آئین ، قانون ،جمہوریت کی پسپائی کا تماشا

انتخابات کا خوف حکمران طبقے پر حاوی ہے

پاکستان میں اس وقت آئین، قانون اور جمہوریت کی حکمرانی بہت پیچھے چلی گئی ہے، اور اس کی ذمہ داری جہاں اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے وہاں خود سیاست دان بھی اس صورت حال کو پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ عام انتخابات وقت پر ہونے کے بارے میں جو شکوک و شبہات تھے اب وہ کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ نئی مردم شماری اور اس کے نتائج کو بنیاد بناکر انتخابات میں کچھ عرصے کے لیے تاخیر دیکھنے کو ملے گی۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نہ صرف نئی مردم شماری کے نتائج ظاہر کیے گئے ہیں بلکہ انتخابات میں تاخیرکا انتظامی اور قانونی نقطہ بھی پیش کردیا گیا ہے۔ اب الیکشن کمیشن کے بقول نئی مردم شماری کے نتائج کے بعد نئے سرے سے حلقہ بندیوں کی تشکیل سمیت دیگر اقدامات کے لیے ہمیں مزید کچھ ماہ درکار ہوں گے۔ کہا جارہا ہے کہ ابتدائی طور پر اگلے برس مارچ میں انتخابات کے انعقاد کا سوچا جارہا ہے، لیکن یہ بھی اُس وقت کے سیاسی حالات پر منحصر ہوگا کہ واقعی انتخابات کا راستہ اختیار کرنا بھی ہے یا نہیں۔ کیونکہ جب تک کسی کو کسی جماعت کے بارے میں مطلوبہ نتائج نہیں ملتے، یا کسی کی مقبولیت کا گراف نہیں گرتا اُس وقت تک انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا۔ پاکستان میں سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچر نہ پہلے کبھی ختم ہوا تھا اور نہ ہی اب ختم ہوا ہے۔ اس وقت ہمارا سیاسی نظام مفلوج ہے، اور جس انداز سے سیاسی زعما پارلیمانی اور جمہوری سیاست کا مذاق اڑا رہے ہیں وہ واقعی سنجیدہ مسئلہ ہے، اس طرح کا طرزعمل اختیار کرکے کیسے جمہوری نظام کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے؟۔

اس سے قبل ہمارے سیاسی مہم جو افراد یا اداروں سمیت آج کی وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن اور دیگر ریاستی اداروں نے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بھی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد صوبائی انتخابات سے گریز کیا اور عدالتی حکم کے باوجود انتخابات نہیں کروائے جاسکے۔ اس طرح وفاقی حکومت نے دو صوبوں میں انتخابات نہ کرواکر آئین شکنی بھی کی ہے۔ کیونکہ کس آئین اور قانون کے تحت ان دونوں صوبوں میں نگران حکومتیں اپنی ذمہ داریاں ادا کررہی ہیں؟ اورکیوں ان نگران حکومتوں کو عبوری حکومت کا درجہ دے دیا گیا ہے؟ یہ سب کچھ جس قانون کے تحت ہوا ہے وہ سب کے سامنے لایا جائے۔ اب کس قانون کے تحت وفاقی نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے اور کیسے اس وفاقی نگران حکومت کو عبوری حکومت کا درجہ دے دیا جائے گا؟ یہی وجہ ہے کہ نگران حکومت یا نگران وزیراعظم کے بارے میں پہلے سے ہی یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ جو بھی آئے گا اسے اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی اور وہی معاشی معاملات کو بھی دیکھے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرعہ فال کسی ماہرِ معیشت کے نام نکلے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر نگران حکومت پروفیشنل لوگوں پر مشتمل ہوئی اور اس کا سربراہ یعنی نگران وزیراعظم بھی ماہرمعیشت ہوا تو پھر انتخابات میں تاخیر کے بعد سیاسی جماعتوں اور بالخصوص موجودہ حکومتی اتحادیوں کو کیا ملے گا؟ ایسا لگتا ہے کہ اگر انتخابات کو ملتوی کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ انتخابات اگلے برس مارچ میں ہوں گے تو اس کا امکان بھی موجود ہے کہ یہ مدت کچھ عرصے کے لیے مزید بڑھ جائے۔ لیکن کیا انتخابات میں تاخیرکے نتیجے میں ہونے والے سیاسی انتشار بڑھے گا، سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کسے پیدا کرسکیں گے؟ کیونکہ خدشہ یہ ہے کہ اگر اِس بار بھی صوبائی اسمبلیوں کی طرز پر انتخابات میں تاخیر ہوتی ہے تو اس سے ملک میں سیاسی محاذ آرائی اور ٹکرائو کا ماحول غالب ہوگا۔ اس کی ذمہ داری بھی حکمرانوں پر ہی ہوگی جو اپنی سیاسی مہم جوئی کی وجہ سے حالات کو اس نہج پر لے آئے ہیں جہاں ان کا سیاسی پلڑا کمزور ہے۔ دلیل یہ دی جارہی ہے کہ ایم کیو ایم سمیت دیگر چھوٹی جماعتوں کو پرانی مردم شماری کے تحت انتخابات میں حصہ لینے پر اعتراض تھا۔ لیکن سب جانتے ہیںکہ ایم کیو ایم کا ریموٹ کنٹرول کون چلاتا ہے اور یہ لوگ کس کے اشارے پر اپنا کندھا کسی کو پیش کرتے ہیں۔

