کیا بجلی کے بلوں کے خلاف ملک گیر احتجاج بے نتیجہ رہے گا؟
یہ محض داستان گوئی نہیں بلکہ بجلی کے 37کروڑ یونٹ سالانہ مفت فراہمی کی کہانی ہے، اور یہ ایک محتاط اندازہ ہے کہ بجلی کے بلوں میں اصل قیمت کا 48 فیصد ٹیکسوں کی مد میں وصول کیا جاتا ہے اور کم و بیش 900 ارب کی بجلی چوری ہوتی یا پھر مراعات یافتہ طبقے کو مفت میں ملتی ہے۔ یہ محتاط اندازہ ہے، تاہم درست اعدادو شمار کے لیے حکومت خود اپنے وسائل بروئے کار لائے اور عوام کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کرے، کیونکہ نافذالعمل آئین کی رو سے اس ملک کے اصل حکمران عوام ہیں۔ حکومت بجلی کی قیمت میں اضافے کی اصل وجوہات سے بہت اچھی طرح واقف ہے لیکن وہ کبھی بھی ان وجوہات کو عوام کے سامنے افشا نہیں کرے گی جو اس ملک کے اصل حکمران ہیں، کیونکہ آئی پی پیز معاہدے کے نکات بہت واضح ہیں، ان معاہدوں کی وجہ سے حکومت ریلیف نہیں دے سکتی۔ اگرچہ نگران وزیراعظم نے اس معاملے میں بریفنگ لی ہے، تاہم فیصلہ وہی ہوگا جس سے آئی پی پیز معاہدے متاثر نہ ہوں۔ وزارتِ توانائی میں ہونے والے اجلاس میں گھریلو صارفین کو بجلی بلوں پر ون سلیب بینیفٹ دینے کی تجویز دی گئی ہے، صارفین کو بجلی بلوں کی ادائیگی میں زیادہ قسطوں کا ریلیف دینے کی تجویز آئی ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھاری بجلی بلوں کا کچھ حصہ سردیوں کے مہینوں میں ادا کرنے کی سہولت دی جائے۔ بجلی بلوں پر عائد ٹیکسوں میں کمی پر وزارتِ خزانہ سے بھی اس کی رائے لینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اب حتمی فیصلہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ہوگا۔ بجلی کے بلوں میں عوام کو کوئی خاص ریلیف نہیں مل سکے گا، آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے سبسڈی نہیں دی جاسکتی، اس لیے مصنوعی تبدیلیاں ہی ممکن ہیں۔ ایک سلیب بینیفٹ دینے سے عوام کو تھوڑا بہت ریلیف مل سکتا ہے لیکن اس سے ورلڈ بینک کا اگلا قرضہ خطرے میں پڑجائے گا، آئی ایم ایف بھی اسے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے خلاف سمجھے گا۔ ملک سے یکساں ٹیرف کا نظام ختم کیا جائے، اس سے پنجاب اور اسلام آباد کے صارفین کو بڑا ریلیف ملے گا۔ اس وقت بلوچستان، خیبرپختون خوا اور اندرون سندھ بجلی کی چوری زیادہ ہورہی ہے۔ بجلی کے بلوں کی 2200ارب روپے سے زائد ریکوری کی جائے۔ گردشی قرضے پر سرچارج بجلی کا بل بھرنے والے صارفین سے کیوں لیا جارہا ہے؟ پاور سیکٹر پر گردشی قرضہ بل نہ دینے والوں کی وجہ سے ہے۔
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی زیر صدارت 2 گھنٹے طویل اعلیٰ سطحی اجلاس کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا، تاہم صارفین کی تشفی کے لیے انہیں زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے، بجلی کی چوری روکنے کے لیے آرڈیننس لانے، اس پر عمل درآمد کے لیے باقاعدہ فورس بنانے اور اداروں اور سرکاری افسروں کو مفت بجلی کی فراہمی بند کرنے کا عندیہ دیا گیا، ساتھ ہی یہ وارننگ دی گئی کہ بلوں کی عدم ادائیگی کو بھی بجلی چوری تصور کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے مسئلے کے قابلِ عمل حل کے لیے حکام سے سفارشات بھی طلب کرلیں۔ بجلی بلوں میں کمی کے حوالے سے فی الحال کوئی تجویز شامل نہیں ہے، اس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف اور آئی پی پیز معاہدے ہیں جن کی خلاف ورزی حکومت کو بہت مہنگی پڑے گی۔ معاہدے کے مطابق بجلی کی پوری قیمت حکومت ادا کرے گی اور یہ کمپنیاں فرنس آئل حکومت سے خریدیں گی۔ اگر حکومت معاہدہ ختم کرتی ہے تو نقصان حکومت کا ہی ہوگا کہ معاہدوں کا عالمی ضامن ناراض ہوگا۔ نگران کابینہ کے حلف اٹھانے کے ایک ہفتے بعد اسلام آباد میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے رہائشی نمائندے کا بیان کہ حکومت کو تمام سرکاری اداروں (SOEs) کو وزارتِ خزانہ کی نگرانی میں رکھنے کے اس کے عہد کو یاد رکھا جائے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ فنڈ کا موڈ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ میں منظور شدہ اور دستاویزی اقدامات پر کسی قسم کی چھوٹ کی اجازت نہ دینے کا ہے، اور وہ حکومت کو طے شدہ شرائط سے باہر نہیں نکلنے دے گا۔ اگر پاکستان نے معاہدے میں تسلیم کی ہوئی شرائط سے انحراف کیا تو اس کے نتائج بھی بھگتنا ہوںگے۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کے نمائندے کا یہ بیان کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت پارلیمنٹ کا صرف ایک ایوان سینیٹ ہی فعال ہے، لیکن یہ ایوان آئی ایم ایف معاہدے کی کس قدر مزاحمت کرسکتا ہے اس کا بھی خوب اندازہ ہے۔ دو سابق وزرائے خزانہ مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار نے مذاکرات کیے، ان میں مفتاح اسماعیل کا رویہ اسحاق ڈار سے مختلف تھا۔ مفتاح اسماعیل میں صلاحیت تھی کہ وہ معاملات کو سنبھال جاتے، لیکن اسحاق ڈار نے وزارت سنبھالتے ہی ایک نئی راہ لی، تاہم انہیں بھی خواری کا وہی راستہ اپنانا پڑا جس پر مفتاح اسماعیل چل رہے تھے۔ اسحاق ڈار کی وجہ سے آئی ایم ایف کڑی شرائط کے ساتھ معاہدہ کرنے پر آمادہ ہوا۔ نگران حکومت، خاص طور پر وزارتِ خزانہ کے پاس نومبر کے آخر تک سی ایم یو کے لیے بھرتی کے عمل کو نہ صرف مکمل کرنا، بلکہ واحد خزانے کو مکمل طور پر فعال کرنے کا ایک زیادہ مشکل کام بھی مکمل کرنا ہوگا۔ اکاؤنٹ اور نہ صرف عوام کو فائدہ مند ملکیت تک رسائی کی اجازت دینے کے لیے بلکہ چاروں صوبوں کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت میں دسمبر کے آخر تک ای پروکیورمنٹ سسٹم کو مکمل طور پر متعارف کرانا ہے۔ یہ ایسے اقدامات ہیں جن کے لیے وقت درکار ہوگا۔فی الحال، صرف SBA کی شرائط جو بغیر کسی رکاوٹ کے لاگو کی جا رہی ہیں وہ ایندھن کی بین الاقوامی قیمت میں اضافے کو منظور کرنے کے انتظامی اقدامات سے متعلق ہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ پی ڈی ایم حکومت کے مرحلہ وار مذاکرات کا جائزہ لیا جائے تو آج بجلی سمیت جو کچھ بھی مسائل ہیں اس کی وجہ اسحاق ڈار بھی ہیں اور نجی پاور پلانٹس کے معاہدے بھی۔ ملک میں نجی شعبے میں پاور پلانٹس کا خیال پہلی بار نوازشریف کے پہلے دور حکومت میں سامنے لایا گیا، تاہم بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں اسی خیال کو سامنے رکھ کر انرجی پالیسی بنائی گئی اور ملک میں تیل سے چلنے والے پاور پلانٹ لگائے گئے۔ اس پالیسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے کچھ کاروباری حضرات، کارخانہ داروں اور متعدد سیاست دانوں نے بھی ملک میں نجی پاور پلانٹ لگائے، مگر غیرملکی مالکان ہوں یا مقامی… ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ پاور پلانٹ کی اصل قیمت کیا ہے، لیکن معاہدے میں یہ لکھا گیا کہ پاور پلانٹ کی بجلی پیدا کرنے کی جو بھی صلاحیت معاہدے میں لکھی جائے گی اسی کے مطابق حکومت ان پلانٹس کو بجلی کی قیمت ادا کرنے کی پابند ہوگی، اور یہ پاور پلانٹ کبھی بھی معاہدے میں لکھی ہوئی بجلی پیدا کرنے کی اصل صلاحیت کے مطابق نہیں چلے، لیکن بجلی کی قیمت پوری کی پوری وصول کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بجلی کے گردشی قرضے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے، اور چونکہ معاہدوں میں ریاست پاکستان ضامن ہے لہٰذا صارفین کے لیے سیاسی جماعتوں کا احتجاج بھی ایک حد تک محدود رہے گا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بجلی کے بلوں پر شہریوں کا صبر جواب دے گیاہے اور وہ ملک بھر میں سراپا احتجاج ہیں۔ تاجر بھی احتجاج کررہے ہیں۔ راولپنڈی میں مری روڈ پر مظاہرین نے دھرنا دیا اور بجلی کے بل جلائے۔ پنجاب کے دیگر شہروں گوجرانوالہ اور ملتان میں مظاہرین نے گیپکو اور میپکو کا گھیرائو کیا۔ آزاد کشمیر میں لوگوں نے بل جمع کرانے سے انکار کردیا۔ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہرمیں احتجاج ہورہا ہے، حکومت اور مراعات یافتہ طبقے کو ابھی تک پوری طرح اندازہ نہیں ہوا کہ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کے لیے بجلی کے بل ناقابلِ برداشت ہوچکے ہیں۔ بہت کم ماہانہ آمدنی والے عوام ہی کے لیے نہیں بلکہ متوسط طبقے کے لیے بھی اس بارِ گراں سے نباہ ممکن نہیں رہا۔ عوام کو سیاسی مسائل کے حوالے سے سڑکوں پر لانے کی کوشش کی گئی مگر وہ سڑکوں پر نہیں آئے، اور اب یہ صورت حال ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کی کال کے بغیر لوگ اپنے طور پر گھروں سے نکل آئے ہیں۔ بڑے اور چھوٹے شہروں میں آئے روز بہت جذباتی مظاہرے ہورہے ہیں۔ کچھ لوگ پہلے سے چاہتے ہیں کہ انتشار کو ہوا دی جائے اور پاکستان جتنا غیر مستحکم ہوسکتا ہے، اسے کیا جائے۔ یہ کوشش اندرونی اور بیرونی حلقوں کی طرف سے کی جارہی ہے، مگر حکومت کو ابھی تک صورت حال کی سنگینی کا احساس نہیں، اور وہ عوام کی چیخ وپکار سے بے نیاز’’ہنی مون‘‘ سرگرمیوں میں مشغول ہے۔ یہ حکومت اور مراعات یافتہ طبقے کی بے حسی ہے۔ یہ طبقہ جانتا نہیں کہ عوام کو اگر جینے کی سہولت نہ دی گئی تو پھر یہ بھی چین سے نہیں رہ سکے گا اور عوام کا ریلہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