کچھ وقت نئی کتابوں کے ساتھ

ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا شمار کثیر التصانیف مصنفوں میں ہوتا ہے۔ وہ بیک وقت محقق، شاعر، سفرنامہ نگار، جیّد نقاد اور دانش ور ہیں۔ شاید ہی کوئی سال ایسا ہو جب وہ علم و ادب کے دامن کو اپنی کسی نہ کسی نئی تصنیف سے کشادہ نہ کرتے ہوں۔ کثیر التصانیف مصنفوں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ محض مصنف کہلانے کے شوق میں روشنائی اور کاغذ کا زیاں کرتے ہیں۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا معاملہ دوسروں سے مختلف ہے۔ ان کی کتاب خواہ کسی موضوع پر ہو، اردو زبان و ادب میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ ان کی کتاب کے مطالعے سے قاری کا علم بڑھتا ہے، ذہن نئی معلومات سے آراستہ ہوتا ہے، احساسات کو توانائی ملتی ہے۔ وہ کسی نہ کسی عہدے و منصب پر براجمان ہونے کے باعث انتظامی مصروفیات میں گھرے ہوتے ہیں، لیکن یہ مصروفیتیں انھیں کتب بینی اور کتب سازی کے شوق و ذوق سے باز نہیں رکھتیں بلکہ اور مہمیز دیتی ہیں۔ اس وقت میرے سامنے اُن کی دو کتابیں ہیں، ایک تو اُن کی نظموں کا مجموعہ ’’آتے دنوں میں گم‘‘ اور دوسری ان کی تحقیقی مشقت کا نمونہ ’’قومی جدوجہد کی منظوم تاریخ‘‘۔ یہ کتاب مولانا ظفر علی خان کے کلام کے مجموعے اور ان کے اشاریے پر مبنی ہے۔

تحقیق اور شاعری میں کوئی آپسی تال میل نہیں۔ تحقیق ایک خشک اور عقل و منطق سے جڑی مشقت ہے۔ اس کے برعکس شاعری تخیل اور احساسات و جذبات سے تعلق رکھتی ہے، لیکن یہ دونوں اصناف ایک دوسرے کی ضد ہونے کے باوجود اردو ادب میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ جو محقق تھے وہ شاعر بھی اچھے تھے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر بھی ایک ایسی ہی روح کے حامل ہیں کہ جہاں وہ تحقیق کے خشک اور تپتے صحرا میں آبلہ پائی کرتے اور نت نئے حقائق کا سراغ لگانے میں کامیاب نظر آتے ہیں، وہیں شاعری کے ذریعے اپنے باطن کا سراغ دیتے اور احساسات و جذبات کو نئی کیفیات سے آمیز بھی کرتے ہیں۔ ’’آتے دنوں میں گم‘‘ میں جو نظمیں شامل ہیں انہیں سراہنے کے لیے کتاب میں خورشید رضوی، امجد اسلام امجد، جمیل یوسف اور ڈاکٹر سعادت سعید کے مضامین بھی موجود ہیں، جب کہ بیک کور افتخار عارف کی توصیفی آرا سے مزین ہے۔ اتنے جیّد اساتذہ کی آرا کے بعد مزید کسی تعریف و توصیف کی ضرورت باقی نہیں رہتی، لیکن پھر بھی اتنا کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ یہ نظمیں ایک نئے ذائقے کی حامل ہیں۔ نظموں کے مصرعوں میں ایک بہائو اور روانی کا ایسا عالم ہے جیسے کسی منہ زور ندی کی موجیں، جو پورے زور وشور سے بہتی چلی جا رہی ہیں۔ ہر رکاوٹ کو کاٹ کر اور ہر دشواری کو عبور کرکے احساسات و جذبات کو جل تھل کردیتی ہیں۔

بہت جلدی میں تم نے فیصلہ اپنا سنایا ہے
ابھی تو موسموں کی ڈالیوں پر پھول کھِلنا تھے
ابھی تو ابر کو چاروں طرف سے گھِر کے آنا تھا
ابھی کچھ حرف تھے جو لفظ کی صورت کو تکتے تھے
ابھی تو عمر کے بادل سرِ صحراچمکتے تھے
یہ تم نے کیا کیا؟
جلدی میں ایسا فیصلہ اور یوں

