آج ہم کالم لکھیں تو کیا لکھیں؟ قارئین کا عالم تو یہ ہے کہ ہمارا کالم دیکھنے کے بجائے بجلی کے بِل دیکھ دیکھ کربِلبِلا رہے ہیں۔اپنے اپنے گھربار، اپنی اپنی دکانیں اور اپنے اپنے کاروبار،سب چھوڑ چھاڑ، بجلی کی سی سرعت سے سڑکوں اور چوراہوں پر آگئے ہیں۔ مشتعل عوام اپنے کَس بَل ایسے دکھا رہے ہیں جیسے انگ انگ میں بجلی بھر گئی ہو۔ مہینے بھر اپنے گھر میں بجلی کے تین بلب جلائے ہوں گے، مگر بل اتنا آیا جیسے تین ہزار بلب جلا ڈالے ہوں۔ اس پر دل جلا چکے تو اب طیش کے عالم میں بجلی کے بِل ہی جلائے دے رہے ہیں۔ شکر کیجیے کہ فقط بل ہی جلا رہے ہیں۔ورنہ آسمانِ وطن پر تمام اہلِ وطن کے غم، غصے اور اشتعال کے بادلوں کی بجلی، کڑک بھی رہی ہے اور چمک بھی رہی ہے۔ بجلی گھروں والے بھی اِس آسمان کی طرف منہ اُٹھا اُٹھا کر دیکھتے ہیں اور ’’ڈرتے ہیں آسماں سے کہ بجلی نہ گر پڑے‘‘۔ بجلی کے محکموں کے اہل کاروں کو زد و کوب کرنے کے بھی کچھ واقعات پیش آئے ہیں۔سو، اہلِ بجلی نے بھی اپنے اپنے آشیانوں کی حفاظت کے لیے سرکار سے محافظ دستے تعینات کرنے کی درخواست کر دی ہے کہ سرکار آپ ہی نے تویہ بجلی گرائی ہے، اے بادِ صبا ایں ہمہ آوردۂ تُست،اور بقول اخترؔ شیرانی:
آپ ہی نے دردِ دل بخشا ہمیں
آپ ہی اس کا مداوا کیجیے
مگر سرکار دربار میں اپنے اپنے تخت پر متمکن اہلِ مراعات، جن کے محلات مفت کی بجلی کے چراغوں سے روشن ہیں اورایسی شدید گرمی و گرماگرمی میں بھی خنک و سرد ہیں، اس خوش فہمی میں مگن اور مطمئن بیٹھے ہیں کہ
’’گرے گی‘‘ جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
پر بجلی تو کسی کا لحاظ نہیں کرتی۔ جس پر گرنا چاہے گر پڑتی ہے۔ کبھی کسی کی عمارت کی چھت پر گرتی ہے، کبھی درختوں پر، کبھی بھینسوں پر، کبھی تخت و تاج پر اور کبھی مفت کی مراعات لینے والے طبقات پر۔جس پر گرتی ہے اُسے اپنے شعلے سے جلا کر بھسم کرڈالتی ہے۔مراعات یافتہ طبقے کو معلوم ہو کہ ’بھسم ہوجانے‘ کا مطلب ہے جل کر راکھ ہوجانا،خاک ہوجانا یا بھبھوت بن جانا۔داغؔ کہتے ہیں:
نہیں سوزشِ غم سے دل کا نشاں
جلا اور جل کر بھسم ہو گیا
اس وقت ہماری معیشت کا بجلی گھر سود اور سودی قرضوں کے ایندھن سے چل رہا ہے، جل رہا ہے اور بھسم ہو رہا ہے۔سودی بجلی گھر سے بننے والی معاشی برقی رو کے تمام فوائد کا بہاؤ مفت کی مراعات لُوٹنے والے طبقات کی طرف ہے۔ان طبقات کی اپنی معیشت کے بوجھ اور سودی قرض کو چکانے کے بوجھ کا تمام تردباؤصرف اور صرف عوام کے سر اور کاندھوں پر ہے۔پس اگر مترفین کے اس مسلسل اور متواتر عمل سے پاکستان میں بھی ’’انقلابِ فرانس‘‘برپا ہوگیا توبربادی کا یہ عمل بجلی کی آگ کی طرح بھیانک ہوگا۔بجلی کی آگ تو پانی سے اور آسانی سے نہیں بجھتی۔ سب کچھ بھسم کر دیتی ہے۔ مترفین بھی اس آگ میں اس طرح بھسم ہوجائیں گے کہ ان کا کالا بھجنگ چہرہ اُن کی وہ ذُرّیات بھی نہیں پہچان سکیں گی جن کی خاطر آج وہ بلند برقی فشار رکھنے والی بجلی کے ان ننگے تاروں سے کھیل رہے ہیں۔
