وطنِ عزیز میں ایک عام متاثرہ فرد کے لیے عملاً انصاف کا حصول ایک طرح سے ناممکن ہوچکا ہے
اہلِ وطن کو مسائل و مصائب اور گوناگوں تکالیف میں مبتلا رہ کر زندگی بسر کرتے ہوئے دیکھ کر نامور ادیب اور دانش ور مستنصر حسین تارڑ سے مبینہ طور پر منسوب کردہ یہ قول حقیقت پر مبنی محسوس ہونے لگتا ہے کہ ’’کیا پتا قیامت گزر چکی ہو اور ہم جہنم میں رہ رہے ہوں!‘‘
ملک میں آئے دن ظلم و سفاکی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ہم اس جدید سائنسی اور ترقی یافتہ دور میں بھی دراصل دورِ وحشت میں زندہ ہیں جہاں پر عملاً جنگل کے قوانین رائج ہیں اور ہر طاقت ور کو بالادستی حاصل ہے۔ جہاں کسی کمزور، بے بس اور مظلوم کی پکار پر توجہ دینے کی کسی حکومتی ادارے کو فرصت ہے اور نہ ہی کسی نوع کی کوئی دل چسپی۔ وطنِ عزیز میں ایک عام متاثرہ فرد کے لیے عملاً انصاف کا حصول ایک طرح سے ناممکن ہوچکا ہے۔ بروز جمعرات 17 اگست 2023ء کو تمام اردو، انگریزی اور سندھی اخبارات میں یہ الم ناک اور دل گرفتہ خبر نمایاں انداز میں صفحہ اوّل پر چھپی اور بذریعہ نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر بھی سامنے آئی کہ ضلع خیرپورمیرس کی تحصیل رانی پور میں علاقے کے ایک بااثر ترین شخص پیر اسداللہ شاہ ولد خیر اللہ شاہ کی حویلی میں گزشتہ 9 ماہ سے کام کرنے والی کمسن اور معصوم دس سالہ فاطمہ دختر ندیم تھرڑو کی بہیمانہ انداز میں تشدد زدہ لاش مذکورہ پیر کی حویلی کے ایک کمرے سے برآمد ہوئی ہے۔ اس دوران سوشل میڈیا پر معصوم بچی کے درد و کرب سے تڑپنے اور اس پر کیے گئے تشدد پر مبنی ویڈیو بھی منظرعام پر آکر وائرل ہوگئی۔ تمام تر معاملہ جنگل کی آگ کی طرح سندھ بھر میں پھیل جانے سے ہر طرف اضطراب اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی، جس پر ایس ایس پی خیرپورمیرس روحیل کھوسو اور ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی نے سارے معاملے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اے ایس پی گمبٹ نعمان ظفر کو تفتیشی افسر مقرر کیا۔
ابتدائی تحقیق سے معلوم ہوا کہ معصوم اور کم سن بچی فاطمہ کو اس کی موت کے بعد بغیر پوسٹ مارٹم کیے انتہائی عجلت میں دفنا دیا گیا۔ مبینہ مقتولہ بچی فاطمہ کے خوف زدہ اور بے حد ڈرے سہمے والدین نے ابتدائی طور پر اپنا یہ مؤقف پیش کیا کہ ہم بے حد غریب لوگ ہیں، اپنی بیٹی کو ہم نے 9 ماہ قبل پیراسداللہ شاہ کی حویلی میں بہ غرضِ ملازمت بھیجا تھا، اس پر کوئی تشدد وغیرہ نہیں ہوا بلکہ وہ عرصہ تین دن سے بیمار تھی، حویلی سے فون آیا کہ تمہاری بیمار بیٹی کی موت واقع ہوگئی ہے، آکر اس کی میت لے جائو۔ ہم اپنی بیٹی کو لے آئے اور غسل اور نماز جنازہ کے بعد اس کی مقامی قبرستان میں تدفین کردی۔
بچی فاطمہ کی چند منٹ پر مبنی ویڈیو نے سارے سندھ کے لوگوں کو بے حد مغموم، اداس اور صدمے کی کیفیت سے دوچار کردیا جس میں دس سالہ معصوم فاطمہ کو ایک ایسے بڑے سے کمرے میں جہاں پر بہت بڑے سائز کے اسپیکر نصب تھے اور کمرے میں ممکنہ طور پر شراب کی بوتلیں بھی پڑی ہوئی تھیں، زمین پر بچھے ہوئے گدے پر نیم برہنہ حالت میں معصوم بچی فاطمہ کو درد و کرب، اذیت اور تکلیف سے دوچار تڑپتے اور بلکتے ہوئے دکھایا گیا تھا، جو بعدازاں تڑپ تڑپ کر اپنی جان، جانِ آفریں کو سونپ دیتی ہے، جس کے بعد ایک ملازمہ کمرے میں داخل ہوتی ہے اور ایک خاتون بھی جو مبینہ طور پر واقعے کے اصل اور مرکزی ملزم پیر اسد اللہ شاہ کی اہلیہ حنا شاہ ہے، خاتون جاں بحق ہونے والی معصوم بچی فاطمہ سے تھوڑی دور واقع پلنگ پر سوئے ہوئے اپنے شوہر پیر اسد اللہ کو جگاتی ہے، اور وہ تیزی کے ساتھ اپنے بستر سے اترتا ہے۔ فرشتہ صفت، پھولوں کی طرح معصوم اور کم سن بچی فاطمہ کی ابھی عمر ہی کیا تھی؟ صرف اور صرف دس برس۔ یہ تو اُس کے اپنی طرح کی کم سن سہیلیوں، کھلونوں اور گڑیا کے ساتھ کھیلنے کے دن تھے… یہ تو ابھی اُس کے اسکول جاکر پڑھنے، اپنے والدین کے ساتھ گھر میں رہ کر اُن سے اپنے ناز نخرے اٹھوانے اور اپنے دیگر چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ معصومانہ شرارتیں کرنے، ان سے بے ضرر لڑائیاں لڑ کر روٹھ جانے اور پھر آپس میں ایک دوسرے کو منانے کی عمر تھی۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ معصوم کلی فاطمہ کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اور حویلی میں روا رکھے اپنے ساتھ مبینہ مظالم اور تشدد کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ گئی۔
10 برس کی عمر میں وہ حویلی میں گھنٹوں پر محیط مشقت پر مبنی کام کیا کرتی تھی۔ اس کی ماں خیراں کے مطابق 9 ماہ میں اسے صرف ایک بار بچی سے ملنے کی اجازت دی گئی اور وہ بھی صرف تھوڑی دیر کے لیے۔ بعدازاں بچی کی والدہ نے اپنے سابقہ مؤقف سے روگردانی کرتے ہوئے یہ مؤقف بھی پیش کیا کہ اس نے اپنی بیٹی کو آخری غسل خود دیا تھا۔ اس کی مرحومہ بیٹی کے جسم پر جا بجا تشدد اور زخموں کے نشانات تھے۔ ایک بازو بھی بہ قول اُس کے ٹوٹا ہوا تھا۔ تاہم اس نے پہلے یہ بات صرف اس لیے چھپائے رکھی کہ اس کی مزید دو بیٹیاں پیر صاحب کی حویلی میں تھیں، اگر وہ سچ بتاتی تو ان کی جاں بھی خطرے میں پڑ جاتی۔
ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی بے حد قلیل معاوضے پر اہلِ ثروت، جاگیرداروں، پیروں، میروں، سرداروں اور بھوتاروں کی حویلیوں اور بڑے بڑے محلات نما گھروں میں معصوم فاطمہ ہی کی طرح ہزاروں بچیاں اپنی پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کودنے کی عمر میں مشقت پر مبنی کام کرتی ہیں اور بے حد اذیت ناک زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ نامعلوم کتنی معصوم اور کم سن بچیاں اور بچے مذکورہ حویلیوں اور گھروں میں ان بااثر شخصیات کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد اور ظلم و زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ اتفاقاً جب فاطمہ جیسی کسی معصوم بچی کا معاملہ منظرعام پر آتا ہے تو وقتی طور پر ہمارا سارا ملک اور معاشرہ ہل سا جاتا ہے، دل دہل جاتے ہیں اوراعصاب پر بھی لرزش طاری ہوجاتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سارا معاملہ دب جاتا ہے اور ظلم و زیادتی میں ملوث بااثر ملزمان بھی ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں۔ سندھ کی حویلیوں میں پیروں، میروں اور بھوتاروں کے ہاں کام کرنے والی معصوم بچیاں اور بچے ایک طرح سے ان کے زرخرید غلام ہوتے ہیں جن پر ہر طرح کا ظلم جائز سمجھا جاتا ہے۔ بچوں کے والدین بھی سب کچھ جاننے کے باوجود خاموش رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔انہیں بہ خوبی علم ہوتا ہے کہ اگر وہ قانون کا دروازہ کھٹکھٹائیںگے تو ان کی دادرسی نہیں ہوسکے گی۔
مقتولہ بچی فاطمہ کی کزن اجالا نے اخبارات اور میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ وہ دو برس تک پیر اسداللہ شاہ کی حویلی میں کام کرتی رہی جہاں فاطمہ سمیت تمام بچیوں اور بچوں کو وائپرز سے مارا جاتا تھا، انہیں بھوکا پیاسا رکھا جاتا تھا اور زبردستی فنائل پلایا جاتا تھا۔ اس لیے وہ موقع پا کر حویلی سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئی۔
جیے سندھ تحریک کے بانی جی ایم سید مرحوم کے مطابق ’’سندھ کے کسی پیر کے پاس کسی قسم کی کوئی کرامت ہرگز نہیں، اس لیے کوئی بھی ان کے جھانسے میں نہ آئے۔ یہ پیری مریدی کا کام تو کھانے کمانے کا ایک دھندہ ہے اور بس۔‘‘
