صاحبو! یہ اُن دنوں کی بات ہے جب روزنامہ ’’نئی بات‘‘ میں ہم روز کالم لکھا کرتے تھے۔ ایک روز نہیں لکھا۔ مدیرِ محترم عطاء الرحمٰن صاحب مرحوم کا فون آگیا، اللہ اُنھیں غریقِ رحمت کرے، پوچھا ’’کالم کیوں نہیں لکھا؟‘‘ عرض کیا ’’موضوع نہیں ملا‘‘۔ قدرے بلند آواز میں بولے ’’حضور! آپ کے کالم پڑھے جاتے ہیں۔ ناغہ نہ کیجیے، روز لکھیے‘‘۔ اُن سے مؤدبانہ درخواست کی ’’کوئی موضوع دیجیے‘‘۔ برجستہ فرمایا اور کیا خوب فرمایا ’’یہ نہ کہیے کہ مجھے موضوع دیجیے، یہ کہیے کہ مجھے آنکھیں دیجیے‘‘۔ یہ چشم کُشا فقرہ سنتے ہی آنکھیں کھل گئیں۔
مگر پچھلے چند دنوں سے یہ کھلی آنکھیں مُندی جارہی ہیں۔ دائیں آنکھ میں چبھن محسوس ہوتی تھی، ساتھ ہی جلن بھی۔ بار بار پانی بھر آتا۔ ہر منظر دھندلا ہوجاتا۔ بے کسی کے عالم میں اپنا ہی شعر یاد آتا۔ جی ہاں! اُسی غزل کا… ’تمھارے بعد ہمیں کوئی ہم سفر نہ ملا‘۔
نکل تو آئے ہیں محفل سے چشمِ نم لے کر
کچھ ایسی دھند ہے آنکھوں میں، ہم کو گھر نہ ملا
آنکھ میں پانی بھر آنے سے یہ تسلی تو ضرور ہوجاتی تھی کہ ابھی دیدوں کا پانی ڈھلا نہیں ہے۔ مگر تکلیف اس بات کی تھی کہ کچھ پڑھا جاتا تھا، نہ لکھا جاتا تھا۔ دل بھی کٹا جاتا تھا کہ ’جس مال کے تاجر ہیں وہی مال ندارد‘۔ بالآخر برادر طیب فاروق کے مشورے پر ڈاکٹر طاہر فاروق سے مشورہ کیا۔ مؤقر ماہر امراضِ چشم نے چشمہ اُتروایا، پھراپنی آنکھیں نکال کر اور ہماری آنکھوں میں (مذکورہ) آنکھیں ڈال کر حکم دیا کہ ’’جاؤ، ڈاکٹر ابرار احمد بھٹی کو آنکھیں دکھاؤ‘‘۔ پوچھا ’’اُن کا قصور؟‘‘ فرمایا ’’اُن کا نہیں، تمھاری ’آنکھوں کا ہے قصور‘ جو چھری دل پہ چل گئی۔ تمھاری نچلی پلکیں اندر کو مڑ گئی ہیں۔ اُنھیں کی چبھن ہے، اُنھیں سے جلن ہے۔ آنسوؤں کی نکاسی کا ایک قدرتی رستہ ہوتا ہے۔ یہی پلکیں راستے بند کیے دیتی ہیں دیوانوں کے۔ اسی باعث تمھاری جوہڑ سی آنکھوں میں ہر وقت پانی کھڑا رہتا ہے۔ اب تمھاری آنکھوں کے بند کھولنے کو جس قسم کی جراحی درکار ہے، ڈاکٹر بھٹی اُس کے ماہر ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر ہم سے آنکھیں پھیر لیں۔ اگلا مریض!…اے لو!