’مُترِف‘ کہتے ہیں آسودگی، عیش اور آسائش سے بسر کرنے والے کو۔اُس شخص کو جس نے زندگی میں کبھی تنگی اور افلاس دیکھا ہی نہ ہو۔ اُس شخص کو جس کا مال اُسے تکبر اور سرکشی میں مبتلا کر دیتا ہے۔اُس شخص کو جسے نعمتیں، آسائشیں اور عیش بھری زیست ظالم اور سنگ دل بنا کر رکھ دیتی ہے۔ ملک کے’مترفین‘ کو آپ محض ان علامات سے پہچان سکتے ہیں۔دوسروں کی محنت پر عیش کرنے والے یہی مترفین ہیں جو سود کی جکڑ کا خاتمہ نہیں ہونے دیتے، کیوں کہ اس میں صرف عوام جکڑے گئے ہیں۔یہ مترفین ہی ہیںجو اللہ کے بندوں کو اللہ کے نظام کی نعمتوں اور سہولتوں سے مستفید ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ پہلے بھی یہی تھے۔ سورۂ سبا کی آیت 34میں ارشادِربانی ہے:
’’کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں ایک خبردار کرنے والا بھیجا ہو اور اس بستی کے مترفین نے یہ نہ کہا ہو کہ جو پیغام تم لے کر آئے ہو اس کو ہم نہیں مانتے‘‘۔
ملک کے اِنھیں مترفین کی خوش حالی کا خرچ ملک کے غریب اور مفلوک الحال عوام برداشت کر رہے ہیں۔مگر اب اُن کا خرچ برداشت کرنا عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگیا ہے۔ طرح طرح کے درد ناک واقعات منظرعام پر آچکے ہیں۔بِلوں کے بوجھ سے بلبلائے ہوئے عوام کل (2ستمبر2023ء کو) ملک گیر ہڑتال کر رہے ہیں۔ ہم نے سنا ہے کہ’’ اُس غیرتِ ناہید کی ’ہڑتال‘ ہے دیپک‘‘۔ اب دیکھیے کہ اس دیپک راگ سے کہاں کہاں آگ لگتی ہے۔اقبالؔ تو یہی شکوہ کرتے رہ گئے کہ ’’برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر‘‘۔
گرنے والی بجلی کو برق نہیں ’صاعقہ‘ کہتے ہیں۔ صاعقہ کا مطلب ہے وہ بجلی جو زمین پر گرے۔میر انیسؔ کہتے ہیں:
اک صاعقہ گرتے ہوئے جو دور سے دیکھا
موسیٰ نے اسی نور کو تھا طور سے دیکھا
انیسؔ نے صاعقہ کو مذکر باندھا ہے۔فرہنگِ تلفظ میں بھی اسے ’اسمِ مذکر‘ ہی لکھا گیا ہے۔ مگر ہماری صاعقائیں بالکل نہ گھبرائیں۔ کچھ شعرا نے صاعقہ کو مؤنث بھی باندھا ہے، جیسے مسرورؔ نے اُس شوخ کی بابت کہا:
شوخ کی برقِ تبسم جو چمک جاتی ہے
صاعقہ ابر کے پردے میں دبک جاتی ہے
رحمٰن کیانی بھی پاک فضائیہ کے شاہینوں کو ’’صرصر قدم، سموم نَفَس، صاعقہ خرام‘‘ قرار دیتے ہیں۔ صرصر آندھی کو کہتے ہیں اور سُموم گرم ہوا کو۔ہمارے ’صاعقہ خرام‘ طیارے بقول رحمٰن کیانی: فتنہ گرانِ دہر سے لینے کو انتقام +اُٹھتے ہیں جب فضاؤں میں لے کر خدا کا نام‘
چلتے ہیں جیسے تیر کمانوں سے چھوٹ کر
گرتے ہیں بجلیوں کی طرح ٹوٹ ٹوٹ کر
حاصلِ کلام یہ کہ ’’صاعقہ ‘‘گرتی ہے بے چارے مسلمانوں پر۔ ’برق‘ کا مطلب چمکنا، چُندھیانا یا خیرہ کر دینا ہے۔وہ چمک جس سے آنکھیں چُندھیا جائیں۔اسی وجہ سے صرف چمکنے والی بجلی کو ’برق‘ کہا جاتا ہے۔فانیؔ بدایونی اپنے ہنس مُکھ محبوب کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اِک برق سرِ طور ہے لہرائی ہوئی سی
دیکھوں ترے ہونٹوں پہ ہنسی آئی ہوئی سی
مصنوعی بجلی جو بجلی گھروں میں تیار کی جاتی ہے ’کہربا‘ کہلاتی ہے۔ مگر اردو میں اب ہر قسم کی بجلی ’برق‘ کہی جانے لگی ہے۔ اسی وجہ سے ’صاعقہ خرام‘ کی جگہ بھی ’برق رفتار‘ کہا جانے لگا ہے۔ پن بجلی ’برقاب‘ (برقِ آب) کہی جاتی ہے۔بجلی سے چلنے والے تمام آلات ’برقی آلات‘ کہے جاتے ہیں۔ ‘WAPDA’ کا نام قومی زبان میں ’’ادارۂ ترقی برق و آب ‘‘ تھا۔مگر یہ نام اب شاید خود ’واپڈا‘ والوں کو بھی معلوم نہیں ہوگا۔ ‘KESC’ (یعنی ’کیسکو‘)کو بھی ’ادارۂ فراہمی برق کراچی‘ کہا جاتا تھا۔ اخبارات میں اشتہارات اسی نام سے آیا کرتے تھے۔مگر اب تو لیسکو، حیسکو اور پیسکو کا دور ہے۔
نہ کسی کو فکرِ منزل نہ کہیں سراغِ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