ابتدائی تحقیقات ہی متنازع بنا دی گئیں
قیامت برپا ہونے سے متعلق مختلف پروگرامات، کتابوں، ناولوں، اخبارات میں اسلامک اسکالرز کے مضامین پڑھے ہیں لیکن ماہِ اگست کے اوائل میں چار ٹرین حادثات کا یکے بعد دیگرے ہونا، خاص طور پر سانحہ سرہاری قیامتِ صغریٰ کے طور پر سامنے آیا ہے جب نواب شاہ سے 20 کلومیٹر دور سرہاری ریلوے اسٹیشن کے نزدیک کراچی سے حویلیاں جانے والی ہزارہ ایکسپریس ٹرین کی 10 بوگیاں پٹری سے اتر گئیں جس کے نتیجے میں 38 مسافر جاں بحق اور سو سے زائد شدید زخمی ہوگئے۔ سرکاری سطح پر زخمیوں اور ہلاک شدگان کی فہرست بھی جاری کردی گئی ہے اور حکومتِ سندھ کی جانب سے ہلاک شدگان کے لیے فی کس دس دس لاکھ، جبکہ زخمیوں کے لیے پانچ پانچ لاکھ روپے کے اعلانات کردئیے گئے ہیں۔ اگرچہ پندرہ سال سے سندھ پر مسلط حکمرانوں نے سول اسپتال کی میت سے چادر اتاری تو اس ڈھانچے میں زخمیوں کے لیے کسی قسم کی سہولیات نہیں تھیں جسے میڈیا نے اجاگر کیا۔ شہریوں کی بڑی تعداد ایمرجنسی نافذ ہونے والے سول اسپتال میں آئی تو سول اسپتال کے عملے کی ٹانگیں کانپنے کا منظر پیش کررہی تھیں۔ نتیجے کے طور پر چیخ پکار، سسکیاں، ایمبولینس سروس کے سائرن، اسپتالوں میں ایمرجنسی، قریب کے گاؤں دیہات سے بڑی آبادی امدادی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل دکھائی دی۔ گزشتہ سال اسی سرہاری ریلوے اسٹیشن کے قریب پٹریوں پر بم دھماکا کرکے انہیں اڑا دیا گیا تھا اور ریلوے ٹریک 24سے زائد گھنٹے کے لیے بند کردیا گیا تھا۔ ریلوے کی پٹریوں کو سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گزشتہ سال جب اسی مقام پر پٹریوں کو نقصان پیش آیا تو کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں، لیکن مکمل تحقیقات ہوسکیں اور نہ ہی گرفتار افراد کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکا۔ اِس بار بھی حادثے سے دو روز قبل وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق کا بیان بہت حیران کن ہے، انھوں نے کہا کہ ہماری حکومت کے ختم ہونے سے قبل کوئی حادثہ یا دہشت گردی کا واقعہ پیش نہ آجائے۔ بدقسمتی سے انھوں نے اپنی نااہلی پر سے خود پردہ ہٹادیا اور یہ کہتے ہوئے انھیں شرم تک نہیں آئی کہ پاکستان ریلوے کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ انھوں نے قوم کو نوید سنائی کہ اس ٹریک پر چین کے ساتھ مختلف نوعیت کے معاہدے ہوچکے ہیں جو نگران حکومت کے ساتھ مل کر پایہ تکمیل تک پہنچائے جائیں گے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے۔ ابھی چند روز قبل پنجاب کے افسران کو اعلیٰ گاڑیاں کس کھاتے میں دی گئیں؟ اگر وسائل دستیاب نہیں ہیں تو پھر ان افسران کو نوازنے کا صاف مطلب عام انتخابات میں من پسند نتائج کا حصول ہے جو سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔ واقعے کے بعد وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ بھی ہوسکتا ہے اور فنی خرابی کا بھی۔ ہمارے مذکورہ وفاقی وزیر اتنے نااہل ہیں کہ انھیں ایک سال قبل کا واقعہ رپورٹ ہوا نظر ہی نہیں آیا۔ انھیں سال 2019ء سے بتایا جارہا ہے کہ یہ ٹریک انتہائی مخدوش ہوچکا ہے۔ آخر انھیں انتخابات کے نزدیک آتے ہی حادثات اور ملک میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا خیال کیوں تنگ کرنے لگتا ہے؟ درحقیقت یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت کیا جاتا ہے۔ یہاں سابق آرمی چیف کا بیان بھی یکسر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ”را“ پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کو سالانہ ایک ارب روپے سے زائد کی خطیر رقم اپنے مذموم مقاصد کے لیے دیتی ہے۔ اب خواجہ سعد رفیق کے بیان پر دوبارہ روشنی ڈالتے ہیں کہ دہشت گردی یا فنی خرابی کہہ کر اصل مقاصد سے نظر ہٹائی جاتی ہے، اور ایسے واقعات سے حکومت اپنے وہ اہداف حاصل کرلیتی ہے جن پر عوام کی سوچ تک نہیں جاتی۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ٹرین حادثے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والے مسافروں کی انشورنس کی مد میں امداد خطرے میں پڑ گئی۔ 4ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود چیف مارکیٹنگ منیجر آفس کی جانب سے انشورنس کمپنی کے ساتھ معاہدہ طے نہ کیا جا سکا۔ ریلوے حکام کی جانب سے ٹکٹوں میں انشورنس کے پیسے لینے کے باوجود انشورنس معاہدہ طے نہیں پا سکا ہے۔ اس طرح حادثے میں جاں بحق افراد کو فی کس 15لاکھ اور زخمیوں کی انشورنس کی مد میں امداد رک گئی ہے۔
سرہاری ٹرین حادثے میں ٹنڈوآدم کے 11 مسافروں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوئی تھی۔ جاں بحق افراد میں 5 خواتین بھی شامل ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں جاں بحق 8 افراد کی نماز جنازہ ادا کردی گئی جس میں سیکڑوں شہریوں نے شرکت کی۔ ہلاک شدگان میں سعیدہ خلیجی، رضیہ زوجہ عبدالرزاق، عبدالرزاق ولد عبداللہ، انیق زوجہ لالو، واسو ولد نتھوِ، زبیدہ زوجہ محمد اصغر، محمد اسحاق ولد جمال الدین، سعالین زوجہ گلاب، محمد کاشف ولد ملک محمد اسماعیل، محمد آصف شیخ، صغرا زوجہ منظور علی۔ جبکہ دیگر ہلاک شدگان کو ان کے آبائی علاقوں میں پہنچا دیا گیا ہے۔
اب پاکستان ریلوے کی انتظامیہ کی جانب سے عوامی غیظ و غضب کا شکار ہونے سے بچنے کے لیے فوری طور پر حارثے کے مقام upٹریک کا 500 فٹ کا نیا ٹریک ڈالا جارہا ہے۔ حقائق اس طرح بھی مسخ نہیں ہوسکتے کہ ریلوے حکام یہ کہہ کر جان چھڑا لیں کہ حادثے کے وقت ٹرین کی رفتار 45 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی اور انجن بوگیوں سے الگ ہوگیا تھا۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو اتنی کم رفتار میں 10 بوگیوں کا ٹریک سے اتر جانا انتہائی تشویشناک عمل ہے۔ ماہرینِ ریل اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں، بلکہ ریلوے ٹریک کے ناقص انتظامات نے پاکستان ریلوے کا پول کھول دیا ہے کہ ریل کی لائن کو لکڑی کے ٹکڑے سے جوڑ کر قابلِ استعمال بنایا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لکڑی کے ٹکڑے کا دو پٹریوں سے الگ ہونا حادثے کی وجہ نہیں ہے، اور نہ ہی پاکستان ریلوے لکڑی کے ٹکڑے لگا کر کوئی بہت بڑی بچت کرسکتی ہے، بلکہ اس ٹکڑے کے درمیان میں ربڑ کا ایک ٹکڑا رکھا جاتا ہے جو سگنل فری کا کام کرتا ہے، یعنی جیسے ہی ریل اگلی پٹریوں پر جائے گی تو اس کا سنسر بھی اگلی پٹریوں پر منتقل ہوتا چلا جائے گا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ریل کی پٹری کو لکڑی کے ٹکڑے کے ساتھ جوائنٹ کیا گیا تھا اور یہی وجہِ حادثہ ہے، درست نہیں ہے۔ یہ سطور لکھے جانے تک وجوہات مکمل طور پر سامنے نہیں آئیں، اور جب تک کوئی بڑی وجہ سامنے نہیں آتی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
ابتدائی رپورٹ ہی متنازع بن گئی
