست کو امیر جماعت نے بدامنی سے ایک اور بہت زیادہ متاثرہ ضلع شکارپور میں گھنٹہ گھر چوک پر ایک احتجاجی دھرنے سے دوران خطاب کہا کہ سندھ میں عملاً اندھیر نگری چوپٹ راج قائم ہے۔ پی پی نے سندھ اور اہلِ سندھ کو اپنے طویل دورِ اقتدار میں یکسر تباہ کر ڈالا ہے۔ آج بدامنی کے ہاتھوں عوام سخت پریشان اور ذہنی امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں، کاروبار تباہ ہوچکا ہے۔ قبل ازیں ان کی زیر قیادت گھنٹہ گھر تک رستم چوک اور لکھی در سے روانہ ہونے والا امن مارچ بھی نکالا گیا جس میں ہر طبقہ فکر سے وابستہ ہزاروں افراد نے شرکت کی جو امن کے حق اور بدامنی کے خلاف، ڈاکو راج ختم کرو کے فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے۔ اس موقع پر دورانِ خطاب امیر جماعت نے کہا کہ عوام 2 ستمبر کو بجلی کے بڑھتے ہوئے ظالمانہ بلوں اور بے تحاشا آئے دن بڑھنے والی مہنگائی کے خلاف ملک گیر پُرامن ہڑتال کریں اور حکمرانوں کو بتا دیں کہ اب ہم بیدار ہوچکے ہیں، مزید مظالم برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے سروں سے کفن باندھ کر نکلے ہیں اور عوام کو ان کے حقوق دلا کر دم لیں گے۔ دھرنے سے اسداللہ بھٹو، امیر صوبہ محمد حسین محنتی، ممتاز حسین سہتو، نائب امیر صوبہ اور ضلع شکارپور کے امیر عبدالسمیع بھٹی نے بھی خطاب کیا۔ دریں اثنا 26 اگست کو 82 ویں یوم تاسیس جماعت اسلامی کے موقع پر جیکب آباد کے وش ہال میں ایک شان دار اور پروقار تقریب کا انعقاد ہوا جس سے امیر صوبہ محمد حسین محنتی، امیر ضلع دیدار لاشاری، نائب قیم صوبہ عبدالحفیظ بجارانی اور دیگر رہنمائوں نے دورانِ خطاب جماعت اسلامی کی ملک و قوم اور امتِ مسلمہ کے لیے سرانجام دی گئی شاندار اور یادگار خدمات پر روشنی ڈالی۔ 2 ستمبر کو ملک بھر کی طرح سندھ بھر میں بھی پُرامن شٹربند اور پہیہ جام ہڑتال امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی اپیل پر کی گئی اور عوام نے ملک بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی کے ظالمانہ بلوں کے خلاف پُرزور احتجاج پُرامن طریقے سے ریکارڈ کروایا۔