ملکی تاریخ میں پہلی بار اسٹیبلشمنٹ اتنی مضبوط ہوئی ہے کہ اسے ہر طرف سے تعاون مل رہا ہے
اہلِ وطن مطمئن ہوجائیں، اب ملک مکمل طور پر ’’محفوظ‘‘ ہاتھوں میں ہے، سب ایک پیج پر ہیں۔ جو اس پیج سے باہر ہیں وہ پیج پر آنے کے لیے سرگرداں و کوشاں ہیں۔ جو اس پیج پر اب بھی نہ آئیں اُن کا علاج کرلیا جائے گا کہ یہ علاج موجود ہے اور سب کو معلوم بھی ہے۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار اسٹیبلشمنٹ اتنی مضبوط ہوئی ہے کہ اسے ہر طرف سے تعاون مل رہا ہے۔ 13 جماعتی اتحاد اس کی گود میں بیٹھا ہوا ہے، نگراں حکومتیں اس کی اپنی بنائی ہوئی ہیں۔ نگراں وزیراعظم کی نامزدگی سے قبل لوگ اپنے اپنے اندازے لگاتے رہے، میڈیا اپنے ذرائع کے گھوڑے دوڑاتا رہا، ہر بڑے اور ممکنہ نام پر میڈیا شوشے چھوڑتا رہا، لیکن اسٹیبلشمنٹ نے ایک ایسے گھوڑے کو میدان میں اتار دیا کہ عام حالات میں شاید اسے بلوچستان کی نگراں کابینہ کا وزیر بنایا جاتا تو خود اسے ہی حیرت ہوتی۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اپنا کام کیا، چنانچہ کسی جانب سے مخالفت یا مزاحمت نہ ہوئی۔ جو تھوڑی سی مخالفت ہوئی وہ اتنی غیر مؤثر تھی کہ وہ نہ بھی کی جاتی تو کوئی فرق نہ پڑتا۔ اس اسٹیبلشمنٹ نے سپریم کورٹ کے حکم پر بھی پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات نہیں کرائے، اور بظاہر طاقت ور عدلیہ نے بھی گھٹنے ٹیک دیے۔ اس وقت سیاسی طور پر 13 جماعتی اتحاد کی مکمل حمایت کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ بے حد مضبوط ہے۔ پیپلزپارٹی اگرچہ اس اتحاد میں شامل نہیں لیکن وہ اسٹیبلشمنٹ سے مکمل رابطے میں ہے اور اس سے پورا تعاون ہی نہیں کررہی بلکہ اپنے معاملات بھی اسٹیبلشمنٹ سے بہتر کررہی ہے۔ تحریک انصاف 9مئی کے واقعے کے بعد اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی ہے۔ اگرچہ وہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی میں نظر آتی تھی اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کررہی تھی، مگر اب تو اس کو اپنی پڑی ہوئی ہے، وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے معاملات ٹھیک کرنا چاہتی ہے، اس کے بغیر اُس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ صرف اے این پی اور اختر مینگل کبھی کبھار اسٹیبلشمنٹ پر سوال اٹھاتے ہیں لیکن عملاً وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد ہی چاہتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں نہ صرف اجتماعی طور پر اسٹیبلشمنٹ سے عملی اور زبانی طور پر تعاون کررہی ہیں، بلکہ اپنی اپنی سطح پر بھی تعاون اور رابطے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ صرف جماعت اسلامی کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطہ کمزور ہے، شاید وہ یہ چاہتی بھی نہیں ہے۔ بیوروکریسی پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھی اور ہے، عدلیہ بھی ساتھ ہے۔ جہاں کہیں تھوڑا بہت اختلاف نظر آتا ہے وہ بھی چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد دور ہوجائے گا۔ صدرِ مملکت بھی آہستہ آہستہ بے اثر اور غیر متعلق ہوتے جارہے ہیں۔
ہمارے ملک میں اگرچہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے سیاسی بساط پر اپنے مہرے چلاتی رہی ہے لیکن اِس بار تو تمام معاملات اُس کے کنٹرول میں ہیں۔ ہر سیاسی، سماجی اور انتظامی گھوڑے کی طنابیں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ سلسلہ پہلے دن سے جاری ہے جو آج تک چل رہا ہے۔
آزادی کے فوراً بعد چودھری محمد علی اور ملک غلام محمد کی سیاست میں آمد سے یہ سلسلہ شروع ہوا، جس میں بہت جلد عسکری اشرافیہ بھی شریک ہوتی گئی۔ اسکندر مرزا اور ایوب خان نے یہ کام اتنا کرلیا کہ بیوروکریسی ان کے آگے بے بس ہوگئی۔ پھر اس اسٹیبلشمنٹ نے اپنے وزرائے اعظم بھی لگوائے، اسمبلیاں بھی تڑوائیں، ری پبلکن پارٹی کے نام سے اپنی جماعت بھی کھڑی کردی اور حکمران جماعت کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کردیا، اور آخرکار ایوب خان ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوگئے۔ یہ سلسلہ آج کل زیادہ زور شور سے جاری ہے۔ انتخابات ان کی مرضی پر ہیں، کرائیں یا نہ کرائیں، انہیں کوئی چیلنج درپیش نہیں۔ ملکی معاملات کی سمت بھی یہی اسٹیبلشمنٹ متعین کرے گی۔ آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات بھی یہی کرے گی۔ عوام پر سخت فیصلے ٹھونس کر معیشت کو درست کرنے کی کوشش بھی کرے گی۔ سفارتی سطح پر بھی فیصلے یہی اسٹیبلشمنٹ کرے گی۔ اس لیے اب عوام پریشان نہ ہوں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے نئے فیصلوں اور بیانیے کا انتظار کریں۔