اسلام اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر وجود پذیر ہونے والی مملکت، اسلامی جمہوریہ پاکستان آج گونا گوں مسائل سے دو چار ہے اور اسے سیاسی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی، آئینی و قانونی، غرض یہ کہ ہمہ نوعیت بحرانوں کا سامنا ہے جن کے سبب عوام مایوسی سے دو چار ہیں اور خود کشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں یا …… سے ترک سکونت کر کے بیرون ملک جا بسنے کے لیے جان لڑا رہے ہیں حالانکہ ان میں سے اکثر کے آباء و اجداد بھارت میں اپنی جائیدادیں اور مال و اسباب چھوڑ کر دور حاضر کی سب سے بڑی رضا کارانہ ہجرت کا حصہ بنے تھے اور اس سفر ہجرت کے دوران لاکھوں جانوں اور مائوں بہنوں، بیٹیوں کی عزت و ناموس کی قربانی بھی گوارا کی تھی کیونکہ یہ ہجرت ایک عظیم تر مقصد کی خاطر تھی، ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ جس نئی مملکت میں آباد ہونے جا رہے ہیں اس کا نظام قرآن و سنت اور اسوۂ حسنہ کے تابع ہو گا… مگر وائے ناکامی کہ قیام پاکستان کے بعد نظام ریاست پر وہ لوگ قابض ہو گئے جو اس مقصد سے نا آشنا ہی نہیں بلکہ اس کے باغی تھے، جن کے قول و فعل میں تضاد نمایاں تھا انہوں نے قوم کو آزادی کے ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع دینے کی بجائے یہاں سابق حکمرانوں کا مسلط کردہ نظام جاری رکھ کر قوم کو غلامی کی نئی زنجیروں میں جکڑ دیا، انگریز بظاہر تو یہاں سے چلا گیا مگر یہاں کے لوگوں پر جو حاکم مسلط کر گیا انہوں نے اس امر کو یقینی بنایا کہ یہ قوم غلامی کی زنجیروں سے کسی صورت آزاد نہ ہونے پائے چنانچہ بانیٔ پاکستان کے واضح اعلانات اور ارشادات کے باوجود آج انگریزوں کے جانے کے بعد بھی یہاں انگریزی کا دور دورہ ہے اور انگریز کا جاری کردہ نظام ہی ہر جگہ رائج اور بالادست و کار فرما ہے، اسی وعدہ خلافی اور دو عملی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن ہونے کی بجائے مسائل و مصائب اور بحرانوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے تاہم اس گھمبیر صورت حال میں بھی مسائل کا حل مایوسی و نا امیدی یا خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے میں نہیں بلکہ ہمت و استقامت سے حالات کا مقابلہ کرنے میں ہی ہے اللہ تعالیٰ کا شکر ہے ہمارا معاشرہ آج بھی خیر سے خالی نہیں ہوا اور وطن عزیز میں آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو خوف خدا کے حامل، امانت و دیانت کے پیکر، خدمت کے خوگر، ہر طرح کے علاقائی، لسانی اور مسلکی تعصبات سے بالاتر، اعلیٰ اخلاق، مثالی سیرت و کردار کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی رہنمائی میں نظام سلطنت کو چلانے کی صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہیں مگر مولانا الطاف حسین حالیؔ مرحوم و مغفور کے الفاظ میں:۔
مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر
شہر میں کھولی ہے حالیؔ نے دکان سب سے الگ
سب سے الگ، سب سے منفرد، نایاب مال فراہم کرنے والی اس دکان کا نام ’’جماعت اسلامی‘‘ ہے جس کی تاسیس وقت کے عظیم مفکر اسلام و مفسر قرآن مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی قیادت اور دعوت پر 26 اگست 1941ء کو زندہ دلوں کے شہر لاہور میں چوبرجی کے قریب واقع اسلامیہ پارک میں عمل میں آئی۔ تب سے اب تک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود یہ جماعت مثالی انداز میں اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، اس کی جدوجہد پاکستان یا برصغیر ہی تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات عالمگیر ہیں۔ کئی ممالک میں یہ ’’جماعت اسلامی‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے اور بہت سے دیگر خطوں میں کئی دیگر ناموں سے معروف ہے مگر ہر جگہ جدوجہد کا مرکز و محور اسلام کو غالب کرنا اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کر کے اللہ، خالق کائنات کی غلامی میں دینا ہے دنیا بھر میں اس سے وابستہ لوگ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے علم بردار اور رسول رحمتؐ کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں نظام سلطنت کو چلانے کی تڑپ دلوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ نفسانفسی کے موجودہ دور میں جماعت اسلامی میں حصول مناصب کے لیے کشمکش یا عہدوں کی طلب کسی بھی سطح پر دکھائی نہیں دیتی، پاکستان کی یہ واحد جماعت ہے جس میں اس کے قیام سے آج تک ہر طرح کے حالات میں مقررہ وقفوں کے ساتھ نچلی سطح سے ملک گیر سطح تک باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں اور جاہ و منصب کے لیے کبھی کوئی تنازعہ سامنے نہیں آیا، قیادت کو کارکنوں کا مکمل اعتماد حاصل ہے، طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے برعکس دھڑے بندی یا گروہی جھگڑوں سے مکمل طور پر محفوظ ہے ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں نام تو جمہوریت کا لیتی ہیں مگر عملاً جمہوریت ان میں نام کو نہیں، ہر جگہ قیادت، وراثت میں نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہے، یوں یہ جماعتیں کسی اعلیٰ مقصد کی بجائے شخصیات سے وابستہ ہو چکی ہیں اور یہ مستقل خاندانی قیادت ہی ان جماعتوں کی شناخت بن چکی ہے، ان تمام جماعتوں کا ایک طرۂ امتیاز یہ بھی ہے کہ بدعنوانی یہاں ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے اور یہ جماعتیں وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کے خلاف بدعنوانی و رشوت ستانی کے الزامات زور و شور سے عائد بھی کرتی رہی ہیں مگر مفادات مشترکہ ہونے پر باہم شیر و شکر ہوتے بھی دیر نہیں لگاتیں اس کے برعکس جماعت اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آج تک کبھی کسی کرپشن کا کوئی الزام اس پر عائد نہیں کیا جا سکا، نیب اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے اداروں کی رپورٹیں جماعت اسلامی کے وابستگان کی پاک دامنی کی گواہی دیتی ہیں بلکہ وقت کے منصف اعلیٰ کے سامنے جب امانت و دیانت کا معاملہ پیش ہوتا ہے تو وہ بھی یہ گواہی دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس معیار پر صرف جماعت اسلامی کے امیر ہی پورے اترتے ہیں، یہ بھی نہیں کہ جماعت کے لوگوں کو موقع نہیں ملا اس لیے وہ بدعنوانی سے محفوظ رہے ہیں، پاکستان کی پون صدی سے زائد تاریخ میں جماعت اسلامی کے ہزاروں لوگ کونسلر سے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹ منتخب ہوئے ہیں، میئر یا ناظم شہر سے صوبائی و وفاقی وزراء کے طور پر خدمات بھی انجام دے چکے ہیں مگر اسے رب ذوالجلال کا فضل ہی کہا جائے گا کہ خطا کار انسان ہونے کے باوجود کسی کے دامن پر کوئی داغ کبھی نہیں لگا اور امانت و دیانت اور شرافت و صداقت کی زریں مثالیں ان لوگوں نے قوم کے سامنے پیش کی ہیں… غریبوں، محنت کشوں اور بے وسیلہ اہل وطن کا نام بھی تمام جماعتیں ہی لیتی ہیں مگر عمل کے میدان میں غریبوں کی سچی حامی صرف جماعت اسلامی ہی ثابت ہوئی ہے اور کسی سیاسی و انتظامی اختیار و اقتدار کے بغیر جماعت کے کارکنوں نے ارضی و سماوی آفات، حادثات، زلزلوں، سیلابوں اور وبائوں کے دوران بلاتخصیص مذہب و ملت اپنی جانوں پر کھیل کر مصیبت زدگان کی مدد کی ناقابل فراموش مثالیں قائم کی ہیں جب کہ یتیموں کی کاکفالت، غریبوں، بے روز گاروں اور بیماروں کی خدمت کے لیے ملک بھر میں ہزاروں ہسپتال ، مدارس، سفری شفاخانے، بلڈ بنک، میت گاڑیاں اور ایمبولینسیں وغیرہ مستحقین میں بے لوث محبت تقسیم کرنے میں سارا سال مصروف کار نظر آتی ہیں۔
جماعت اسلامی کے اس مثالی کردار اور شاندار خدمات کے بعد اب قوم کے ہر ہر فرد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ماضی میں آزمودہ لوگوں کو بار بار اپنے سروں پر مسلط کرنے کی بجائے ان سے نجات پائیں اور آئندہ انتخابات میں جماعت اسلامی کا ساتھ دے کر مسائل سے نجات کی راہ اپنائیں۔
(حامد ریاض ڈوگر)