افتخار عارف کے بہ قول صاحبِ دل تخلیق کار کی جانب سے یہ نظمیہ پیش کش‘ کچھ رومانوی، جذباتی اور محبت کی واردات کے بیان کی نظمیں ہیں اور کچھ دل کے قریب رشتوں اور جذبوں کی دل آویز یادوں کا احوال بھی… اور اس میں بھلا کیا شبہ ہے کہ یہ دل آویز یادوں کا احوال ڈاکٹر زاہد منیر کی نظموں میں آکر زندہ جاوید ہوگیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگر شاعر موصوف ایسی ہی من موہنی نظمیں لکھتے رہے تو ان کا شمار اردو کے قابلِ ذکر نظم نگاروں میں ہوگا۔

ڈاکٹر زاہد منیر عامر کو جاننے والے یہ حقیقت بھی جانتے ہوں گے کہ ان کے عشق کا اوّلین مظہر مولانا ظفر علی خان کی ذاتِ والا صفات، ان کی شاعری اور صحافت رہی ہے۔ مولانا پر وہ اب تک متعدد کتابیں تصنیف کرچکے ہیں لیکن ان کا عشق چین نہیں لینے دیتا اور وہ کسی نہ کسی پہلو سے مولانا پر مزید کچھ نہ کچھ لکھنے کا بہانہ ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ ’’قومی جدوجہد کی منظوم تاریخ‘‘ میں ان کی معاونت حافظ محمد سعد عبداللہ نے کی ہے، چنانچہ ان کے نامِ نامی اسمِ گرامی سے کتاب کا سرورق مزین ہے۔ 1104 صفحات پر مشتمل یہ تحقیقی کتاب مولانا ظفر علی خان کے کلام سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے نہایت مفید ہے، کیوں کہ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مولانا ظفر علی خان کے بہت سے اشعار کو یار لوگ علامہ اقبال سے منسوب کردیتے ہیں۔ اس اشاریے سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ کون سا شعر مولانا ظفر علی خان کا ہے اور کون سا نہیں۔ جیسا کہ خالد محمود نے لکھا ہے کہ کتاب کی افادیت یہ بھی ہے کہ اگر آپ کو مولانا کے شعر کا ایک مصرع بھی معلوم ہے تو یہ کتاب آپ کو اس کے دوسرے مصرعے، مولانا کی اس نظم، اس کتاب اور صفحے تک پہنچا دے گی جہاں آپ پورا شعر بلکہ وہ پوری نظم دیکھ سکتے ہیں۔ پھر یہ اشاریہ‘ کلامِ ظفر علی خان کی کسی ایک اشاعت تک محدود نہیں، بلکہ ان کے کلام کے اب تک جتنے مجموعے شائع ہوئے ہیں، یہ اشاریہ ان سب کا احاطہ کرتا ہے۔

ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی نظموں کی مذکورہ کتاب علامہ عبدالستار عاصم کے مکتبے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل سے شائع ہوئی ہے اور نہایت سلیقے اور دیدہ زیب طریقے سے چھپی ہے، جس پر علامہ صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ جب کہ ’’قومی جدوجہد کی منظوم تاریخ‘‘ کو دو اداروں نے مل کر چھاپا ہے، اور یہ ادارے ہیں مولانا ظفر علی خان فائونڈیشن اور ادارہ تالیف و ترجمہ پنجاب یونیورسٹی۔ کتاب کی کمپوزنگ اور طباعت عمدہ اور سرورق دیدہ زیب ہے۔