معروف ڈراما نگار اور ادیبہ ڈاکٹر نورالہدیٰ شاہ نے پہلی مرتبہ پیروں کی حویلیوں میں رونما ہونے والے واقعات اور وہاں کام کرنے والے خدمت گاروں کے ساتھ روا مظالم کو اپنی کہانیوں کو موضوع بنایا۔ ان کے ایسے افسانوں اور کہانیوں کو اس لیے انقلابی قرار دیا گیا کہ قبل ازیں کسی نے بھی اس موضوع کو چھیڑنے کی جسارت نہیںکی تھی۔ سندھ کے پیروں نے اسی سبب انہیں برادری سے خارج کردیا تھا۔ بعدازاں معروف ادیب مانک ملاح نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’حویلی جا راز‘‘ میں ایسے بہت سے کرداروں کو بے نقاب کیا جو کسی نہ کسی طور سے معصوم مقتولہ بچی فاطمہ کے حالیہ کیس سے بے حد مماثلت اور مشابہت رکھتے ہیں۔
مذکورہ سانحے کا مرکزی ملزم پیر اسداللہ شاہ معروف درگاہ رانی پور سے وابستہ رکن قوی اسمبلی سید فضل شاہ کا بھتیجا ہے۔ پیر موصوف پولیس ریمانڈ پر اور ان کی اہلیہ حفاظتی ضمانت پر ہیں۔ اگر فاطمہ کے سانحے سے قبل رونما ہونے والے واقعات کو حکومت سنجیدگی سے لیتی اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دیتی تو شاید دوبارہ ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہوپاتا، لیکن وطنِ عزیز کا قانون اور ہماری ریاست بااثر ملزمان کے سامنے ہمیشہ کچھ بھی نہیں کرسکے ہیں۔ جب تک ظلم و سفاکی میں ملوث افراد کو عبرت ناک سزائیں نہیں دی جائیں گی اس نوع کے المیے جنم لیتے رہیں گے۔
اہلِ سندھ سوگوار اور شدید غم و غصے سے دوچار ہیں۔ انہیںیہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ مبادا ناظم جوکھیو اور پیر جو گوٹھ کی مونیکا لاڑک کے بااثر قاتلوں کی طرح معصوم فاطمہ کے مبینہ گرفتار قاتل بھی رہا نہ ہوجائیں۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی 22 اگست کو مقتولہ فاطمہ کے والدین سے اظہارِ تعزیت کرنے، قاتلوں کو گرفتار کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرنے اور ایک بڑی ریلی کی قیادت اور ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرنے رانی پور تشریف لائیں گے۔ امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی نے بھی اس سانحے کی سخت الفاظ میں مذمت اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ قمبر شہداد کوٹ سے تعلق رکھنے والے معصوم 12 سالہ لڑکی ثنا گرامانی کے والدین نے بھی بذریعہ پریس کانفرنس حکومت سے اپیل کی ہے کہ ان کی بیٹی پیر اسداللہ شاہ کی حویلی میں کام کیا کرتی تھی جہاں سے دو سال پہلے وہ لاپتا ہوگئی اور پیر صاحب نے اس کے بعد اس بارے میں ان کے ساتھ کوئی رابطہ کرنے یا معلومات دینے سے منع کردیا تھا، ان کی بیٹی کو بھی بازیاب کروایا جائے۔
دریں اثنا گزشتہ روز فاطمہ کی قبر کشائی کے بعد میڈیکل بورڈ کی ابتدائی رپورٹ میں معصوم مقتولہ بچی کے ساتھ بدفعلی اور بدترین تشدد کی تصدیق کردی گئی ہے۔ بچی کے پورے جسم پر بہیمانہ اور ظالمانہ تشدد کے واضح نشانات پائے گئے ہیں۔ ڈی آئی جی سکھر ڈویژن جاوید جسکانی کے مطابق گرفتار ملزم پیر اسد اللہ شاہ سمیت حویلی میں موجود تمام مردوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے گا تاکہ اصل ملزمان کو قرار واقعی سزا دلائی جاسکے۔ غلط اور گمراہ کن رپورٹس دینے کی پاداش میں ڈاکٹر علی حسن وسان اور ایس ایچ او میر چانگ کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ معصوم بچی فاطمہ کے قاتلوں کو عبرت ناک سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی اور فاطمہ قتل نہ ہوسکے۔ سندھ بھر میں تادمِ تحریر ملزمان کو سزا دلانے کے لیے پُرزور احتجاج کا سلسلہ ہرسطح پر پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