سیاسی و معاشی بحران یا ریاستی بحران

سیاسی کھیل سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل گیا

پاکستان کی سیاست ایک بڑے ٹکرائو، محاذ آرائی اور ہنگامہ خیزی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ یہ مسائل آج کے پیدا کردہ نہیں لیکن سبھی سیاسی اور غیر سیاسی فریقوں نے ان مسائل کے بڑھنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری مجموعی کارکردگی مسائل کو کم کرنے یا ختم کرنے کے بجائے ان میں مزید اضافہ کرنے سے جڑی ہوئی ہے۔ شہبازشریف نے چند دن قبل اپنی حکومت کی مدت پوری کی ہے اور اس کے نتیجے میں جو نگران حکومت آئی ہے اُس نے قومی مسائل کی پہلے سے موجود شدت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اس وقت مجموعی طور پر ہماری ریاست، اور ریاست سے منسلک تمام فریق ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور ایک دوسرے کو شکست دے کر جائز یا ناجائز طریقے سے برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہر فریق یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہی طاقت کا بڑا مرکز ہے اور جو کچھ ہوگا اسی کے اشارے پر ہوگا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت، حزبِ اختلاف، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا… کسی نے بھی ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا، یہی وجہ ہے کہ مزید مسائل جنم لے رہے ہیں اور ہم مسلسل بڑے بحرانوں کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ یا عمران خان کے سیاسی مخالفین جو سیاست اورمیڈیا دونوں محاذوں پر ہیں، وہ عمران خان کو سبق سکھانا اور ان کو عبرت کا نشان بنانا چاہتے ہیں۔ یہ کھیل بڑی شدت سے جاری ہے، اور اس کے مستقبل میں کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں اس کا اندازہ کسی بھی سیاسی یا غیرسیاسی فریق کو نہیں ہے۔ کیونکہ جب بھی کسی فریق پر جذبات کی سیاست کا غلبہ ہو اور اس میں بدلہ یا انتقام کی عملی سیاست غالب ہو تو اس کے نتیجے میں معاملات میں بگاڑ زیادہ ہوتا ہے۔ عمران خان کی جماعت کس حد تک دیوار سے لگی ہے یا اُن کی مقبولیت کس حد تک قصۂ پارینہ بن چکی ہے اس کا ایک جواب تو حکمران طبقات میں انتخابات کے خوف سے ظاہرہے۔ کہیں عمران خان انتخابات کی صورت میں غالب نہ ہوجائے اسی وجہ سے انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔ انتخابات سے فرار کا یہ راستہ کیانتائج قومی سیاست کو دے گا یہ ایک الگ بحث ہے۔کیونکہ ایک طرف انتخابات نہ کروانے کی ضد اور دوسری طرف انتخابات کروانے کی صورت میں اپنی مرضی کے سیاسی نتائج حاصل کرنے کی خواہش نے پورے سیاسی نظام کو ہی یرغمال بنالیا ہے۔ پہلے ایک سیاسی فریق کا عملًا سیاسی بندوبست، اور پھر انتخابات کا راستہ ظاہر کرتا ہے کہ شفاف انتخابات کی بحث بہت پیچھے رہ گئی ہے، اوراس کے نتیجے میں جو سیاسی بحران پیدا ہوگا اس سے نمٹنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ ماضی کے تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ سیاسی تجربات، سیاسی طاقت کے کھیل اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی خواہش نے سیاسی نظام کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب ملک میں عملی طور پر ایک غیر سیاسی نظام مسلط ہے۔ نگران، جن کا کام بنیادی طور پر 90روز میں انتخابات کے عمل کو یقینی بنانا تھا وہ اب ایک لمبے عرصے کے لیے عبوری نظام کا حصہ بننے جارہے ہیں۔ انتخابات میں تاخیر کا جواز بھی سابقہ حکمرانوں نے پیدا کیا ہے جو جاتے جاتے مشترکہ مفادات کونسل کی مدد سے یہ طے کرگئے کہ انتخابات نئی مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر ہوں گے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ سابقہ حکمرانوں کو انتخابات سے خوف ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ نومبر میں اگر انتخابات ہوتے ہیں تو اُن کو نقصان ہوگا اور پی ٹی آئی سیاسی میدان میں اس کا فائدہ اٹھاسکتی ہے، اور اسی بنیاد پر بہت سوچ سمجھ کر شہباز حکومت نے انتخابات کو التوا میں ڈالا ہے اور الیکشن کمیشن کے لیے عملی طور پر سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔اس لیے اگر انتخابات بروقت نہیں ہورہے تو اس کا ذمہ دار محض الیکشن کمیشن نہیں بلکہ طاقت کے مراکز سمیت سابقہ شہباز حکومت بھی ہے۔

