حقوق ملاکنڈ تحریک:جلسہ عام سے سراج الحق، امیر جماعت اسلامی پاکستان کا خطاب

جماعت اسلامی گزشتہ کئی ماہ سے صوبے کے سب سے بڑے انتظامی ڈویژن ملاکنڈ کو درپیش مسائل کے حوالے سے ایک منظم اور بھرپور ’’حقوق ملاکنڈ‘‘ احتجاجی تحریک چلا رہی ہے جس کا مقصد صوبے کے اس بڑے ڈویژن کے بے پناہ مسائل کی جانب مسندِ اقتدار پر براجمان حکمرانوں کو توجہ دلانا ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں ملاکنڈ ڈویژن کے تقریباً تمام اضلاع کے سنگم پر واقع چکدرہ انٹرچینج پر ایک بڑا ’’حقوق ملاکنڈ‘‘ جلسہ عام منعقد ہوا جس سے جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر سراج الحق کے علاوہ صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان، جنرل سیکرٹری عبدالواسع، رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی، سابق رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ، نائب امیر اور سابق سینئر صوبائی وزیر عنایت اللہ خان اور دیگر مقررین نے خطاب کیا۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے ایک بڑے ’’حقوق ملاکنڈ‘‘ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پورا ملک اس وقت بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے۔ خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں خودکش دھماکے ہورہے ہیں۔ مساجد، بازار، جلسے، مدارس غیر محفوظ ہیں۔ پی ٹی آئی کے دس سالہ دور میں خیبر پختون خوا میں کوئی ترقی نہیں ہوئی، اب بھی صوبے میں ریکارڈ کرپشن جاری ہے، ان حکمرانوں کے ہوتے ہوئے ملک کا جغرافیہ اور کلچر محفوظ نہیں۔ یہ کرپٹ لوگ ہیں، انھوں نے آف شور کمپنیاں بناکر بیرونِ ملک جائدادیں اور محلات خریدے، اپنے شہزادوں اور شہزادیوں کا مستقبل محفوظ اور قوم کے بچوں کا مستقبل تباہ کیا، ان کے نام قرضہ معاف کرانے والوں کی فہرستوں اور نیب کی فائلوں میں ہیں، پاناما لیکس اور پنڈورا پیپرز میں ان کی ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کی داستانیں ہیں، یہی لوگ حرام کی دولت کی بنا پر اسمبلیوں میں جاتے ہیں اور پھر لوٹ مار شروع کردیتے ہیں، ملک کے تمام ادارے ان کا احتساب کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ حکمران طبقہ 17ارب ڈالرسالانہ کی مراعات وصول کررہا ہے جبکہ عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان ہے، بدامنی سے پوری قوم متاثر ہے، حکمران بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور سرکاری سیکورٹی میں محلات میں مقیم ہیں۔ مہنگائی کے خلاف جلسے کرنے اور جلوس نکالنے والی جماعتیں حکومت میں آکر خاموش ہیں۔ امریکہ، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے غلاموں کا نظام 100 سال رہے تو بھی پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔ جماعت اسلامی نے مالاکنڈ سمیت پاکستان بھر کے عوام کو بیدار کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا ہے۔ اس ملک کو پُرامن جمہوری انقلاب کی ضرورت ہے، عوام جماعت اسلامی کو موقع دیں تاکہ قرآن و سنت کا نظام ملک میں نافذ ہو اور حقیقی معنوں میں پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے، نوجوان مایوسی کے بجائے اسلامی جمہوری اور پروگریسو جماعت کا حصہ بنیں اور ووٹ کی طاقت کے ذریعے نااہل حکمرانوں سے انتقام لیں، اب جماعت اسلامی ہی واحد آپشن ہے۔

