ڈاکٹر حسن صہیب مراد سے میری صرف ایک ملاقات ہے، جس کی تازگی میرے دل میں ابھی تک باقی ہے۔ وہ بہت ہی خوش و خرم انسان تھے، خوش نما ہونے کے ساتھ ساتھ خوش کلام، خوش خیال، خوش فکر اور خوش خصال بھی تھے۔
بہ طور ماہرِ تعلیم ان کی عمر کے اعتبار سے ان کی کامیابیاں ناقابلِ یقین لگتی ہیں۔ آئی ایل ایم سے یو ایم ٹی کے قیام اور فروغ کے درمیان جس ذہانت، تنظیم اور جرأت کے ساتھ اس کام کو انجام دیا وہ لائقِ ستائش ہے۔
ان کی اچانک اور حادثاتی موت سے یقینا ہمارا معاشرہ ایک بہت قیمتی انسان سے محروم ہوگیا ہے۔ اب یہ جو ان کی تحریروں کا 198 صفحات پر مشتمل مجموعہ ’’علم، عمل، زندگی‘‘ پیش نظر ہے، ان کی فکر کی شگفتگی و بالیدگی اور اخلاقی اقدار سے وابستگی کی معرفت یوں لگ رہا ہے جیسے وہ اپنے مخصوص اور خوب صورت انداز میں براہِ راست قارئین سے مخاطب ہیں۔
حسن صہیب مراد نے علم، عمل اور زندگی کو ایک دوسرے سے جوڑ کر دانش، بصیرت، اخلاق، اقدار اور عمومی انسانی رویوں کو اس طرح سے بیان کیا ہے کہ ان کی کہی ہوئی بہت سی باتیں ’’اقوالِ زریں‘‘ کا روپ اختیار کرگئی ہیں۔
ان کی زندگی میں ایمان، محبت، ہمدردی، خلوص، علم دوستی، مستقبل بینی اور مستقبل سازی کا جوہر موجود تھا۔ ’’علم، عمل، زندگی‘‘ کے اوراق میں مذکورہ بالا سبھی رنگ موجود ہیں۔ فکرمندی اور راہ نمائی کے زاویے، موج در موج اور سوچ کی گرہیں کھلتے ہاتھ۔ طویل خطبوں اور لیکچرز کا عطر ایک ایک دو دو صفحوں پر معطر استقبال کرتا ہے۔ صراط مستقیم کی تلاش میں ڈاکٹر حسن صہیب لکھتے ہیں کہ ہم ہر نماز میں کھڑے ہوکر صراطِ مستقیم پر چلنے کی دعا کرتے ہیں لیکن سیدھے راستے پر چلنے کے لیے اپنے کاموں اور زندگی کو سیدھا رکھنا ناگزیر ہے۔ سوچ کا متوازن اور نیت کا سیدھا رہنا بھی لازم ہے۔ زندگی میں علم و عمل کے حوالے سے ڈاکٹر حسن صہیب مراد کے اقوالِ زریں ہمیشہ پلے باندھنے کے لائق ہیں۔
یہ کتاب قابلِ مطالعہ تحفہ ہے، جب کہ معاشرے میں تبدیلی لانے والے سرفروشوں کے غور و فکر کا نصاب۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے خیر کو مصنف کے لیے ذریعہ نجات بنائے۔
کتاب پیلے گلیزڈ کاغذ پر خوب صورت طبع کی گئی ہے۔