سانحۂ جڑا نوالہ:پورا پاکستان غم زدہ

کیا اس سانحے کے ذمے دار ملک دشمن غیر ملکی قوتوں کے آلۂ کار ہیں؟

جڑانوالہ کے دل خراش واقعات ابتدائی تحقیقات میں ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ قرار دیئے گئے ہیں جس میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ملوث ہونے کا امکان بھی رد نہیں کیا گیا، جس کے گماشتوں نے نواحی علاقوں کے چند لوگوں کو گمراہ کیا اور انہیں جڑانوالہ پہنچا کر کچھ مقامی افراد کو بھی مسیحی برادری کے گرجا گھروں اور املاک پر حملوں کے لیے اکسایا۔ مسیحی برادری کے متاثرہ گھرانوں کے اکثر افراد نے مسلمان ہمسایوں کے گھروں میں پناہ لی، جنہوں نے خود کو خطرے میں ڈال کر اُن کی حفاظت کی۔ بے شک حرمتِ قرآن اور رسولؐ کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے جس کے لیے وہ اپنی جان نچھاور کرنا بھی سعادت سمجھتا ہے۔ شعائرِ اسلامی کے تقدس و تحفظ کے لیے مسلمانوں کے اس بے پایاں جذبے کو اسلام دشمن قوتوں نے ان کی کمزوری بنانے کی کوشش کی اور امن و آشتی کے ضامن دینِ اسلام پر انتہا پسندی کا لیبل لگانے میں مصروف ہوگئیں۔ آج الحادی قوتوں کا یہ ایجنڈا زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آرہا ہے اور توہینِ قرآن و مذہب کے سوقیانہ واقعات کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات مشتعل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چنانچہ غالب امکان یہی ہے کہ جڑانوالہ کا واقعہ بھی اسلام دشمن عناصر کی انہی گھنائونی سازشوں کے سلسلے کی کڑی ہے، جس کا مقصد پورے ملک میں اقلیتوں کے خلاف مسلمانوں کو اشتعال دلاکر ملک کا امن برباد کرنا ہوسکتا ہے۔ یقیناً ہماری اقلیتیں بھی اس ارضِ وطن کا حصہ ہیں جو ملک کی ترقی و سلامتی کے لیے ویسے ہی جذبے سے معمور و سرشار ہیں جو مسلمان شہریوں کے دلوں میں ہے۔ اس تناظر میں اقلیتوں کے بارے میں بھی یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے اور ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوئی دانستہ کوشش کریں گی یا کسی سازش کا حصہ بنیں گی۔ لازمی طور پر یہ ملک کے بدخواہ عناصر کا ہی ذہنی خلجان ہوتا ہے، یا وہ ملک کی دشمن بیرونی قوتوں کے آلۂ کار بنتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہجوم کے ہاتھوں سیالکوٹ میں ایک سری لنکن باشندے کے قتل کے واقعے سمیت اب تک ملک میں جتنے بھی ایسے افسوس ناک واقعات رونما ہوئے ہیں ان کے پس منظر میں مسلمانوں کے جذبات مشتعل کرکے ملک کو بدامنی کی جانب دھکیلنے کی گھنائونی سازشوں کا ہی عمل دخل نظر آیا ہے۔ جڑانوالہ کے واقعے میں ہماری بے گناہ اقلیتی برادری کو جو نقصانات اٹھانا پڑے، اس کا فوری ازالہ بھی ضروری ہے، اور ان کے تحفظ کے لیے بھی ضروری اقدامات فوری طور پر کیے جانے چاہئیں، کیونکہ پاکستان کی سلامتی کے درپے عناصر کو ایسے واقعات کے باعث ہی ملک میں اقلیتوں کے غیرمحفوظ ہونے کا زہریلا پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملتا ہے۔

قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی پر وقوع پذیر ہونے والے افسوس ناک واقعات کی حکومت اور پوری قوم نے شدید مذمت کی ہے۔ کاش ایسا ہی ردعمل حکومت کا اُس وقت بھی سامنے آتا جب سویڈن میں یا دنیا کے کسی دوسرے مغربی ملک میں ایسا واقعہ پیش آتا ہے۔ اُس وقت تو قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی قرارداد دفتر خارجہ کے ’’ماہرسفارت کاروں‘‘ کی رضامندی سے تیار کی جاتی ہے کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ اس واقعے کی مذمت اپنی جگہ پر، تاہم یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس میں امریکیوں اور مغربی قوتوں کی باریک واردات اور منصوبہ بندی کا کس حد تک عمل دخل ہے۔