امیر جماعت نے کہا کہ سابقہ حکومت نے ملاکنڈ ڈویژن کی ترقی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، علاقے میں سی پیک روٹ، اکنامک اور انڈسٹریل زونز قائم کرنے کے وعدے بھلا دیے گئے۔ 45 میگا واٹ کے کوٹو ہائیڈرو پراجیکٹ کی 2019ء میں تکمیل ہونی تھی، یہ منصوبہ اب تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ ملاکنڈ اور چترال سے افغانستان اور تاجکستان تک بارڈر تجارت کے فروغ کے لیے 9 پوائنٹس کی نشاندہی ہوئی، ایک بھی نہیں بنا، یہ روٹ صرف کاغذوں میں ہے۔ ملاکنڈ تھری منصوبے سے حکومت ڈھائی روپے یونٹ بجلی خرید کر 26روپے فی یونٹ عوام کو فروخت کرتی ہے، ملاکنڈ ڈویژن سے پیدا ہونے والی بجلی یہاں کے لوگوں کو دی جائے تو علاقے میں لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے۔ واپڈا کے ملازمین اور افسران کے گھروں میں عوام کے پیسوں سے مفت بجلی دی جاتی ہے۔ 90 لاکھ آبادی اور 9اضلاع پر مشتمل ملاکنڈ ڈویژن خیبرپختون خوا کا سب سے بڑا ڈویژن ہے، یہاں دو ڈویژن بنائے جائیں۔ یہ علاقہ وسائل اور معدنیات سے مالامال ہے، مگر یہاں سب سے زیادہ غربت ہے، ملاکنڈ علاقے کے سب سے زیادہ اوورسیز پاکستانی ہیں جن کی دیگر بیرونِ ملک پاکستانیوں کی طرح پاکستان میں موجود جائدادیں اور بچے محفوظ نہیں۔ اقتدار میں آکر اوورسیز پاکستانیوں کے لیے الگ بستیاں قائم کی جائیں گی، ان کے بچوں کے لیے یونیورسٹیاں اور میڈیکل کالج بنائیں گے، ان کے مال اور جان کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کریں گے۔ اوورسیز 31بلین ڈالر کی ترسیلاتِ زر بھیجتے ہیں، مگر ان کو ائیرپورٹس پر حکام کی جانب سے مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے، 6 ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کی غلامی قبول کرلی گئی، جبکہ محسنینِ پاکستان کو ذلیل کیا جا رہا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اوورسیز کے تمام مسائل حل کیے جائیں۔ سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی کو اقتدار ملا تو ہم ملک کو سود فری بنائیں گے، وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کریں گے، مساجد و ائمہ کرام کو سرکاری سطح پر تنخواہ دی جائے گی۔ مسائل کا حل صرف جماعت اسلامی ہے جس کے پاس کرپشن سے پاک اہل قیادت ہے، ملک میں شفاف انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی حیران کن نتائج دے گی۔

واضح رہے کہ ملاکنڈ ڈویژن کا شمار خیبر پختون خوا کے سب سے بڑے ڈویژنز میں ہوتا ہے۔ یہ ڈویژن نہ صرف رقبے اور اضلاع کی تعداد کے لحاظ سے سب سے بڑا بلکہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کے لحاظ سے بھی دیگر ڈویژنز سے بڑا ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن جو کہ اپر چترال، لوئرچترال، دیر بالا، دیر پائیں، باجوڑ، سوات، ملاکنڈ، شانگلہ اور بونیر کے 9 اضلاع پر مشتمل ہے، اس کی صوبائی اسمبلی میں 27 جبکہ قومی اسمبلی میں 12نشستیںہیں۔ اسی طرح یہ خیبر پختون خواکا واحد ڈویژن ہے جس کی سرحد اگر ایک طرف گلگت بلتستان سے لگی ہوئی ہے تودوسری جانب دیر، باجوڑ اور چترال کے ذریعے اس کی سرحد افغانستان، چین اور بالواسطہ طور پر واخان کی پٹی کے توسط سے وسطی ایشیائی ملک تاجکستان سے بھی ملی ہوئی ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن پہاڑوں، سرسبز و شاداب وادیوں، دریائوں، جھیلوں، آبشاروں، خوبصورت چشموں اور ندی نالوں کے ساتھ ساتھ قدرتی جنگلات کی سرزمین ہے جس کا شمار سیاحت کے لحاظ سے پاکستان کے خوبصورت ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ دلکش قدرتی مناظر کے ساتھ ساتھ یہاں بدھا تہذیب کے آثار اور والیِ سوات، نواب آف دیر اور مہتر چترال کے ادوار کے آثار قدیمہ بھی خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ملاکنڈ کی ایک اور خاص بات اس خطے کے لاکھوں افراد کا روزگار کے لیے بیرون ملک مقیم ہونا ہے جن کی تعداد پاکستان کے کسی بھی ڈویژن سے سب سے زیادہ ہے۔ یہ تارکینِ وطن جہاں اپنے خاندانوں کی کفالت میں ہاتھ بٹھا رہے ہیں وہاں ان کا بھیجا جانے والا کثیر زرمبادلہ ملک کی معیشت کی بہتری میں بھی اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ملاکنڈ صوبے کا سب سے بڑا ڈویژن ہونے کے باوجود جہاں تعلیم، صحت، انفرااسٹرکچر اور دیگر سہولیات کے حوالے سے خاصا پسماندہ ہے وہاں امن و امان کے لحاظ سے بھی پچھلی دو دہائیوں سے متاثر چلا آرہا ہے۔ سوات، دیر، بونیر، ملاکنڈ، شانگلہ اور باجوڑ کے اضلاع بدامنی کے شکار رہے ہیں، لہٰذا اسی نسبت سے یہاں فوجی آپریشن بھی سب سے زیادہ ہوئے ہیں جس کا براہِ راست اثر عام لوگوں کی زندگیوں پر پڑتا رہا ہے۔

