مہنگائی کے خلاف جماعت اسلامی اور مرکزی تنظیم تاجران کی اپیل پر ملک بھر میں شٹر ڈائون ہڑتال کی طرح صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت خیبر پختون خوا کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبات میں بھی بازار اور کاروباری مراکز بند رہے، سڑکوں پر ٹرانسپورٹ اور بسیں بھی معمول سے کم رہیں، جبکہ وکلا نے بھی ہڑتال کی حمایت کی اور عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے۔ اس موقع پر مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔ مظاہرین نے بجلی کے بل نذرِآتش کیے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ پشاور میں کینٹ،ہشتگری، خیبر بازار اشرف روڈ سمیت تمام کاروباری مراکز بند رہے۔ مظاہرین نے ریلی بھی نکالی اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے جی ٹی روڈ پر ٹائر بھی نذرِ آتش کیے۔ ریلی کی قیادت جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری عبدالواسع، مولانا عبدالاکبر چترالی، پشاورکے امیر بحراللہ خان ایڈووکیٹ نے کی۔ اس موقع پر تاجر رہنما خالد ایوب، شرافت علی مبارک (صدر انجمن تاجران خیبر پختون خوا)، عاطف حلیم (انصاف ٹریڈ یونین)، حاجی نصیر، خالد گل مہمند اور دیگر مختلف تاجر تنظیموں کے رہنما بھی موجود تھے۔ احتجاجی ریلی کی وجہ سے جی ٹی روڈ پر فردوس سنیما چوک کے سامنے ٹریفک جام ہوگیا اور لوگ گاڑیوں میں پھنس گئے۔ اس دوران بی آر ٹی سروس کو بند کیا گیا تھا جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ، رکشہ اور ٹیکسیاں وغیرہ بھی موجود نہیں تھیں۔ حیران کن طور پر 2ستمبر کی ہڑتال پر پی ڈی ایم سمیت پی ٹی آئی کی جانب سے بھی کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا، حالانکہ مہنگائی جس نہج پر پہنچ چکی ہے اور اشیائے خورو نوش کے علاوہ بجلی،گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں جس طرح آسمان سے باتیں کررہی ہیں اس سے ملک کا ہر شہری حتیٰ کہ امیر طبقہ بھی پریشان ہے، لیکن اس موقع پر دیگر روایتی جماعتوں کے برعکس جماعت اسلامی نے جس ہمت اور پامردی کے ساتھ عوام کی آرزوئوں کی ترجمانی کا حق ادا کیا ہے اس کی مثال کوئی اور جماعت پیش نہیں کرسکتی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے گزشتہ کئی ماہ سے اہم عوامی ایشوز کو زبان زدِ عام بنا رکھا ہے، جس کی تپش حکومتی ایوانوں کے ساتھ ساتھ مقتدر حلقوں میں بھی محسوس کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پشاور میں جماعت اسلامی کے سرکردہ کارکنان اور مقامی ،راہنمائوں کے خلاف نہ صرف ہڑتال کرنے پر ایف آئی آرز کاٹی گئی ہیں بلکہ ان کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے بھی مارے جا رہے ہیں، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کے احتجاج کی تپش حکمران طبقات تک پہنچ چکی ہے ۔
دریں اثناء خیبر پختون خوا کے حالیہ ضمنی بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے مطابق صوبے کے 21 اضلاع کی 65 ویلیج ونیبرہڈکونسلوں میں 72 نشستوں پر ضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جن کی تعداد 40 ہے۔ دیگرنتائج کے مطابق پی ٹی آئی نے ان انتخابات میں 14، جمعیت علمائے اسلام نے 6، جماعت اسلامی نے 5، عوامی نیشنل پارٹی نے 4، پیپلز پارٹی 2، جبکہ تحریک لبیک نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی ہے۔ ان 65 ویلیج ونیبر ہڈ کونسلوں کی 72 نشستوں میں سب سے زیادہ 30 یوتھ کونسلر کی نشستوں، 23 جنرل کونسلر کی نشستوں، 10 مزدور کسان اور 9 خواتین کونسلر کی نشستوں پر الیکشن ہوئے ہیں۔ گو ان انتخابات میں وہ روایتی جوش خروش نظر نہیںآیا جو عام طور پر اس سطح کے انتخابات میں نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے پولنگ کی عمومی شرح بھی بہت کم رہنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان ضمنی انتخابات میں ووٹرز کی عدم دلچسپی کی ایک وجہ اگر شدید گرمی کے موسم کو قرار دیا جارہا ہے تو دوسری جانب مہنگائی کی حالیہ شدید لہر کی وجہ سے بھی لوگوں نے ان انتخابات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی، جس کا واضح اثر ٹرن آئوٹ پر پڑا ہے۔ ان ضمنی بلدیاتی انتخابات میں عام ووٹرز کی عدم دلچسپی کی ایک اور وجہ شاید بلدیاتی اداروں کے تقریباً دو سال پورے ہونے کے باوجود ان کی غیر فعالیت کو بھی سمجھا جاتا ہے۔ ایک تیسری وجہ لوگوں کا عام انتخابات کا انتظار کرنا بھی ہے، کیونکہ لوگوں کی زیادہ تر دلچسپی عام انتخابات میں ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ان دنوں مہنگائی کی جو صورتِ حال ہے شاید اس سے وطنِ عزیز تب ہی نکل سکتا ہے جب نئے سرے سے انتخابات ہوں اور ملک میں ایک نئی منتخب حکومت برسراقتدار آئے جو شاید قوم کو مہنگائی اور بدامنی کے چنگل سے نکال سکے۔
ان حالیہ ضمنی بلدیاتی انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی کا اندازہ ان انتخابات کے سامنے آنے والے نتائج سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں سیاسی جماعتوں کی نسبت آزاد امیدواران بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں حالانکہ یہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوئے ہیں۔ ان انتخابات کے حوالے سے سردمہری کی ایک اور وجہ زیادہ تر اُن نشستوں پر انتخابات کا ہونا ہے جو یوتھ کونسلر، یا پھر مزدور، کسان اور خواتین کے لیے مختص تھیں جن میں جنرل نشستوں کی تعداد بہت کم تھی، جب کہ چیئرمین کی نشستیں تو نہ ہونے کے برابر تھیں، اس لیے لوگوں نے ان میں کسی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
ہمارے ہاں جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق سے لے کر موجودہ وقت تک بلدیاتی انتخابات کے کئی ماڈل اپنائے جاتے رہے ہیں، اور ان پر موقع کی مناسبت سے تنقید اور اعتراضات بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں، اور ان بلدیاتی اداروں کو لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ کارآمد اور قابلِ قبول بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے جاتے رہے ہیں، لیکن ہم اب تک کسی ایک مثالی ماڈل پر متفق نہیں ہوسکے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ہاں دیگر جمہوری اداروں کی طرح بلدیاتی ادارے بھی نہ تو صحیح طور پر پنپ سکے ہیں اور نہ ہی ان اداروں سے متعلق لوگوں کی عمومی توقعات پوری ہوسکی ہیں، جس کا نتیجہ بلدیاتی انتخابات میں عوام کی عدم دلچسپی کی صورت میں سامنے آتا رہا ہے۔ کسی بھی سیاسی نظام میں تجربات اور اصلاحات مثبت اور تعمیری سوچ کی عکاس ہیں، لیکن یہ سب کچھ کسی نظام کو اپاہج بنانے کی قیمت پر ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا موجودہ بلدیاتی نظام کو جہاں مستحکم کرنے کی ضرورت ہے وہاں اس نظام کا قومی امنگوں، عوام کی خواہشات اور ضروریات سے ہم آہنگ کیا جانا بھی ضروری ہے۔