جڑانوالہ واقعے پر ملک کے جید علماء کے ایک وفد نے لاہور کے ایک چرچ میں جاکر بشپ اور مسیحی برادری سے اس ناروا عمل کی معافی مانگی، آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے آئی ایس پی آر کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسے انتہائی افسوس ناک اور ناقابلِ برداشت قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کے تمام شہری مذہب، جنس، ذات اور عقیدے کی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کے برابر ہیں، اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت کی کوئی گنجائش نہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ دفتر خارجہ نے مسیحی برادری کی عبادت گاہوں اور گھروں پر حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ ان واقعات میں ملوث کسی کو بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ واقعات کے ذمہ دار34 افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی اور ضابطہ فوجداری کے تحت مقدمات درج کرلیے گئے ہیں جبکہ سوا سو سے زائد افراد زیر حراست ہیں۔ حملہ آوروں نے مسیحی برادری کو ہی نشانہ نہیں بنایا بلکہ سرکاری عمارات کو بھی آگ لگائی جن میں اسسٹنٹ کمشنر کا گھر بھی شامل ہے۔

جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا اس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی طور پر یہ معاشرے کا سب سے تشویش ناک پہلو ہے کہ یہاں قانون کو ہاتھ میں لینا بہادری سمجھا جاتا ہے۔ ملک میں قانون توڑنا اور ملکی قوانین کو پائوں تلے روندنا قوانین پر عمل درآمد سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ بالخصوص جب کوئی بپھرا ہوا گروہ ہو تو وہاں ایسی صورتِ حال اور بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ ملک میں ایسا واقعہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ ماضی میں بھی ایسے افسوسناک واقعات رونما ہوچکے ہیں چونکہ ہم نہ تو غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں نہ ہی ہمارے نزدیک کسی دوسرے کی کوئی اہمیت یا حیثیت ہے، اور اس معاملے میں مذہبی تقسیم کوئی خاص یا بنیادی وجہ نہیں ہے بلکہ ہم اجتماعی طور پر ہی اس بری سوچ کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص دوسرے کو کم تر سمجھتا ہے۔ چونکہ ہر وقت دوسروں کو کمتر سمجھنا اور نشانہ بنانا عادت بن چکی ہے اس لیے جب کبھی چند سر پھرے کچھ ایسا حساس اور جذبات بھڑکانے والا کام دیکھتے یا کرتے ہیں تو پھر وہ پہلے سے ہی گرم مزاج افراد کے جذبات کو ابھارتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اندرونی طور پر بدامنی کے خدشات بھی پیدا ہوتے ہیں، ملک میں امن و امان کو خطرات لاحق ہوتے ہیں اور بیرونی طور پر پاکستان کو دبائو کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ بھارت میں ہندوئوں کے سوا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو مکمل طور پر مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے لیکن وہاں ہونے والے افسوسناک واقعات پر دنیا کم ہی ردعمل دیتی ہے، جبکہ پاکستان میں ایسا کوئی بھی افسوس ناک واقعہ ہو تو عالمی طاقتیں فوراً بیانات جاری کرتی ہیں جڑانوالہ میں ہونے والا واقعہ ملک یا معاشرے کی حیثیت سے پاکستان کی عکاسی ہرگز نہیں کرتا لیکن پھر بھی پاکستان کو نشانے پر رکھنے والے ممالک فوری طور پر ردعمل دیتے ہیں۔