ملاکنڈ میں جہاں زراعت، باغ بانی، گلہ بانی اور سیاحت کا بے پناہ پوٹینشل موجود ہے وہاں تھوڑی سی توجہ اور منصوبہ بندی سے یہ علاقہ بجلی کی پیداوار کے سلسلے میں بھی صوبے کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی ضروریات پوری کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو بجلی کی پیداوار کا اختیار ملنے کے بعد اگر صوبائی حکومت ملاکنڈ ڈویژن میں بجلی کے چھوٹے اور درمیانے درجے کی پیداوار کے ذرائع سے استفادہ کرے تو اس سے نہ صرف صوبے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بحران پرقابو پایا جاسکتا ہے بلکہ بجلی کی اس پیداوار سے ہونے والی آمدنی کو صوبے کی مجموعی تعمیر اور ترقی کے لیے بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ بجلی کی پیداوار کے علاوہ ملاکنڈکا دوسرا بڑا پوٹینشل سیاحت کا فروغ ہے۔ سیاحت کی بنیادی ضرورت امن و امان کو یقینی بنانے کے علاوہ سیاحوں کو درکار دیگر سہولیات کی ترجیحی بنیادوں پر فراہمی ہے جس میں اہم ترین نکتہ سڑکوں کی معیاری سہولیات کے ساتھ ساتھ سیاحتی مقامات پر رہائش، خوراک، موبائل فون اور انٹرنیٹ پر مشتمل کمیونیکیشن کی جدید سہولیات کی فراہمی اہمیت کی حامل ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ سیاحت کے لیے مشہور ملاکنڈ ڈویژن میں صرف ایک چھوٹے درجے کا ائیر پورٹ ہے، وہ بھی عرصۂ دراز سے غیرفعال ہے۔ سوات کے اس ائیرپورٹ کو جدید سہولیات اور وسعت کے ذریعے جہاں پورے ملاکنڈ ڈویژن کے بیرون ملک مقیم لاکھوں شہریوں کی آسان نقل و حمل کے لیے بروئے کار لایا جا سکتا ہے وہاں اس ائیرپورٹ کو سارے ڈویژن میں سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بھی ایک اہم عامل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے، حتیٰ کہ یہاں سے چترال،کالام، مالم جبہ، بشام، بونیر، کمراٹ وغیرہ کے سیاحتی مقامات کے لیے پسنجر ہیلی کاپٹر سروس بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔ سوات ائیرپورٹ کی فعالیت سے اگر ایک طرف کراچی، لاہور، اسلام آباد اور کوئٹہ کے سیاحوں کو آمدو رفت میں آسانی ہوگی وہاں دوسری جانب بیرونِ ملک سے بھی سیاحوں کی بڑی تعداد میںآمدو رفت کے مواقع پیدا ہوں گے۔

جہاں تک سیاسی منظرنامے کا تعلق ہے اس حوالے سے بھی ملاکنڈ بالعموم صوبے کی مجموعی سیاسی پوزیشن کی عکاسی کرتا رہا ہے، بلکہ اگر اسے صوبے کے سیاسی بیرومیٹر سے تعبیر کیا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔ یہاں صوبے کے بعض ڈویژنز کے برعکس ہمیشہ ملا جلا سیاسی رجحان دیکھنے کو ملتا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے سیاسی مستقبل کے بارے میں کچھ بھی یقینی طور پر کہنا مشکل ہوتا ہے۔ یہاں پر اے این پی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن)، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کسی نہ کسی حیثیت میں اپنا وجود منواتی رہی ہیں، البتہ جنوبی اضلاع کے برعکس جمعیت (ف) کو ایم ایم اے دور کے سوا یہاں کبھی بھی کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی ہے، البتہ اس کے برعکس جماعت اسلامی یہاں سے مختلف انتخابات میں صوبے کے دیگر علاقوں کی نسبت ہمیشہ کامیابی حاصل کرتی رہی ہے جس کی نمایاں مثال 2018ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی مجموعی طور پر بدترین ناکامی کے باوجود اس کے قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست پر کامیاب ہونے والے ارکان کا تعلق ملاکنڈ ڈویژن سے تھا، جبکہ اسی طرح ضم شدہ قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے پہلے انتخابات میں بھی جماعت اسلامی کو ملنے والی واحد نشست کا تعلق ملاکنڈ ڈویژن کے ضلع باجوڑ سے تھا۔

حرفِ آخر یہ کہ درج بالا تجاویز کے ساتھ ساتھ اگر ملاکنڈ کی وسعت اور اضلاع کی تعداد کو پیش نظر رکھتے ہوئے جماعت اسلامی کے ’’حقوق ملاکنڈ ڈویژن‘‘ کے جلسہ عام کے مطالبے کی روشنی میں اسے دو ڈویژن میں تقسیم کیا جائے تو اس سے بھی اس ڈویژن کے انتظامی مسائل بہت حدتک حل ہوسکتے ہیں، نیز اگر یہاں کی پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کم ازکم اگلے پانچ سالوں تک اسے ٹیکسوں سے چھوٹ دی جائے تو اس سے بھی اس پسماندہ علاقے کی تعمیر و ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