یوں تو انسان خطا کا پتلا ہے، اس کا ہر اٹھنے والا قدم غلطی اور صحت کا احتمال رکھتا ہے۔ عربی زبان کی ایک کہاوت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ پہلا انسان سب سے پہلے بھولنے والا بھی تھا۔ گویا بھولنا اور غلطی کرنا انسان کی سرشت اور فطرت میں ہے، لیکن ایک فرد کی بعض غلطیاں سب کے پلے پڑ جایا کرتی ہیں اور انسانی تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ایسے افراد بڑے لوگ، یا قوموں کے لیڈر ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر حسن الامین ’’تاریخ کی نئی تعبیر و توضیح‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں: ’’تاریخ کا جبر یہ ہے کہ ایک بار رونما ہوجانے والا واقعہ پتھر پر لکیر بن جاتا ہے، پھر اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہ بھی تاریخ ہی کا کمال ہے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد کبھی نہ بدلنے والے حالات پر نگاہ ڈالیں تو ان کی کوئی نئی توضیح اور تعبیر سامنے آجاتی ہے۔ یہی تعبیر اور توضیح ہے جو مستقبل کے راستوں کا تعین کرتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ پلٹ کر تاریخ پر نگاہ ڈالنے کا عمل اتنا ضروری ہے جتنا سانس لینے کے لیے آکسیجن کا۔‘‘
مزید لکھتے ہیں ’’تاریخ کے مختلف زمانوں میں ڈاکٹر صاحب کی آبلہ پائی کئی اعتبار سے مفید ثابت ہوئی۔ اس کے نتیجے میں قوم کی اجتماعی یادداشت سے محو ہوجانے والے واقعات ہی سامنے نہیں آئے بلکہ ایک واقعہ اور بھی ہوا۔ کسی قوم کی زندگی میں رونما ہونے والے تاریخی واقعات اسے فخر کے غرور اور صدمات سے ہی دوچار نہیں کرتے بلکہ نئے ہیرو اور ولن بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان تحقیقی مضامین میں کہیں کہیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کے ہیرو اور ولن اپنی جگہ بدل رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر فاروق عادل ’’ماجرا‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں: ’’یہ بس ایک اتفاق ہی تھا کہ یہ مضامین میں نے لکھے۔ اصل میں بی بی سی کی خواہش تھی کہ پاکستان کی تاریخ کے کچھ گوشوں کو ازسرنو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ میں جب اس میدان میں اترا تو سچ جانیے کہ حیرت کے پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ میں حیرت زدہ ہوا ضرور، لیکن جیسے جیسے حیرت بڑھتی گئی، قلم محتاط ہوتا گیا۔ ادارہ چاہتا تھا کہ کوئی بات بے حوالہ نہ لکھی جائے۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ اصول متاثر ہوگیا تو گویا میرا عقیدہ میرے ہاتھ سے نکل گیا۔ یوں یہ مضامین محض پیشہ ورانہ سرگرمی نہ رہے، وارداتِ قلبی میں بدل گئے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا! اس کہانی کی ابتدا ایک ایسے سوال سے ہوئی تھی جس نے مجھے دہائیوں تک پریشان کیے رکھا۔ ان مضامین نے مجھے صرف اس سوال کا جواب نہیں دیا اور بھی بہت سے راز کھول دیئے۔ اس دیس کی کہانی صرف کہانی ہی نہ رہی، ماجرا بن گئی۔ ’’ہم نے جو بھلا دیا‘‘ میں بتیس عنوانات کے تحت واقعات کو درج کیا گیا ہے:
(1) کشمیر کے وہ چار دن، (2) واشنگٹن براستہ ماسکو، (3) سندھی مہاجر کش مکش کی پہلی اینٹ، (4) آٹے کا گھاٹا، (5) پرواز میں کوتاہی، (6) انصاف کا قتل، (7) ون یونٹ اور یونٹی، (8) تازہ ہوا کا در، گوادر، (9) لہولہان ایوان، (10) پہلی جلاوطنی، (11) بس اتنی سی بدعنوانی، (12) کیا یہ کشمیر کا درد تھا؟، (13) تاشقند کی بلی، (14) پہلا یومِ دفاع، (15) عشرۂ ترقی سے چینی چوری تک، (16) بے گناہ خون کا انتقام، (17) ان کہی ہی رہ گئی جو بات، (18) جب ٹوٹ گیا سلسلۂ تکلم، (19) تحریک ِآزادی یا بغاوت، (20) حیدرآباد کے اسیر، (21) لٹنا سجی سجائی دکان کا، (22) انتشار میں مخفی پھندا، (23) فوج آتی ہے تو آنے دو، (24) تلاوت ہوئی کہ نہیں ہوئی، (25) ناکام تحریک کی کامیابی، (26) اعتماد کا ووٹ، (27) تنہا سپاہی کی جنگ، (28) ایوانِ اقتدار میں لینڈنگ، (29) ضلعی انتظامیہ کا قتل، (30) مہنگائی کا راز، 31))22 نہیں 31 خاندان، (32) یہ توہم کا کارخانہ ہے
کتاب بہت ہی محنت اور لگن کے ساتھ لکھی گئی ہے جس پر فاروق عادل صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ کرے اسی طرح وہ لکھتے رہیں اور لوگ ان سے بھرپور استفادہ کرتے رہیں۔
کتاب ڈسٹ کور کے ساتھ بہترین شائع کی گئی ہے۔ قیمت بھی مناسب ہے۔ تمام معاملات کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