دوسری طرف نیا بحران صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی اس ٹویٹ سے پیدا ہوا ہے جس میں انہوں نے اعلان کیاکہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے۔جبکہ اس کے برعکس نگران حکومت کا مؤقف ہے کہ صدرِ مملکت نے کیونکہ دونوں بل ہی واپس نہیں بھیجے تو ایسی صور ت میں قانون بننا فطری بھی تھا اورآئینی بھی۔جبکہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے بقول وہ ان دونوں قوانین سے متفق نہیں تھے اوراپنے عملے سے کہا تھا کہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کردیںتاکہ ان کو غیر مؤثر بنایا جاسکے۔ جبکہ ان کے بقول ’’میرا عملہ میری مرضی اورمیرے حکم کے خلاف گیا،حالانکہ عملے کی طرف سے یقین دلایا گیا تھا کہ بل واپس بھیج دیے گئے ہیں‘‘۔ اب صدرِ مملکت اس مسئلے پر چیف جسٹس کو خط لکھنے کا عندیہ دے رہے ہیں اورایک شہری کی طرف سے اس مسئلے پر درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی ہے۔ صدرِ مملکت کے پرنسپل سیکرٹری وقار احمد نے اپنی برطرفی کو غلط قرار دیا ہے اوران کے بقول ’’صدرِ مملکت اس معاملے پر غلط بیانی کررہے ہیں، اور میں ہر طرح کی تحقیقات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔ پرنسپل سیکریٹری کے مؤقف کے بعد صدر پر دبائو بڑھ گیا ہے کہ وہ کیسے اپنے مؤقف کو درست ثابت کریں گے۔ جبکہ دوسری طرف یہ بات واقعی سنگین نوعیت کی ہے اور اگر صدرِ مملکت کو بائی پاس کیا گیا ہے یاقانون سازی کی گئی ہے تو یہ ایک سنگین جرم ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو کچھ اس وقت ملک میں ہورہا ہے اُس میں آئین وقانون کی حکمرانی کا کھیل بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ اس واقعے کے فوری بعد صدرِ مملکت سے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ استعفے سے پہلے ان معاملات کی چھان بین سے کیوں گریز کیا جارہا ہے؟ اورکیا وجہ ہے کہ ان معاملات پر چھان بین کے بجائے صدرِ مملکت سے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے؟اندازہ لگائیں کہ اگر ان معاملات میں صدر کا اپنا آفس بھی محفوظ نہیں اور اُن کی مرضی و منشا ،یا ان کو بتائے بغیر قانون سازی کی گئی ہے تو پھر اس ملک کا واقعی اللہ حافظ ہے۔

اس بحران نے ایک بار پھر اس مؤقف کی تصدیق کی ہے کہ ملک کا بحران سیاسی اور معاشی نوعیت کا نہیں بلکہ ایک بڑے ریاستی بحران کی عکاسی کرتا ہے، اور جب تک ریاست سے جڑے تمام فریق مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش نہیں کریں گے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ نگران حکومت کی تشکیل پر بھی جو کھیل دیکھنے کو ملا اس میں سیاسی قوتیں خاصی بے بس اور لاچار نظر آئیں اور ایسا لگتا ہے کہ گیند عملی بنیادوں پر ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے، اور جو لوگ کل طاقت ور تھے آج بھی طاقت کا مرکز ان ہی کے کنٹرول میں ہے۔ جو لوگ نگرانوں سے بڑی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں ان کو بھی اس حوالے سے جلد ہی سخت مایوسی ہوگی، جو ہماری ریاست کا بحران ہے اس سے نمٹنے کی صلاحیت اس نگران حکومت کے پاس نہیں، کیونکہ اس کے پاس فیصلے کی اصل طاقت ہی نہیں ہے، اور جہاں فیصلے کی طاقت ہے وہ کیا سوچ رہے ہیں اور ان کا ایجنڈا کیا ہے؟ یہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ ہم جس انداز سے اِس وقت ریاستی اور حکومتی نظام کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں یا اداروں کو جس طرح سے سیاسی عمل میں شامل کیا جارہا ہے اس سے ہمارے مسائل حل ہوسکیں گے؟ تو جواب نفی میں ہوگا۔ کیا وجہ ہے کہ ہم مسائل سیاسی اور جمہوری انداز، بات چیت اور مفاہمت سے حل کرنے کے لیے تیار نہیں؟ ماضی میں عمران خان سیاسی قوتوں سے بات چیت کے مخالف تھے اور اپنے مخالفین کے سیاسی وجود کو ہی قبول کرنے سے انکار ی تھے، لیکن بعد میں پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی سمیت تمام عمران خان مخالف قوتوں نے عمران خان سے مذاکرات کے بجائے ان کو دیوار سے لگانے کا فیصلہ کیا، اوراس کھیل میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے لیے سہولت کار کا بھی کردار ادا کیا۔ اس کے نتیجے میں عمران خان منظر سے غائب ہوئے یا نہیں، یا ان کی قبولیت کم ہوئی یا نہیں، اس سے قطع نظر عمران خان کے سیاسی مخالفین بھی سکون میں نہیں بلکہ ان کو بھی عملی طور پر وینٹی لیٹر پر لٹادیا گیا ہے۔ سیاسی طور پر بھی سیاسی تنہائی ان کو ملی، اور وہ انتخابات میں جانے سے خوف زدہ ہیں، دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی وہ عملاً ایک سیاسی بوجھ بنے ہوئے ہیں، کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بھی وہ اپنا سیاسی مقدمہ عمران خان کے خلاف مضبوط نہیں بناسکے ہیں۔ مؤرخ جب بھی تاریخ لکھے گا اور شہباز حکومت اورجمہوریت پر جب لکھے گا تو یقینی طو رپر سیاسی لفظوں کا ہی سہارا لیاجائے گا۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ نے بھی ماضی سے کم ہی سیکھا ہے، اوراس نے اسی کھیل کو جاری رکھا جو پہلے سے کسی نہ کسی شکل میںجاری تھا۔اصولی طور پر تو سارے سیاسی اور غیر سیاسی فریقوں میں بات چیت اورمفاہمت کا راستہ نکلنا چاہیے تھا اور جو بھی مسائل ہیںاورجس نے بھی یہ پیدا کیے ہیں اس سے آگے بڑھ کر مستقبل کی طرف پیش رفت ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز کسی کی بھی سننے کے لیے تیار نہیں، اورجو بھی ان کو مفاہمت یا مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتا ہے تو اسے اپنا سیاسی مخالف سمجھتے ہیں۔ اگر واقعی کوئی ڈائیلاگ ہونا ہے تو اس کا راستہ بھی فیصلہ ساز قوتوںکی جانب سے ہی نکلنا ہے، اس لیے مفاہمت کی کنجی بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہی ہاتھوں میں ہے۔

