پاکستان کی آزادی اور بقا کا راز

اللہ تعالیٰ کی انسان کو عطا کردہ بے شمار نعمتوں میں سے ’’آزادی‘‘ ایک بڑی نعمت ہے جس کی قدر و قیمت کا احساس انسانوں ہی نہیں حیوانوں میں بھی شدت سے موجود ہے، آپ کسی چرند، پرند یا درندے کو پکڑ کر اس کی ’آزادی‘ سلب کر لیجئے اور کسی پنجرے میں بند کر دیجئے، اس قید خانہ میں اس کا رد عمل، اس کا اضطراب، بے چینی و بے تابی آپ کو بتائے گی کہ ’آزادی‘ کے لیے کس قدر شدید تڑپ اس میں فطری طور پر موجود ہے جس کے سبب وہ ہر لمحہ قید سے نجات کے لیے بے تاب و بے قرار دکھائی دیتا ہے مگر اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جب اسے طویل عرصہ تک اس قید میں رکھا جاتا ہے اور قید خانہ کے ماحول سے وہ اس قدر مانوس ہو جاتا ہے کہ وہ اسے اپنا گھر تصور کرنے لگتا ہے، یا اس کے پر کاٹ کر اسے پرواز کی صلاحیت سے محروم اور مایوس کر دیا جاتا ہے تو پھر وہ اکثر اوقات پنجرہ کھلنے پر بھی اس سے فرار اور نجات کی کوشش نہیں کرتا بلکہ از خود پنجرے کی پابندیوں کو اپنی بقا، فلاح اور تحفظ کا ذریعہ سمجھنے لگتا ہے… اہل پاکستان کی کیفیت بھی آج کل کچھ اس سے ملتی جلتی محسوس ہوتی ہے۔ بانیاں پاکستان نے انہیں جس آزادی کا خواب نئی مملکت میں دکھایا تھا وہ ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری مملکت تھی، جہاں اسلام کے تصور حیات کے مطابق تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہونا تھے… بانی پاکستان محمد علی جناح جب تک زندہ اور فعال رہے، وہ نئی مملکت کو انہی تصورات کے مطابق ڈھالنے کے لیے کوشاں رہے، اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افسروں سے اپنے خطاب میں انہوں نے ملک کے لیے سود سے پاک اسلامی معاشی نظام کی تشکیل کی ہدایت کی، کابینہ کے اجلاسوں میں اسلامی تصور کے مطابق سادگی اور کفایت شعاری کو رواج دیا، گورنر جنرل کی حیثیت سے انہوں نے مثالی کردار پیش کیا، بابائے قوم نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ پاکستان کی قومی زبان ماضی کے حکمرانوں کی غلامی کی نشانی انگریزی نہیں بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کی عزت و وقار کی علامت ’اردو‘ ہو گی… قیام پاکستان سے قبل بھی بارہ جون 1947ء کو جالندھر میں مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا کہ نئی مملکت کا نظام کن خطوط پر استوار ہو گا، ان کا کہنا تھا کہ: ’’ہم کوئی ایسا نظام حکومت قبول نہیں کر سکتے جس کی رو سے ایک غیر مسلم اکثریت محض تعداد کی بنا پر ہم پر حکومت کر ے اور ہمیں اپنا مال بردار بنا لے۔‘ مجھ سے اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا؟ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کے طرز حکومت کا فیصلہ کرنے والا؟ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ پیش کر دیا تھا، الحمد لللّٰہ قرآن مجید ہماری رہنمائیک ے لیے موجود ہے اور تا قیامت موجود رہے گا۔‘‘ قیام پاکستان کے فوری بعد قائد اعظم نے بطور گورنر جنرل اس وقت کے ممتاز عالم دین، مفکر اسلام اور مفسر قرآن مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کو اسلامی نظام حیات کے مختلف عملی پہلوئوں پر روشنی ڈالنے کے لیے ریڈیو پاکستان پر خطاب کی دعوت دی چنانچہ مولانا مودودیؒ نے تقاریر کے ایک سلسلے میں اسلام کے سیاسی معاشی اور معاشرتی نظام کے مختلف پہلوئوں کی وضاحت کی۔ اسی طرح نئی مملکت کے لیے اسلامی دستور کے خدو خال مرتب کرنے کے لیے جید علماء کرام پر مشتمل ایک کمیٹی مولانا شبیر عثمانی کی سربراہی میں قائم کی جس کے ارکان میں سید مودودیؒ بھی شامل تھے ان تمام اقدامات سے یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ بانیان پاکستان خصوصاً علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناح کس طرح کا پاکستان بنانا چاہتے تھے مگر اسے پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ بانی پاکستان کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی یہاں کے نظام مملکت پر ایسے لوگ قابض ہو گئے جو ذہنی طور پر انگریز کے غلام تھے اور سدھائے ہوئے جانوروں کی طرح غلامانہ طرز حیات ہی میں اپنی بقاء سمجھتے تھے، چنانچہ انہوں نے قائد اعظم کے عزائم اور واضح اعلانات کے برعکس اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلامی بننے دیا نہ جمہوری اور نہ فلاحی… یہ طبقہ تب سے اب تک مملکت کے نظام، وسائل اور اختیارات پر قابض ہے، نتیجہ یہ ہے کہ مملکت خداداد آج پون صدی گزرنے کے بعد بھی اپنی منزل سے کوسوں دور ہے اشرافیہ کا ایک مخصوص طبقہ یہاں پر حکمران ہے جس نے مملکت کے بے پناہ وسائل ہی نہیں بیرون ملک سے اندھا، دھند قرض حاصل کر کے سب کچھ اپنی تجوریوں میں جمع کر لیا ہے اور عام آدمی کو مایوسیوں کی اتھاہ گہرائی میں دھکیل دیا ہے…!!!

پاکستان کے روشن مستقبل کا انحصار آج بھی اس حقیقت کے ادراک میں پوشیدہ ہے کہ ہماری بقا و سالمیت اسی نظام زندگی کو اپنانے میں ہے جس کا وعدہ اس مملکت کے قیام کے وقت کیا گیا تھا۔ حکیم محمد سعید مرحوم و مغفور نے برسوں قبل قوم کو بجا طور پر متوجہ کیا تھا کہ: ’’ہم آج اپنی قومی زندگی کے جس موڑ پر کھڑے ہیں وہاں اس مملکت کے افق پر مہیب سائے منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ زمینی اور لسانی قومیت کے جن بتوں کو ہم نے پاش پاش کر کے دینی شناخت و تشخص کی جس بنیاد پر یہ آزادی حاصل کی تھی اس میں تزلزل پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ کل تک جو چیز بحث و تمحیص سے بالاتر تھی اب وہ متنازعہ بنتی جا رہی ہے جو تصور عقیدہ راسخ کی حیثیت رکھتا تھا یعنی نظریہ پاکستان اور اہل پاکستان کا دین کے حوالے سے تشخص، آج اس پر بحث کے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔ نظریہ کی یہ فتح ہماری سب سے بڑی فتح تھی مگر ہم شکست خوردہ قوموں کی طرح پشیماں نظر آتے ہیں۔ ہمیں یہ آزادی جتنی عزیز ہونی چاہئے اوراس کی جو قدر و قیمت ہمارے دلوں میں ہونی چاہئے وہ اب شاید باقی نہیں ہے۔ غالباً اس لیے کہ ہماری نگاہیں ہمارے تشخص کا ذریعہ بھی اور ہمارے اسلامی عمل و کردار کی ایک ممتاز جولاں گاہ بھی، لیکن یہ سارے تقاضے اس وقت پورے ہوں گے جب ہمیں اسلام سے دلی تعلق ہو، اسلام اور نظام اسلام ہی سے محبت، پاکستان سے ہماری محبت کا صحیح اور تعمیری رخ متعین کر سکتی ہے، اس کی آزادی کی حفاظت کر سکتی ہے اس کے مختلف خطوں میں بسنے والوں کو ایک مسلک میں منسلک کر سکتی ہے۔ یہ وطن قوموں کی بنیاد پر حاصل نہیں ہوا بلکہ اسلامی تشخص کی بناء پر حاصل ہوا ہے اور اس تشخص کے قیام کے لیے ہمیں کسی تاخیر کے بغیر اسلامی نظام کا مکمل نفاذ کر دینا چاہیے تاکہ ہر طرح کی نا انصافیاں ختم ہو سکیں اور کسی کو گمراہ کن نعرے لگانے کا موقع نہ ملے۔‘‘(حامد ریاض ڈوگر)