فصلِ گُل آئی یا اجل آئی
کیوں درِ زنداں کھلتا ہے
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما، ممتاز عالم دین اور فیروزپور (باریسال) سے منتخب ہونے والے رکنِ قومی اسمبلی مولانا دلاور حسین سعیدی دورانِ حراست انتقال کرگئے۔ ہمارے رب کی عطا اپنی ہی شان رکھتی ہے۔ پاکستان سے محبت کے ”الزام“ میں سزائے موت پانے والے اس 83 سالہ نوجوان کو بارگاہِ ایزدی سے پروانہِ طلبی یومِ آزادی کی شب عطا ہوا۔
سعیدی صاحب جنگی جرائم کے الزام میں جون 2010ء میں گرفتار ہوئے۔ ان پر 20 نکاتی فردِ جرم عائد ہوئی جس میں عصمت دری، ہندوئوں کا قتلِ عام، تشدد، آتش زنی، دشمن فوج (پاکستان) سے سازباز، اغوا برائے تاوان کے الزامات شامل تھے۔ مزے کی بات کہ مولانا نام نہاد جنگِ آزادی کے آٹھ سال بعد جماعت اسلامی میں شامل ہوئے تھے اور 1971ء کے فوجی آپریشن کے دوران وہ ایک روایتی ”مولوی“ اور مسجد کے امام تھے۔ فروری 2013ء میں انھیں جنگی جرائم ٹریبونل نے سزائے موت سنائی۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ خصوصی ٹریبونل کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے غیر قانونی قرار دیا ہے۔ نظرثانی کی درخواست پر سزائے موت عمرقید میں تبدیل کردی گئی۔
ادھر بہت عرصے سے سعیدی صاحب بیمار تھے۔ جیلر نے مشورہ دیا کہ صحت کی بنیاد پر اگر مولانا، وزیراعظم کے نام رحم کی درخواست لکھیں تو جیل انتظامیہ ان کے حق میں سفارش کرے گی۔ حسبِ توقع مولانا سعیدی نے صاف انکار کردیا۔
ہفتے کو طبیعت بگڑجانے پر انھیں قاسم پور جیل سے غازی پور میڈیکل کالج (اب شہید تاج الدین میڈیکل کالج) اسپتال منتقل کیا گیا جہاں دورئہ قلب تشخیص ہوا، چنانچہ بے ہوشی کے عالم میں انھیں جامعہ بنگلہ بندھو برائے طب (BSMMU) لایا گیا جہاں وہ 14 اگست کو ساڑھے آٹھ (پاکستان کے ساڑھے سات) بجے انتقال کرگئے۔
عجیب اتفاق کہ 15 اگست 1969ء کو اسی اسپتال میں عبدالمالک شہید نے دم توڑا۔ اُس وقت اس ادارے کا نام انسٹی ٹیوٹ اف پوسٹ گریجویٹ میڈیسن اینڈ ریسرچ (ڈھاکہ میڈیکل کالج) تھا۔ قیامِ بنگلہ دیش کے بعد انسٹی ٹیوٹ کو جامعہ کا درجہ دے کر اسے بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمٰن میڈیکل یونیورسٹی بنادیا گیا۔ اسی جگہ 45 سال بعد اکتوبر 2014ء میں سابق امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان پروفیسر غلام اعظم اپنے رب سے جاملے، اور اب جناب سعیدی نے اسی ادارے میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔
انتقال کے بعد بھی حسینہ واجد کی آتشِ انتقام سرد نہیں ہوئی اور نادر شاہی حکم جاری ہوا ہے کہ تدفین ٖ حکومت کی نگرانی میں ہوگی جس میں صرف اہل خانہ شریک ہوسکیں گے۔ جماعت اسلامی نے اپنے کارکنوں اور حامیوں کو اس حکم کی مزاحمت اور ردعمل سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ساری زندگی مردانگی کے ساتھ خدمتِ اسلام کے بعد سعیدی صاحب کتابِ زندگی سمیٹ کر اپنے رب کے پاس پہنچ گئے جو بقول حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ”چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر بڑے اجر عطا فرماتا اور اپنے بندوں کے بڑے بڑے گناہ معاف فرمادیتا ہے“۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ، مولانا سے درگزر کا معاملہ فرمائے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل سے نوازے۔