بنیادی طور پر انتخابات میں جو تاخیر کی جارہی ہے اس کا سیاسی پہلو اہم ہے۔ حکمرانوں کو فوری طور پر انتخابات اپنے حق میں نظر نہیں آتے اور انہیں لگتا ہے کہ اگربروقت انتخابات ہوتے ہیں تو اس کا براہِ راست فائدہ عمران خان کو ہوگا اور انہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اسی طرح حکومت کو اندازہ ہے کہ اس وقت اُس کی سیاسی اور معاشی کارکردگی سے لوگ سخت نالاں ہیں۔ بجلی، گیس، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں جو اضافے ہورہے ہیں اور جس خوفناک انداز سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اس سے حکومت بخوبی آگاہ ہے، اور اسے لگتا ہے کہ اگر وقت پر انتخابات ہوتے ہیں تو اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ خود حکومت بھی انتخابات میں تاخیر چاہتی ہے، اور سمجھتی ہے کہ اگر انتخابات کے لیے کچھ وقت اسے مزید مل جائے اور عمران خان کو مزید سخت حالات کا سامنا کرنا پڑے تو اس سے سیاسی فضا اُس کے حق میں ہوسکتی ہے۔ اس لیے اگر انتخابات میں تاخیر ہوتی ہے تو اس کے پیچھے خود حکومت بھی کھڑی ہوگی۔ بظاہر یہی تاثر دیا جارہا ہے کہ ہم انتخابات کے حق میں ہیں اور اگر تاخیر ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔ویسے بھی ایک عمومی رائے یہی ہے کہ جو کچھ بھی یہاں ہورہا ہے اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ اس لیے آج کے جو بھی اچھے یا برے حالات ہیں اس کی بھاری ذمہ داری کا بوجھ اسٹیبلشمنٹ کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ اسلام آباد کے حلقوں میں تین پہلو زیر بحث ہیں:

(1) اگر انتخابات واقعی کروانا پڑے تو انتخابات کے نام پر سلیکشن ہوگا اور وسیع پیمانے پر سیاسی انجینئرنگ کرنا ہوگی تاکہ مطلوبہ نتائج مل سکیں۔

(2) اگر عبوری حکومت بنانی پڑے تو دو پہلوئوں کو سامنے رکھا جائے گا، اوّل مکمل ٹیکنوکریٹ حکومت، اور دوئم نیم سیاسی حکومت جس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی کو ممکن بنایا جاسکے تاکہ اس کو سیاسی ساکھ بھی مل سکے۔ کیونکہ خدشہ یہ ہے کہ اگر لمبے عرصے کے لیے ٹیکنوکریٹ حکومت تشکیل دی گئی تو اس پر سیاسی قوتیں مزاحمت کرسکتی ہیں۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خود نوازشریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت کسی کے فیصلوں کو بھی اسٹیبلشمنٹ میں مؤثر پذیرائی نہیں مل رہی، یہ عمل بھی ان بڑی جماعتوں کے اندر مایوسی کو جنم دے رہا ہے، اور بلاول بھٹو کا یہ بیان کہ آصف زرداری اور نوازشریف ایسے فیصلے کریں جو ان کے لیے اور مریم نواز کے لیے مستقبل کی سیاست میں آسانیاں پیدا کرسکیں۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ بلاول بھٹو سمجھتے ہیں کہ ان کے والد اورنوازشریف ایسی سیاست کررہے ہیں جس کا ان کو یا مریم نواز کو مستقبل کی سیاست میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو توشہ خانہ مقدمے میں تین سال قید، پانچ برس کے لیے نااہلی اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی گئی ہے۔ پاکستان کی کہانی بڑی عجیب ہے جہاں ہمیشہ وزرائے اعظم کو ان مشکل حالات سے گزرنا پڑا ہے۔ عمران خان اس وقت جیل میں ہیں اور امکان ہے کہ آنے والے چند دنوں میں ان کو ضمانت بھی مل سکتی ہے اور ان پر جو مقدمہ قائم کیا گیا ہے بڑی عدالت سے وہ بھی ختم ہوسکتا ہے۔ بہت سے قانونی ماہرین کے بقول جس مقدمے میں عمران خان کو سزا ہوئی ہے وہ بہت حد تک اس سزا کو برقرار نہیں رکھ سکے گا۔کیونکہ جس مقدمے میں سزا ہوئی ہے اس میں بہت مسائل ہیں اور بہت ہی کمزور بنیادوں پر اس مقدمیہ کو کھڑا کیا گیا تھا۔