اسی طرح نوازشریف، شہباز شریف ، آصف علی زرداری ،مولانا فضل الرحمن ، اسفند یار ولی خان جیسے لوگوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ ان کی سیاسی پالیسیوں سے ان کے حصے میں کیا آیا؟ اور آج وہ بھی سیاسی طور پر تنہا کھڑے نظر آتے ہیں۔ نگرانوں کی تقرری میں جیسے ان کو نظرانداز کیا گیا اوراپنی مرضی چلائی گئی ہے اس سے بھی ان سیاسی قوتوں کو بڑا سیاسی دھچکہ لگا ہے اوران کو لگتا ہے کہ مسئلہ محض عمران خان کو ہی نہیں، بلکہ ہمیں بھی دیوار سے لگایاجارہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ جمہوری قوتیں ہر صورت میں ماضی کے کھیل کو نظرانداز کرکے، یا جو بھی ان میں اختلافات ہیں ان کو پسِ پشت ڈال کر مشترکہ سیاسی حکمت عملی اپنائیں۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کا براہِ راست یا پیچھے بیٹھ کر تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا عمل بھی قومی سطح پر نئے مسائل کو جنم دے گا جو خود ریاست یا اسٹیبلشمنٹ کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ یہ بات سب کو سمجھنی ہوگی کہ مذاکرات اور مفاہمت سے انکار ہمیں بہت پیچھے کی طرف دھکیل دے گا اورکسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اس بحران کی بھاری قیمت جہاں ریاستی نظام کو ادا کرنی ہے وہیں اس کا ملبہ عوام پر بھی گرے گا جو پہلے ہی مسائل میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان یا پی ٹی آئی کے درمیان بھی مفاہمتی عمل آگے جانا چاہیے۔ یہ سوچ کہ ہم کسی کو دیوار سے لگادیں گے یا کسی کا ارستہ روک لیں گے، مسائل کا حل نہیں۔ کیونکہ جس انداز سے پی ٹی آئی کا راستہ روکا جارہا ہے اور قانون کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے سربراہ سمیت دیگر لوگوں سے سیاسی مخالفت کی بنیاد پر نمٹا جارہا ہے وہ خود بھی نئے مسائل کو جنم دینے کا سبب بنے گا۔ عمران خان کی ضمانت میں بھی جو تاخیری حربے اختیار کیے جارہے ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کو آسانی سے نہیں چھوڑا جائے گا۔ یہ سارا کھیل ہمیں مجموعی طور پر محاذ آرائی کی جانب لے کر جارہا ہے۔ ہمیں مفاہمت ہی کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا، وگرنہ ہم مزید پیچھے کی طرف جائیں گے اوراس کی ذمہ داری ہم سب پر ہی عائد ہوگی۔