سرہاری ٹرین حادثے کی جوائنٹ سرٹیفکیٹ رپورٹ لاہور ریلوے ہیڈ کوارٹر کو موصول ہوگئی۔ رپورٹ میں شعبہ سول اور شعبہ مکینکل کی نااہلی حادثے کی وجہ قرار دی گئی ہے۔ حادثے میں تخریب کاری کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ جوائنٹ سرٹیفکیٹ میں حادثے کی وجہ پٹری کا ٹوٹنا اور فش پلیٹ شامل نہ ہونا بتائی گئی ہے، جبکہ ٹرین انجن، وہیل اور ٹریک میں خرابی بھی حادثے کی وجوہات میں شامل ہیں۔
ریلوے کے شعبہ سول اور شعبہ مکینکل نے حادثے کی ذمہ داری لینے سے انکار کردیا ہے۔ دونوں شعبوں نے حادثے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال دی۔
حادثے کا شکار ٹرین انجن کے وہیل ڈینج پائے گئے ہیں۔
کراچی سے حویلیاں جانے والی ہزارہ ایکسپریس ٹرین کو پیش آنے والے حادثے کی ممکنہ وجوہات سامنے آرہی ہیں۔ ہزارہ ایکسپریس کو حادثہ ممکنہ طور پر ٹریک کے نٹ بولٹ کھولے جانے کے باعث پیش آیا، جائے حادثہ سے لی گئی تصاویر کے مطابق ممکنہ طور پر ٹرین الٹنے سے پہلے ٹریک کے نٹ بولٹ کھول دیئے گئے جس سے ٹرین کے انجن کے فوری بعد منسلک پہلی بوگی جام ہوگئی جس کے بعد دیگر نو بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔ اکھڑا ہوا ٹریک حادثے کی تحقیقات کرنے والے اداروں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ ریلوے ذرائع کے مطابق ٹریک پر چھوٹے پل (کلورٹ) کے بیٹھ جانے کے شواہد نہیں ملے۔ امدادی کاموں کے لیے لائی گئی ریلیف ٹرین کو کلورٹ پر ہی کھڑا کیا گیا۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق حادثے کے بعد ٹرین کے گھسٹنے کے شواہد بھی نہیں ملے، تمام ڈبے ایک ہی جگہ پر پٹری سے اترے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہر حادثے کو قدرتی حادثہ قرار دے کر کرپشن چھپائی جاتی رہے گی؟
اس واقعے پر شہریوں نے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس المناک حادثے نے کئی گھر اجاڑے ہیں، کئی معصوم بچوں کو یتیم بنایا ہے، اس پر صرف افسوس کرنا ناکافی ہے۔ یہ کرپشن کا ثبوت ہے۔ نواب شاہ ٹرین حادثہ حکومت کی کرپشن کا نتیجہ ہے، ٹرین حادثہ قدرتی حادثہ نہیں بلکہ یہ نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے ہوا ہے۔ شہید ہونے والوں کے قتل کی FIR وزیر ریلوے اور DS ریلوے سکھرکے خلاف درج کی جائے، اور ان کے قریب جو بھی ملازمین کام کرتے ہیں سب کو پکڑا جائے اور کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
جائے وقوعہ پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اپنے شاہانہ پروٹوکول کے ساتھ پہنچے تو متاثرین ہزارہ ایکسپریس کی نفرت نے انھیں واپس جانے پر مجبور کردیا۔ متاثرین نے سندھ کے حکمرانوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے عوام پندرہ سال سے پیپلز پارٹی کے غیظ و غضب کا شکار ہیں، سندھ میں بھوک، بدامنی، لاقانوںیت، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے ساتھ ساتھ قتل وغارت گری اور کرپشن عروج پر ہے، اب آپ ہمارے نام پر سیاست چمکانے آگئے ہیں! یہ اب ہونے نہیں دیں گے۔
بہرحال اس افسوسناک سانحے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ ڈالا ہے۔ ان حکمرانوں کا بے لاگ احتساب صرف شفاف انتخابات کے نتیجے میں آنے والی باکردار، ایمان دار، باصلاحیت اور کرپشن سے پاک قیادت ہی کر سکتی ہے، ورنہ ایسے حادثات ملک میں پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور آج تک ان کرداروں کو منظرعام پر نہیں لایا جا سکا۔