عمران خان کی گرفتاری غیر متوقع نہیں تھی، پہلے سے ہی کہا جارہا تھا کہ ان کو توشہ خانہ مقدمے میں سزا کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اصل میں توشہ خانہ کا مقدمہ قانونی سے زیادہ سیاسی نوعیت کا ہے اور اس جیسے مقدمات کا سامنا پہلے بھی کئی وزرائے اعظم کرچکے ہیں۔ کیونکہ جب بھی کوئی وزیراعظم کسی قوت کو چیلنج کرتا یا مزاحمت دکھاتا ہے تو اسے ان ہی حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا عام انتخابات سے پہلے عمران خان کا سیاسی بندوبست کرنے کی جو حکمت اختیار کی گئی تھی اسی کو بنیاد بناکر اس پر عمل درآمد کیاجارہا ہے؟ اور ان کو اسی طرح کے مزید مقدمات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے؟ جہاں تک عمران خان کی مقبولیت کا تعلق ہے تو ان کی گرفتاری کے فوری بعد خیبر پختون خوا میں مقامی حکومت کے چیئرمین کی سطح پر جو دو انتخابات ہوئے ہیں اُن پر عمران خان یا پی ٹی آئی کی کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ بدستور اس صوبے میں عمران خان کا جادو چل رہا ہے۔ پی ٹی آئی نے پوری حکمران جماعت کو شکست دی ہے اوراس نتیجے کے بعد فوری طورپر عام انتخابات میں جو تاخیر کی جارہی ہے اس کو اس تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ گرفتار عمران خان آزاد عمران خان سے زیادہ خطرہ ثابت ہوگا اوراس کا ووٹ بینک بھی بڑھ رہا ہے جس کا اعتراف اس کے سیاسی مخالفین بھی کرتے ہیں۔اس لیے جتنا عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا اس کا براہِ راست سیاسی فائدہ مستقبل کی سیاست کے تناظر میں عمران خان کو ہی ہوگا۔کیونکہ جب آپ غیر سیاسی انداز میں عمران خان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کریں گے تو ا س کی قبولیت بھی نہیں ہوگی اور اس سے سیاسی مشکلات بھی بڑھیں گی۔عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس پر عالمی میڈیا میں خوب چرچا ہے۔ یہاں میڈیا کو کنٹرول کرلیا گیا ہے مگر باہر کا میڈیا تو ہمارے ہاتھ میں نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی عدم قبولیت اوراب ان کی گرفتاری پر دنیا کے میڈیا میں ردعمل سامنے آیا ہے۔

اور اگر یہ بات مان لی جائے کہ عام انتخابات اگلے برس مارچ میں ہوں گے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ان کے نتائج بھی ایسے ہی مل سکیں گے جیسے طاقت ور طبقات چاہتے ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ انتخابات کا خوف حکمران طبقے پر حاوی ہے اور ان کو لگتا ہے کہ فوری انتخابات سے ان کا اپنا بوریا بستر گول ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات مخالف قوتیں زیادہ سرگرم نظر آتی ہیں، اور ویسے بھی فیصل واوڈا کے بقول موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس اگلے دس برس کا منصوبہ ہے جو بہت سوچ سمجھ کر تیار کیا گیا ہے۔ فیصل واوڈا کے بیان سے لگتا ہے کہ جو بھی حالات ہوں گے ان میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار واضح اورمضبوط ہوگا۔ ویسے بھی بلاول بھٹو نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی 16ماہ پر مشتمل اتحادی حکومت اداروں کو ان کی حدود میں رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس موقع پر بلاول بھٹو کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ ان کی اپنی جماعت اور دیگر اتحادی جماعتوں نے غیر سیاسی قوتوں کو مضبوط بنانے میں خود کیا کردارادا کیا ہے؟ کیونکہ جو جمہوریت اور سیاسی عمل کمزور ہورہا ہے اس کی وجہ بھی یہی سیاسی جماعتیں ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو مضبوط بنانے کی براہِ راست ذمہ دار ہیں۔

یہ سب کھیل آئین کے منافی ہے اور اگر یہ کھیل اسی غیر سیاسی اورغیر جمہوری یا غیر آئینی انداز میں کھیلا گیا تو اس سے ریاست کے مفاد میں کچھ نہیں ہوگا،بلکہ یہ امکان موجود ہے کہ اگر انتخابات میں تاخیری حربے اختیار کیے جاتے ہیں تو اس سے سیاسی بحران کم نہیں ہوگا بلکہ اس میں مزید شدت دیکھنے کو ملے گی۔انتخابات میں تاخیر کی وجہ جب ہم ایک سیاسی جماعت یا اس کی قیادت کو بنا کر آگے بڑھیں گے تو اس سے یہ تاثر بھی ابھرے گا کہ انتخابات نہ ہونے کی اصل وجہ ایک جماعت ہے اورمقصد اس کا سیاسی راستہ روکنا ہے، اور یہ فی الحال ممکن نہیں ہورہا۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ معاملات کو بند گلی میں نہ دھکیلا جائے۔ بروقت منصفانہ اور شفاف انتخابات اور معاملات کو سیاسی و جمہوری انداز کے ساتھ چلانے میں ہی ریاست کا مفاد بھی وابستہ ہے۔