سیاسی نظام پر اسٹابلشمنٹ کی بالادستی کی ذمہ دار مسلم لیگ (ن)، پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی قیادت ہے
نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی تقرری ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کا سیاسی و جمہوری نظام کن مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے،کیونکہ نگراں وزیراعظم کی تقرری میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی مرضی کے مقابلے میں طاقت ور طبقے کی مرضی کو بالادستی حاصل ہوئی ہے۔ ہم نے ان ہی صفحات پر عرض کیا تھا کہ نگراں وزیراعظم کا فیصلہ حکومت اور حزبِ اختلاف یا دبئی اور لندن میں نہیں بلکہ پنڈی میں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نگراں وزیراعظم کے فیصلے پر پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی سمیت پوری سیاسی قیادت بے بس نظر آئی اور ان کے پاس اِس فیصلے پر سمجھوتے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ سیاسی نظام پر اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی میں خود پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کی قیادت کا بھی بڑا حصہ ہے، اور سیاسی فیصلوں میں سیاسی قیادت کو جس طرح نظرانداز کیا گیا ہے اس جرم میں حکمران اتحاد میں شامل بڑی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ بہرحال نگراں وزیراعظم کے طور پر انوارالحق کاکڑ کی نامزدگی ان ہی لوگوں کی کامیابی ہے جو اس ملک کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان ہی کے فیصلوں کو سیاسی بالادستی حاصل ہونی چاہیے۔ نگراں وزیراعظم کی تقرری پر بظاہر سیاسی جماعتوں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اور نیم دلی سے اس تقرری کا خیرمقدم کیا گیا ہے، لیکن سیاسی قیادت کو اندازہ ہے کہ نگراں وزیراعظم ان کے مقابلے میں اُن قوتوں ہی کے مفادات کو تقویت دیں گے جنہوں نے ان کی تقرری کو یقینی بنایا ہے۔
نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور ان کی حکومت کا بنیادی مقصد تو بروقت منصفانہ اورشفاف انتخابات کو یقینی بنانا ہے، کیونکہ آئین ان کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ 90 دنوں میں انتخابات کو یقینی بنائیں، اور ایسا نہ کرنے سے یہ نگراں حکومت آئین کی پامالی کی مرتکب ہوگی۔ یہ نگراں حکومت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب ملک میں پہلے سے یہ رائے موجود ہے کہ عام انتخابات اپنے مقررہ وقت یعنی 90روز میں نہیں ہوں گے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بھی انتخابات 90 روز میں نہیں ہوسکے تھے اور اب تک وہاں انتخابات سے گریز کیا گیا، جو ظاہر کرتا ہے کہ اِس وقت ہم آئینی میدان میں کہاں کھڑے ہیں! اگرچہ ابھی تک نگراں حکومت نے ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ وقت پر انتخابات نہیں کروائے گی۔ لیکن سابقہ شہبازشریف حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ عام انتخابات نئی مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں ہی ہوں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو نئی حلقہ بندیوں میں کم ازکم تین سے چار ماہ لگیں گے اور بہت سوں کا خیال ہے کہ انتخابات اگلے برس فروری یا مارچ میں ہی ہوسکتے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن اس بارے میں کیا حتمی فیصلہ کرتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے؟ یا فیصلہ کہیں اور سے ہی آئے گا کہ انتخابات کب ہوں گے اور کیسے ہوں گے، ان کی شرائط کیا ہوں گی۔ اسی طرح ایک اہم مسئلہ انتخابات کی شفافیت کا ہے۔ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو کیا شفاف ہوں گے؟ یا یہ بھی ماضی کے دیگر انتخابات کی طرح سیاسی انجینئرنگ کے کھیل کا ہی حصہ ہوں گے؟ کیونکہ اگر انتخابات ہونے ہیں تو سب سے اہم یہ سوال ہوگا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابات کے حوالے سے کیا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ابھی تک کے جو حالات ہیں وہ یہی ظاہر کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کے حوالے سے خاصے مسائل کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ کو انتخابی عمل سے ہی دور رکھا جارہا ہے اور یہ فیصلہ بتارہا ہے کہ طاقت ور حلقوں میں یہ طے ہوچکا ہے کہ فی الحال پی ٹی آئی اوربالخصوص اس کے سربراہ کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک جماعت کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کا فارمولہ کچھ اورہی ہے اور اس کا مقصد اس جماعت کو فی الحال دیوار سے ہی لگانا ہے تو پھر انتخابات کی شفافیت کا سوال کدھر جائے گا؟ یہ جو انتخابات سے پہلے انتخابی عمل کو ہی متنازع بنایا جارہا ہے، وہ کیسے انتخابات کی ساکھ کو قائم کرسکے گا؟ اسی طرح اگر انتخابات بروقت نہیں کروائے جاتے اور انتخابات میں جان بوجھ کر تاخیری حربے اختیار کیے جاتے ہیں تو یقینی طور پر اس سے سیاسی جماعتوں اور نگراں حکومت سمیت اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوگا۔ اگر انتخابات فروری یا مارچ سے آگے جاتے ہیں تو اس کا مطلب واضح ہے کہ انتخابات میں مزید دیر ہوگی اور اِس وقت طاقت ور طبقوں کا فیصلہ انتخابات کے مقابلے میں کچھ اور ہی ہے۔ نگرانوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کے پاس ایجنڈا یہی ہے کہ پنجاب اورخیبر پختون خوا میں اسٹیبلشمنٹ کے سہارے بننے والی دو نئی جماعتوں یعنی جہانگیر ترین کی جماعت کو پنجاب اور پرویز خٹک کی جماعت کو کے پی کے میں بھرپور سیاسی حمایت دی جائے اور ان کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں نئی سیاسی طاقت دی جائے۔ یعنی پہلے پی ٹی آئی کا سیاسی بندوبست ہو اور پھر ہم انتخابات کا راستہ اختیارکریں۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں نئی جماعتوں کی تشکیل پر مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے تحفظات ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کو بھی کمزور کرنے کے کھیل کا حصہ ہے۔کہا جارہا ہے کہ نگرانوں کو یہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی اور دوسرے مرحلے میں مسلم لیگ (ن) کو کمزور کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یا نگراں حکومت کے سیاسی عزائم پر مسلم لیگ (ن) میں تشویش دیکھنے کو مل رہی ہے اور ان کو لگتا ہے کہ کھیل کا دوسرا حصہ ان کے خلاف ہی ہوگا۔ آج اورکل میں نگراں کابینہ بھی سامنے آجائے گی۔ اس سے بھی اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کابینہ انتخابات کے لیے بنائی گئی ہے یا اس سے کچھ اورکام لینا ہے۔
بنیادی طور پر یہ کہا جارہا ہے کہ اس نگراں حکومت کے پاس انتخابات سے زیادہ اہم ترجیح معیشت کی بحالی یا مضبوطی ہے۔ ماضی میں ’’پہلے احتساب، پھر انتخاب‘‘ کی بات کی جاتی تھی، لیکن اب ’’پہلے معیشت، پھر انتخاب‘‘ کی بات کی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم انتخابات کو پس پشت ڈال کر معیشت کی بحالی کی بحث کو آگے بڑھا سکتے ہیں؟ کیا عام انتخابات کو نظرانداز کرنے کا ایجنڈا نئے سیاسی بحران کو جنم نہیں دے گا؟ اورکیا سیاسی فریقوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکرائو مزید غیر مستحکم نہیں کرے گا؟ کیونکہ اگر ایک ہی جماعت کو ہدف بناکر انتخابات سے راہِ فرار اختیار کرنی ہے تو اس سے سیاسی تنائو اور کشیدگی بڑھے گی۔ اس لیے اصل چیلنج یہ بھی ہے کہ نگراں وزیراعظم ہوں یا نگراں حکومت… ان کے اور سیاسی قیادت کے درمیان کس حد تک اعتماد سازی اور انتخابات کا روڈمیپ سامنے آتا ہے۔کیونکہ انتخابات میں تاخیر نگراں حکومت اور سیاسی قیادت کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کرے گی۔ اسی طرح اہم سوال یہ بھی ہے کہ نگراں حکومت یا نگراں وزیراعظم… جن کو پچھلی اسمبلی نے کچھ نئے اختیارات بھی دیے ہیں… کیا واقعی بااختیار ہوں گے اور وہ تمام فیصلے کرسکیں گے جو وہ کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کا مطلب واضح ہے کہ نگرانوں کے اوپر جو نگراں ہیں وہی بااختیار اور فیصلہ ساز ہیں۔ نگراں حکومت ان کے ہی فیصلوں کو لے کر آگے بڑھے گی۔ اسی طرح دیکھنا ہے کہ نئی نگراں حکومت پنجاب اور خیبر پختون خوا کی نگراں حکومتوں کا کیا فیصلہ کرتی ہے؟ کیا پنجاب اور خیبرپختون خوا کی نگراں حکومتیں ایسے ہی چلتی رہیں گی یا ان کو تبدیل کیا جائے گا؟ کیونکہ دونوں صوبوں کی نگراں حکومتوں کے سیاسی عزائم واضح ہیں اور ایک جماعت کے خلاف ان کے تعصبات اور فیصلے بھی سب کے سامنے ہیں۔ اس لیے جب بھی شفاف انتخابات کی بات ہوگی تو پنجاب اور خیبر پختون خوا کی نگراں حکومتوں کی موجودگی میں شفاف انتخابات کی منزل مزید دور ہوجائے گی۔ نگراں حکومت یا نگراں وزیراعظم کی تقرری پر سب سے دلچسپ تبصرہ سردار اختر مینگل کا سامنے آیا ہے، ان کے بقول: ’’نگراں لگائیں انڈرٹیکر نہیں کہ جمہوریت کا قبرستان بن جائے‘‘۔ انہوں نے اس تقرری پر نوازشریف کو خط لکھ کر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ مگر کیا نوازشریف کی مرضی سے یہ تقرری ہوئی ہے تو جواب نفی میں ہے۔
اسلام آباد کے سیاسی حلقوں کے بقول نگراں حکومت ایک لمبے عرصے کے لیے لائی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب الیکشن کمیشن نے بھی کہہ دیا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں تک الیکشن میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ ان کے بقول اگرچہ 90دن میں انتخابات کروانے لازم ہیں مگر نوٹیفکیشن کے بعد ہم نئی حلقہ بندیوں پر ہی انتخابات کروانے کے پابند ہیں۔ اس پورے سیاسی بحران میں الیکشن کمیشن کا کردار بھی کوئی اچھا نہیں، اور جس انداز سے اس نے پنجاب اور خیبرپختون خوا میں انتخابات کو ٹالا ہے اس سے اُس کے سیاسی ایجنڈے کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے، اور اب بھی عام انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی اگر مگر بہت کچھ کہہ رہی ہے اور اس میں واضح اشارے ہیں کہ وہ فوری انتخابات کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف نوازشریف کی واپسی کا معاملہ بھی لٹک گیا ہے،کیونکہ اگر فوری طور پر انتخابات ہی نہیں ہونے تو ان کی واپسی کیسے ممکن ہوگی! یہی وجہ ہے کہ خواجہ آصف کے بقول جب تک ہمیں مکمل طور پر یقین نہیں ہوجاتا کہ نوازشریف کو واپسی پر کوئی خطرہ نہیں ہوگا ان کی واپسی ممکن نہیں، کیونکہ ہم ان کی واپسی پر کوئی رسک نہیں لیں گے۔ یعنی موجودہ حالات میں ان کی واپسی ممکن نظر نہیں آرہی اور خواجہ آصف کا بیان بھی اسی خیال کی تصدیق کرتا نظر آتا ہے۔ ویسے بھی نوازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو پہلے ہی نگراں وزیراعظم کی تقرری پر سیاسی جھٹکا لگ گیا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ ان کے لیے حالات وہ نہیں جس طرح وہ اپنے حق میں سمجھ رہے تھے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ نگراں حکومت بننے کے بعد ان پر سیاسی دبائو کچھ کم ہوگا اور حکمران اتحادی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہمیں جس طرح دیوار سے لگانے کی کوشش کررہی تھیں اس میں کچھ نرمی آسکتی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے اگر نرمی ہونی ہے تو اس کا فیصلہ نگرانوں کے پاس نہیں بلکہ اُن کے نگرانوں کے پاس ہے، اور جب تک وہاں معاملات میں کوئی بہتر پیش رفت نہیں ہوتی حالات ان کے حق میں بہتر نہیں ہوسکیں گے۔ اسی تناظر میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اشارہ کیا ہے ’’سیاست دان اور اسٹیک ہولڈرز یعنی اسٹیبلشمنٹ درگزر کا رویہ اپنائیں اور نفرتوں کے بجائے محبتوں کو فروغ دیں‘‘۔ صدرِ مملکت کا اشارہ کافی واضح ہے کہ ہمیں موجودہ صورتِ حال میں سیاسی ٹکرائو کی پالیسی کے مقابلے میں مفاہمت کا انداز اپنانا ہوگا اور یہ مفاہمت پی ٹی آئی اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی ہونی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی مفاہمت ممکن ہے؟ موجودہ حالات میں جس انداز سے پی ٹی آئی سے نمٹا جارہا ہے اس میں تو مفاہمت کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی اوراسٹیبلشمنٹ دونوں محاذ پر ایک دوسرے کے بارے میں ردعمل یا مقابلے کی سیاست زیادہ غالب ہے جو ٹکرائو پیدا کررہی ہے۔لیکن کیا پاکستان اس ٹکرائو کی سیاست سے باہر نکل سکے گا، یا ہمیں مزید ٹکرائو کی سیاست میں جانا ہے؟ کیونکہ سیاسی استحکام ہو یا معاشی استحکام… یہ کسی بھی صورت میں سیاسی مہم جوئی سے ممکن نہیں، اوراس کے لیے جہاں سیاسی مفاہمت درکار ہے وہیں ہمیں آگے جانے کے لیے سیاسی ومعاشی روڈمیپ درکار ہے، اس کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہوسکے گا۔