پُرتشدد واقعات کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق مسیحی برادری کے 86 مکان اور 19 چرچ توڑے اور جلا دیے گئے۔تحصیل دار جڑانوالہ نے دو دن قبل مسیحی برادری کی عبادت گاہوں اور مکانوں پر مشتعل ہجوم کے حملوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی تفصیلی رپورٹ حکومت پنجاب کو جمع کرا دی۔کرسچن کالونی میں دو چرچ اور 29 مکانات کو توڑ پھوڑ کے بعد جلایا گیا۔ عیسیٰ نگری میں تین چرچ جلائے گئے جبکہ 40 مکانوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ چک 240 گ ب میں دو چرچ جلائے گئے جبکہ 12 مکانات کو نقصان پہنچایا گیا۔ چک 238 گ ب میں دو چرچوں اور پانچ مکانات کو جلایا گیا۔اسی طرح چک 126 گ ب میں چار چرچ، محلہ فاروق پارک اور مہاراں والا میں دو، دو چرچ جلائے گئے، جب کہ محلہ کیمپ اور ٹیلی فون ایکسچینج کے قریب ایک ایک چرچ کو جلایا گیا۔تحصیل دار نے اپنی ٹیم کے ہمراہ خود جا کر متاثرہ علاقوں کا جائزہ لیا اور اعداد و شمار جمع کیے۔ فیصل آباد انتظامیہ کی تین رکنی کمیٹی لوگوں کے سامان اور قیمتی اشیا کے نقصان کا تخمینہ لگا کر رپورٹ تیار کرے گی۔ ادھر وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اعلان کیا ہے کہ حکومت 16 اگست کو جڑانوالہ میں ہونے والے پر تشدد واقعات میں ہونے والے نقصان کا ازالہ کرے گی،جن دو افراد راجا عامر اور رکی مسیح پر توہینِ مذہب کا الزام لگا اور اس کے نتیجے میں پرتشدد واقعات پیش آئے فیصل آباد پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا ہے جب کہ جلاؤ گھراؤ اور توڑ پھوڑ میں ملوث 145 افراد بھی گرفتار ہیں۔فیصل آباد پولیس کے ترجمان نوید احمد نے بتایا کہ گرفتار 125 ملزموں کا انسداد دہشت گردی عدالت فیصل آباد سے دو روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا جا چکا ہے۔ لاؤڈ سپیکر پر اعلانات کرنے والا ملزم بھی گرفتار ہے۔ پولیس نے اس واقعے کی کُل پانچ ایف آئی آر درج کی ہیں جن میں پانچ سے چھ سو ملزموں کے خلاف مختلف دفعات کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا اس سے پاکستان اور اسلام کو زخم لگا۔ پورا پاکستان غمزدہ ہے، جن لوگوں نے یہ عمل کیا ان سے سوال ہے کہ کس کو خوش کرنے کے لیے یہ سب کیا؟ تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں، سول سوسائٹی اور اداروں کو ملک میں ہر قسم کی شدت پسندی کو ختم کرنے کے لیے مضبوط حکمت عملی بناتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے جڑانوالہ میں توہینِ قرآن کے الزام میں مسیحی برادری کے گھروں اور گرجا گھروں پر حملوں اور املاک نذرِ آتش کیے جانے کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے بیان میں اْن کا کہنا تھا کہ فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے مناظر نے اْنہیں دہلا کر رکھ دیا ہے، اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔اْنہوں نے تمام پاکستانیوں کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ حکومت برابری کی بنیاد پر اپنے شہریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے بین المذاہب ہم آہنگی سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ جڑانوالہ جیسے واقعات کی نہ اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی پاکستان میں اِس کی کوئی گنجائش ہے،آئندہ تین سے چار روز کے اندر اندر تمام تر نقصان کا ازالہ کیا جائے گا۔ جبکہ تمام املاک کو بھی اِس واقعے سے پہلے کی حالت کے مطابق دوبارہ تعمیر کیا جائے گااسلامی نظریاتی کونسل نے سانحہ جڑانوالہ میں ملوث افراد کو سزا دینے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے جڑانوالہ واقعے پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہوا اْس کی مذہب،رائج ملکی قانون اور معاشرتی اقدار میں کوئی جگہ نہیں،اسلام تمام مذاہب کی عبادت گاہوں اور مذہبی شعائر کے احترام کا درس دیتا ہے۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ اِن واقعات میں ملوث تمام شرپسندوں کے خلاف بلاتفریق قانونی کارروائی کی جائے، جن گھروں اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچا ہے اْن کی فوری بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں جبکہ لوگوں کی نجی املاک کو پہنچنے والے نقصان کا بھی ازالہ کیا جائے۔ اْن کا مزید کہنا تھا کہ ایسے واقعات کے سد ِباب کے لیے ضروری ہے کہ ملوث مجرموں کو سخت ترین سزا دی جائے، خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں جو دن رات سماعت کر کے اِن جرائم پر اُکسانے والوں، اِس کے منصوبہ سازوں اور مساجد سے اعلانات کرنے والوں کو سزائیں دیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر طبقہ ہائے فکر نے سانحہ جڑانوالہ کی نہ صرف سخت الفاظ میں مذمت کی ہے بلکہ سب ہی کا مؤقف ہے کہ ایسے واقعات کی پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں، سب ہی نے اِس واقعے میں ملوث ہر شخص کو سخت سے سخت سزا دیے جانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

جڑانوالہ واقعے کے فوراً بعد امریکہ نے چرچ اور مسیحیوں پر ہونے والے حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ تشدد کسی بھی صورت میں قابل ِ قبول نہیں، امریکہ پُراَمن آزادیِ اظہار اور ہر ایک کے لیے مذہب اور عقیدے کی آزادی کے حق کی بات کرتا ہے جبکہ مذہبی تشدد کے واقعات پر ہمیشہ فکر مند رہتا ہے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ تشدد یا تشدد کی دھمکی کبھی بھی اظہارِ رائے کی قابل ِ قبول شکل نہیں، پاکستانی حکام واقعے کی مکمل تحقیقات کریں۔ امریکہ اور دیگر ممالک کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات اور مطالبات کے پیش ِ نظر ترجمان دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ پورے ملک کے عوام مسیحی برادری سے سلوک پر دُکھی ہیں، جڑانوالہ میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے میں ملوث افراد کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