’’اقبالیات، ادبیات، تاثرات‘‘
کون ہوگا جسے اقبالیات سے دل چسپی ہو اور وہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے واقف نہ ہو! آپ علامہ اقبال پر کچھ نہیں تو کم از کم دو درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’اقبالیات، ادبیات، تاثرات‘‘ بھی تقریباً اقبال ہی کے بارے میں ڈاکٹر ہاشمی کے خیالات و افکار پر مبنی ہے۔ وہ افکار و خیالات جو انھوں نے کسی اخبار یا رسالے کو دیے گئے انٹرویو میں ظاہر کیے۔ اس کتاب کو ’’ترجمان القرآن‘‘ کے نائب مدیر اور دانش ور سلیم منصور خالد نے مرتب کیا ہے لیکن سرورق اور اندرونی سرورق پر ان کا نام موجود نہیں ہے۔ اس کا سراغ ’’گزارشات‘‘ کے عنوان سے جو دو صفحے انھوں نے تحریر کیے ہیں، ان سے ملتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر تحسین فراقی کے انٹرویوز کا مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے جسے راقم الحروف ہی نے مرتب کیا تھا لیکن ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی کتاب ان معنوں میں مختلف اور منفرد ہے کہ اس میں موضوع حکیم الامت ہیں اور ان سے ڈاکٹر ہاشمی کی علمی و ادبی دل چسپی کی تفصیلات ہیں۔ کتاب کا ایک حصہ ’’یادیں‘‘ کے عنوان سے اُن ادبی و علمی شخصیات کی بابت ہے جن سے ڈاکٹر ہاشمی کے مراسم و تعلقات رہے۔ یہ بھی سوال و جواب کی صورت میں ہے۔ کسی انٹرویو سے اخذ کیا گیا یہ مواد پڑھنے والوں کے لیے بہت دل چسپ اور معلومات افزا ہے۔ کتاب قلم فائونڈیشن کے زیر اہتمام چھپی ہے اور نفاست سے چھپی ہے۔

’’محمد حسن عسکری کا تصورِ انسان اور آدمی‘‘
(اردو غزل کے تناظر میں)
محمد حسن عسکری اردو کے سب سے اہم اور سب سے متنازع نقاد گزرے ہیں۔ ان کا مضمون ’’انسان اور آدمی‘‘ برسوں پہلے اردو ادب و تنقید میں سنجیدہ بحث و مباحثے کا موضوع بن چکا تھا۔ سلیم احمد نے عسکری صاحب کے انتقال کے بعد ان پر جو کتاب لکھی اس کا بھی عنوان یہی تھا ’’محمد حسن عسکری انسان یا آدمی‘‘۔ اس سے عسکری مرحوم کے مضمون کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

قیصر عالم اردو تنقید کا نیا نام سہی، لیکن اس نام سے ہم سب کی بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ زیر نظر کتاب کا عسکری کی فکر اور ان کے متذکرہ مضمون سے کیا تعلق ہے؟ اس کا جواب قیصر عالم ہی سے سنیے:

’’میں نے فیصلہ کیا کہ انسان اور آدمی کے اس تصور کی بازیافت کی جائے جو حسن عسکری نے 65 سال پہلے پیش کیا تھا اور جسے ہمارے ادبی حلقوں نے سرد خانے میں ڈال کر ایک ایسا اجنبی ادب پیدا کیا جس کا ہماری روایت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اردو غزل کی اس تین سو سالہ سوانح میں‘ مَیں نے کوشش کی ہے کہ متقدمین، متوسطین اور متاخرین غزل گو شعرا کا ایسا انتخاب کروں کہ اسے خاصی حد تک ’’نمائندہ انتخاب‘‘ کہا جاسکے۔ خیال رہے کہ اس مطالعے میں‘ مَیں نے ان شعرا کے صرف وہ اشعار شامل کیے ہیں جن میں ’’انسان‘‘ یا ’’آدمی‘‘ کا تصور مترشح ہوتا ہے۔‘‘
قیصر عالم کی یہ کتاب اردو غزل کا ایک نئی جہت سے مطالعہ پیش کرتی ہے۔ جس جانفشانی اور ذہانت سے انھوں نے اردو غزل گو شعرا کی تخلیق کا تجزیہ پیش کیا ہے، وہ غور طلب ہی نہیں‘ اردو تنقید کے دامن کو بھی کشادہ کرتا ہے۔