خاکہ لفظی تصویر کا نام ہے۔ ادبی معنوں میں ایسی نثر جس میں کسی شخصیت کا بھرپور تاثر سامنے آئے۔ خاکہ کسی شخصیت کی مختصر Autobiography کا نام ہے۔ خاکے اور سوانح میں وہی فرق ہوتا ہے جو افسانے اور اردو ناول میں ہوتا ہے۔ کسی بھی عمدہ خاکے میں جہاں کسی شخصیت کی چال ڈھال، وضع قطع، لباس، نشست و برخواست اور عادت و اطوار کا احاطہ کیا جاتا ہے وہیں پر سوچ و فکر، نظریات، اسلوبِ بیان کا بیان ہوتا ہے جس سے شخصیت چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ عمومی طور پر خاکے میں خوبیاں ہی بیان کی جاتی ہیں کمزوریاں نہیں۔ ’’وہ لوگ…‘‘ سید وقار جعفری کے تحریر کردہ خاکوں پر مبنی پہلی کتاب ہے، جو ان کے علم، تجربے، مشاہدے کی گہرائی، وسعتِ مطالعہ، اعلیٰ ادبی ذوق کی حامل، جدت و ندرت لیے ہوئے رواں، شستہ، دلچسپ اور شگفتہ اسلوب کے ساتھ منصۂ شہود پر آئی ہے۔ گو مصنف کو انہیں خاکہ کہنے میں تردد ہے، لیکن انہیں بہرحال کوئی نام تو دینا ہی ہوگا۔
’’وہ لوگ…‘‘ خاکہ نگاری کو ایک نئے آہنگ، انداز و اسلوب میں پیش کرتی ہے، جس میں ادب بھی ہے، تاریخی تناظر بھی اور شخصیات کے خدوخال اور نظریات بھی۔ ایسا ادب جو دل اور دماغ دونوں کو اپیل کرے کم کم ہی تخلیق پاتا ہے۔ ایسا ادب اُسی وقت تخلیق پاتا ہے جب کسی شخصیت کی زندگی اور نظریات میں ہم آہنگی ہو، اور لکھنے والا بھی اس سے ہم آہنگ اور مطمئن ہو۔ ’’وہ لوگ…‘‘ میں ایسے ہی ادب کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ کتاب کا انتساب محبت کے نام کیا گیا ہے۔ محبت خدا سے ہو تو معرفت، محبوبِ خدا سے ہو تو طاعت، اور اگر انسانوں سے محبت ہو تو راحت کا عنوان بنتی ہے۔
کتاب کے عنوان سے لے کر تمام شخصیات کو دیئے گئے عنوانات نرالے اور انوکھے انداز اور اشعار کے مصرعوں پر مشتمل ہیں۔ مثال کے طور پر دو تین عنوانات ملاحظہ فرمایئے۔ ’’وہ میرے عہد کے قد آوروں میں سب سے بلند‘‘۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ’’گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان‘‘۔ قاضی حسین احمد، ’’اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل‘‘۔ سید منور حسن، ’’فخر ہوتا ہے قبیلے کا سدا ایک ہی شخص‘‘۔ ڈاکٹر سید وسیم اختر، ’’میں نے دیکھا ہے سمندر، ایک ندی میں گر گیا‘‘۔ ڈاکٹر حسن صہیب مراد
اپنے ابو جی کا خاکہ لکھتے ہیں تو عنوان دیتے ہیں ’’اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے‘‘۔ اور امی جان کو ’’یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے‘‘
ان خاکوں میں ان خوب صورت لوگوں کی خدمات اور یادوں کا محبت کے ساتھ تذکرہ ہے۔ یہ رسمی انداز میں لکھے گئے وہ خاکے نہیں جیسے سبھی لکھنے والے لکھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ خاکے سید وقاص جعفری سے سرزد ہوئے ہیں۔ ان خاکوں میں جہاں رخصت ہوجانے والے ہیں، وہیں زندہ سلامت بھی ہیں، اور بعض ایسے بھی ہیں جن سے وہ کبھی ملے نہیں لیکن ان پر خوب صورت لکھا۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے دامنِ فیض سے جن خوش نصیبوں نے اپنے قلب و نظر کو معطر اور منور کیا ہے سید وقاص جعفری ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں۔ ان کی شخصیت کی مختلف جہات ہیں جن میں دوستی، خلوص، محبت اور ہمدردی کے جوہر میں گندھا ہوا منصوبہ ساز، منتظم، مربی، مقرر اور بہترین لکھنے والا ملتا ہے۔ چہرے پر مسکراہٹ سجائے، نرمی اور ملائمت کے ساتھ زندگی میں عجز و انکسار، تہذیب و شائستگی، نفاست اور خوش سلیقگی کا پرتو جگمگاتا نظر آتا ہے۔
’’وہ لوگ…‘‘ کی طباعت و اشاعت معیاری، مصنف اور پبلشر کے ذوق کی آئینہ دار، عمدہ گیٹ اپ، دیدہ زیب سرورق، شخصیات کی تصاویر پر پنسل ورک سے عمدہ اور معیاری کام، فونٹ اور کمپوزنگ بھی اچھوتی اور نرالی اور کاغذ بھی منفرد۔ سید وقاص جعفری شاعر یا افسانہ نگار ہوتے تو وہ شاعری اور ادب کے افق پر بھی جگمگارہے ہوتے، بہرحال ان کی کتاب ’’وہ لوگ…‘‘ اس قرض کو چکانے کی ایک کامیاب کوشش قرار دی جاسکتی ہے۔ لطف اور حظ تو وہی اٹھا پائے گا جو ’’وہ لوگ‘‘ کا مطالعہ کرے گا۔