میئر کلکتہ کارپوریشن سید محمد عثمان اور کراچی

29، 30، 31دسمبر 1946ء کی تاریخوں میں شہر کراچی میں ایک کُل ہند میئر کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں رنگون، کلکتہ، بمبئی، مدراس اور لاہور کے میئر حضرات نے بھی شرکت کی تھی۔ آخری شب یعنی 31 دسمبر کی شب میں وزیراعظم سندھ جناب سر غلام حسین ہدایت اللہ نے میئروں کی ضیافت کے سلسلے میں ایک شان دار عشائیہ ترتیب دیا۔ عشائیے میں تقریر کرنے کے لیے تمام میئر حضرات نے مسٹر محمد عثمان میئر کلکتہ کو اپنا نمائندہ منتخب کرلیا۔

تین دنوں تک کانفرنس کی مختلف میٹنگوں میں تمام نمائندوں نے جو بحیثیت میئر اپنے اپنے علاقوں اور صوبوں کی نمائندگی کررہے تھے، میئر کلکتہ سید محمد عثمان کی صلاحیتوں کو جانچ لیا تھا، اسی لیے انہوں نے سید محمد عثمان کو عشائیہ کے موقع پر اپنی جانب سے تقریر کرنے کے لیے منتخب کیا تھا۔

مؤثر اور سبق آموز تقریر: عشائیہ میں تقریر کرتے ہوئے بہاری نژاد جرأت مند، بے خوف اور بہادر میئر کلکتہ نے جمشید نوشیروان جی مہتہ میئر کراچی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’نوشیروان جی! آپ پارسی ہیں۔ بارہ یا چودہ برسوں سے مسلسل آپ کراچی کے میئر کے عہدے پر فائز ہیں۔ کراچی شہر کے بعض حصوں کو خوب صورت بنایا ہے۔ اس کو صاف ستھرا رکھنے کا سارا سامان کرتے ہیں۔ اسی لیے کراچی کا شہر اپنی صفائی اور ستھرائی کے لحاظ سے بین الاقوامی شہرت حاصل کرچکا ہے، شہر کے مختلف حصوں کی ترقی قابلِ رشک ہے۔ سڑکوں کی صفائی، پارکوں کی خوب صورتی، مختلف محلوں میں مکانوں کی چمک دمک نے اس شہر کراچی کو دنیا میں ایک نمایاں مقام عطا کردیا ہے اور اسے عروس البلاد کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، میں نے ہر طرف کی سیر کی اور اپنی آنکھوں سے شہر کی ترقی کی رعنائیوں کو دیکھا اور خوش ہوا، لیکن جب میں لیاری کے علاقے پہنچا تو اس علاقے کی حالتِ زار کا مشاہدہ کرکے مجھے دلی صدمہ ہوا۔ میری آنکھیں غم ناک ہوگئیں، قلب و دماغ مجروح ہوگئے۔ یہ دورنگی کیوں؟ ایک ہی شہر میں دہری پالیسی کا نظارہ میرے لیے بھیانک نظر آیا۔ کیا میں آپ سے سوال کرسکتا ہوں کہ آپ کی کارپوریشن کو حکومتِ سندھ کوئی امدادی رقم (سبسڈی) دیتی ہے یا نہیں؟

لیاری کا علاقہ مسلمانانِ کراچی کی اکثریت کا علاقہ ہے جہاں نہ کوئی اسکول ہے، نہ کوئی مدرسہ۔ مسلمان اس علاقے کا خستہ و پراگندہ، مفلوک الحال، غربت سے نڈھال، بے یارومددگار، ہراساں و پریشاں اور ابتر نظر آیا۔ کیا وجہ ہے؟ کیا ان کو آپ کی کارپوریشن سے منفعت حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے؟ اس علاقے کو کیا مسلمانوں کا علاقہ سمجھ کر ان کی ترقی سے آنکھیں بند کرلی گئی ہیں؟‘‘

سید محمد عثمان کی یہ درد بھری، تلخ اور تند تقریرکو جمشید جی مہتہ میئر کراچی کارپوریشن خاموش بیٹھا سنتا رہا لیکن یارائے گویائی نہیں تھا، کوئی جواب نہ دے سکا، ندامت کی تصویر بنارہا۔ پشیمانی نے اس کا خون خشک کردیا تھا۔ وہ سید عثمان صاحب کی تقریر سن رہا تھا اور دم بخود تھا۔ کلکتہ کے مسلمان میئر نے صاف صاف الفاظ میں کراچی کے میئر کو جتلادیا کہ تم متعصب ہو۔ مسلمانانِ کراچی سے دل میں بیر رکھتے ہو اس لیے تم نے لیاری کی سرزمین کو ترقی سے آشنا ہونے نہیں دیا۔ انہوں نے کراچی کے میئر کے چہرے سے مسلمان دشمنی کا نقاب اٹھا دیاُ اور گویا یہ سوال ان سے کیا کہ مسلمانوں سے اور اسلام سے تم کو بھی اس قدر بغض و عداوت ہے۔ ہندو تو بہرحال ہندو ہے۔

اس کانفرنس میں صرف دو میئر مسلمان تھے۔ کلکتہ کے عثمان صاحب اور لاہور کے امیرالدین صاحب، اور جتنے دوسرے میئر صاحبان تھے ان میں ہندوئوں اور بدھسٹوں کی تعداد زیادہ تھی۔

سید محمد عثمان کی بے باکی و دلیری کا یہ شاہکار ہے کہ انہوں نے موقع پاتے ہی مقامی مسلمانوں کی یعنی کراچی کی مسلم آبادی کی فلاح و بہبود کی طرف بلاخوف و خطر کراچی کے پارسی میئر کی توجہ مبذول کرائی اور اُسے اُس کی کارکردگی پر شرمسار بھی کردیا۔ یہ تقریر مقامی اور ہندوستانی اخباروں کی زینت بھی بنی اور مسلمانانِ کراچی و سندھ نے اس تقریر کو خوب سراہا اور بہت سے لوگ ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔
(عثمان صاحب کے بھائی احمد کریم صاحب نے ان واقعات کی نشاندہی کی ہے)
(محمد انیس الرحمٰن)

مجلس اقبال
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی

علامہ بسااوقات غفلت اور بے عملی میں ڈوبی ہوئی اپنی قوم کو جگانے کے لیے غصے اور جلال کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں تو اگلے لمحے یہ بتا دیتے ہیں کہ میرے کلام کی تلخی دراصل اُس کڑوی دوا کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مریض کو شفا نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض اوقات کسی مہلک زہر کا مقابلہ بھی ایسے اجزا پر مشتمل دوا سے کیا جاتا ہے جو زہر کو کاٹ کر بے اثر کر دیتی ہے اور اسے تریاق کہا جاتا ہے۔