کشمیروں کا”انڈینائزیشن“ کا کھیل کشمیریوں کو بھارت سے مزید دور کررہا ہے
پانچ اگست کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے ریاست جموں وکشمیر کے عوام نے یومِ استحصال منایا۔ اس موقع پر جلسے جلوس منعقد ہوئے، ریلیاں نکالی گئیں اور دنیا کے کئی بڑے مراکز اور دارالحکومتوں میں کشمیری تارکینِ وطن نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ لندن اور نیویارک سمیت کئی مقامات پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو مخاطب اور متوجہ کرنے کے لیے یادداشتیں ارسال کی گئیں۔ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم شہبازشریف نے خصوصی پیغامات کے ذریعے کشمیریوں کی سیاسی اور اخلاقی حمایت کا اعادہ کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں احتجاج پر ناروا پابندیوں کے باوجود جابجا ایسے پوسٹر دکھائی دئیے جن میں بھارت کے ظالمانہ قدم کو مسترد کیا گیا ہے۔ ان چار برسوں میں پہلی بار بھارت کے اندر بھی 5 اگست 2019ء کا فیصلہ ایک عدالتی کارروائی کے باعث موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ بھارتی میڈیا نہ چاہتے ہوئے بھی اس مسئلے کو رپورٹ کررہا ہے۔ بھارت کے چوٹی کے وکیل مسئلہ کشمیر کی تاریخی حیثیت اور جزئیات، اور کشمیریوں کی شناخت پر بہت جان دار دلائل کا سہارا لے کر یہ ثابت کررہے ہیں کہ پانچ اگست کا فیصلہ بھارت کی سلامتی کے لیے ضروری نہیں تھا جیسا کہ نریندر مودی بھارتی رائے عامہ کو باور کراتے رہے ہیں۔ اس طرح چار سال بعد بھی مودی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا ہے اورکشمیری دبائے جانے کے باوجود کسی نہ کسی انداز میں بول رہے ہیں، اور دنیا ان کی کتھا سننے پر مجبور ہے۔
5 اگست2019ء کوکشمیر بھارت کے شب خوں کا شکار ہوا ہے۔ یہ حقیقت دنیا پر عیاں ہوچکی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کو خصوصی شناخت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو ختم ہوئے چار سال ہوگئے ہیں، مگر یہ بھوت اب بھی بھارت اور مودی کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ چار سال بعد دنیا کی نظریں بھارتی سپریم کورٹ پرلگی ہیں جہاں بھارتی حکومت کو چیلنج کرنے کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت کا آغاز ہوگیا ہے۔ پانچ رکنی آئینی بینچ ان درخواستوں کی سماعت کررہا ہے۔ گزشتہ چار برس سے مقبوضہ کشمیر ایک جیل، ایک مقتل اور ایک تعذیب خانہ بنا ہوا ہے۔ اسمبلی ہے نہ آئین۔ انسانی جانوں کو تو پہلے ہی کوئی تحفظ حاصل نہیں تھا، اب ملازمتوں اور جائدادوں کو بھی تحفظ حاصل نہیں رہا۔ گوکہ کشمیر کی یہ حالت پہلے بھی تھی مگر اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد بھارت نے سارے پردے اور حجاب ختم کرکے کشمیر کی خصوصی اور الگ حیثیت کو مٹا ڈالنے کا راستہ اپنایا۔ بھارت نے یہ تاثر دیا کہ اب کشمیر اس کی کالونی ہے اور وہ جس طرح چاہے، سلوک روا رکھے۔ اسی اصول اور ذہن کے تحت کشمیر کو الگ حیثیت دینے والے تمام قوانین کو بدل دیا گیا۔ اب بھارت کا کوئی بھی شہری کشمیر میں زمین خریدنے اور ملازمت کرنے کا حق دار ہے۔ کشمیر کی مقامی شناخت رکھنے والی جماعتوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا گیا اور ان کی جگہ بھارت کے نئے مؤقف اور نئے زمینی حقائق کو قبول کرنے والی جماعتیں متعارف کرائی گئیں۔ کشمیریوں کی مذہبی شناخت اور علامتوں کو آہستہ روی کے ساتھ کمزور کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ جامع مسجد جیسی تاریخی عمارت اور کشمیریوں کی مذہبی شناخت کی سب سے توانا علامت جامع مسجد چار سال سے تالا بندی کا شکار ہے۔ بھارتی حکومت لاکھوں ہندوئوں کو ریاست کی شہریت دے چکی ہے اور ابھی لاکھوں کو مزید دینا باقی ہے۔ یہ آبادی کا تناسب تبدیل کرکے فلسطین ماڈل لاگو کرنے کی ایک کوشش ہے۔ کشمیریوں کی زمینوں کو حیلوں بہانوں سے ہتھیانے کا عمل زوروں پر ہے۔ بے نامی جائداد، مشکوک اور غیر قانونی جائیداد کے نام پر سیکڑوں گھروں اور زمینی قطعوں کو قبضے میں لیا گیا ہے۔ یہ جائدادیں غیر کشمیریوں کو الاٹ کرکے مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بھارت کا مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنر تمام اختیارات کا مجموعہ اور مرکز و محور ہے، اور اس کا حکم حرفِ آخر ہے، اُسے نہ کسی اسمبلی سے اجازت کی ضرورت ہے اور نہ ہی وہ اپنے کسی فعل کے لیے دہلی کے سوا کسی اور عوامی فورم پر جواب دہی کا پابند ہے۔کشمیریوں سے آزادیِ اظہارِ رائے اور آزادیِ اجتماع کا حق چھین لیا گیا ہے۔ میڈیا بے روح اوربے جان ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کشمیر میں گزر ہی ممکن نہیں رہا۔انسانی حقوق کی بات کرنے والا آخری مقامی کردار خرم پرویز جیل میں مقید ہے۔
کشمیریوں کی ’’انڈینائزیشن‘‘ کی موہوم امیدپر شروع ہونے والا یہ کھیل کشمیریوں کو بھارت سے مزید دور کررہا ہے۔کیونکہ وادی کا جو طبقہ بھارت سے دوری پر کھڑا ہے اُس نے کبھی دفعہ 370کی باریکیوں پرنظر نہیں رکھی۔اس کی نظر آئینی موشگافیوں کے بجائے سیاسی پیچیدگی پررہی جس کا تعلق کشمیر میں بھارت کی فوجی موجودگی سے تھا۔مسئلہ آئینی نہیں بلکہ سیاسی ہے جس کی جڑیں دور بہت دور یعنی تقسیمِ ہند تک پھیلی ہیں۔اسی لیے چار سال کے سخت انتظامی اقدامات کے باوجود حالات قابومیں نہیں آرہے۔بھارت کا کشمیر پر انتظامی کنٹرول سخت ہوگیا مگر اس کی حیثیت کاغذ کی نائو جیسی ہے۔زمین پر عوامی جذبات کا وہی عالم ہے جو چار سال پہلے تھا۔اب چار سال بعد بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر کی خصوصی شناخت کوختم کرنے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کا آغاز کیا ہے، مگر بھارت کے موجودہ حالات میں بھارتی عدالت سے کسی بڑے اور منصفانہ فیصلے کی توقع کم ہی ہے۔یوں بھی بھارت نے ان چار برس میں کشمیر میں اپنے بڑے مقاصد حاصل کرلیے ہیں،جن میں آباد ی کا تناسب تبدیل کرنابھی شامل ہے۔