جنھیں ہم اپنی آنکھیں کہہ رہے تھے
اُنھیں آنکھوں نے بھٹکایا بھی کیسا
قارئین و قاریات! اِس بھٹکے ہوئے راہی کو اپنی آنکھوں کا رونا آج آپ کی آنکھوں کے آگے یوں رونا پڑا کہ جراحتِ چشم کے نتیجے میں شایدایک بار پھر کالموں کا ناغہ ہوجائے۔ مگر اب کی بار ناغے کا سبب موضوع کی نہیں، آنکھوں کی عدم دستیابی ہوگا۔
آنکھوں کی عدم دستیابی پر نابینا فقیروں کا یہ فقرہ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ’انکھیاں والو! انکھیاں بڑی ’’نیامت‘‘ ہیں‘۔ یہ الگ بات کہ ناشکرے انسان کو ہر نعمت کے ’نعمت ہونے‘ کا احساس اُس نعمت کے چھن جانے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ فقط یہ آنکھیں ہی نعمت نہیں، آنکھوں سے متعلق ہر روزمرہ، ہر محاورہ اور ہر ضرب المثل زبان کے لیے نعمت اور اہلِ سخن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ محاورے محض چند الفاظ ہی توہیں، مگر دنیا جہان کو ہماری آنکھوں کے آگے نچا کر رکھ دیتے ہیں۔ ان محاورات سے آنکھیں پھیر کر کوئی اچھی اور بامحاورہ اُردو لکھ سکتاہے نہ بول سکتاہے۔ ذرا آنکھ اُٹھا کر دیکھیے! جہاں تک آنکھ کام کرتی ہے، آنکھوں کے محاوروں کی لمبی قطار نظر آتی ہے۔ آنکھیں پھوٹ جائیں گی مگر ان محاوروں سے آنکھ سیر نہ ہوپائے گی۔ مثلاً ’آنکھ کا ڈھیلا‘ سن کر سنا کہ ’آنکھ مارنا‘ بھی محاورہ ہے اور’ آنکھ لگنا‘ بھی۔ ’آنکھ مارنا‘ پڑھ کر یہ جانا کہ کسی یک چشم نے اپنی مصنوعی آنکھ کا ڈھیلا اپنی انگلیوں کی مدد سے نکال کر سامنے والے کو کھینچ مارا اور اُس کو تڑ سے ’آنکھ لگی‘۔ مگرلغت نے ڈانٹا کہ نہ نہ نہ نہ ’آنکھ مارنا‘ آنکھوں کے خفیف اشارے سے کسی کو متوجہ کرنا، منع کرنا اور خبردار کرنا ہوتا ہے۔ یا دوسرے کی نظر بچا کر پہلے کو بتانا کہ میں اِسے بے وقوف بنانا چاہ رہا ہوں۔ جب کہ ’آنکھ لگنے‘ کے دو مختلف معانی ہیں۔ ایک معنی نظر بازی اور عشق بازی ہے، جس کو ’آنکھ لڑانا‘یا ’آنکھ مَٹکّا کرنا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ’اَکھ لڑی بدوبدی، موقع ملے کدی کدی‘۔ دوسرے معنی ہیں نیند آجانا۔ میرؔ صاحِب نے ایک ہی مصرعے میں دونوں معانی نمٹا دیے ’’آنکھ لگی ہے جب سے اُس سے، آنکھ لگی زنہار نہیں‘‘۔ ’زنہار نہیں‘ کا مطلب ہے ’ہرگز نہیں‘۔ اسی خیال کو کسی اور شاعر نے سلیس اور آسان زبان میں ترجمہ کرکے بیان کردیا ہے، شاعر کا نام اس وقت آنکھ سے اوجھل ہے:
جب سے کہیں لگی ہے آنکھ
آنکھ کبھی نہیں لگی
’آنکھ لگنے‘ بمعنی سو جانے پر سوداؔ کا ایک شعر یاد آگیا۔ اس شعر پر نقادوں نے ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ، خوب آنکھیں مٹکائیں اور اُن کے درمیان ایک دلچسپ بحث چھڑگئی۔ میرؔ کے دو اشعار ہیں۔ ان میں سے پہلا شعرمیرؔ کے دیوانِ اوّل میں یوں درج ہے:
سرھانے میرؔ کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
اور دوسرا شعر دیوانِ دوم میں اس طرح ہے:
اے شورِ قیامت ہم سوتے ہی نہ رہ جاویں
اِس راہ سے نکلے تو ہم کو بھی جگا جانا
سوداؔ نے اِن دونوں مضامین کو پکڑ کر ایک ہی شعر کی پُڑیا میں باندھ دیا۔ اسے آپ سودے کی پُڑیا سمجھ لیجے:
سوداؔ کی جو بالیں پہ گیا شورِ قیامت
خدامِ ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے
’بالیں‘ کا مطلب بھی ’سرھانا‘ ہی ہوتا ہے۔ سخن شناس کہتے ہیں کہ سوداؔ کا یہ شعر میرؔ کے دونوں اشعار سے بلند ہے، اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم سخن فہم ہیں ’’سوداؔ‘‘ کے طرف دار نہیں۔
طرف داری پر یاد آیا کہ آنکھ سے متعلق ایک ترکیب ’طَرفۃ العین‘ بھی ہے، جس کا مطلب ہے پلک جھپکنے میں، چشم زدن میں۔ مصیبت اور بے چینی دور کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی سکھائی ہوئی دعاؤں میں سے ایک مقبول دعا سنن ابی داؤد اور مسند احمد میں آئی ہے۔ اس دعا میں بھی ’طَرفۃ العین‘ کی ترکیب استعمال کی گئی ہے۔ دعا کے اُس ٹکڑے کا مطلب ہے کہ ’’پلک جھپکنے کی مدت برابر بھی مجھے میرے نفس کے حوالے نہ کر‘‘۔ شاہ نصیرؔ نے تو پوری دنیاوی زندگی ہی کو ’پلک جھپکنے کی مدت برابر‘ قرار دے ڈالا:
کھولیے کیا آنکھ مانندِ حَباب
طَرفۃ العین آہ مٹ جاتے ہیں ہم
یعنی ایک بلبلے کی طرح آنکھ کھولی، پلک جھپکی اور عمر تمام ہوگئی۔ آخرت کی زندگی میں ہر شخص کو یہ دنیاوی زندگی ایسی ہی مختصر معلوم ہوگی، جس کو بِتانے کے لیے لوگ امریکہ اور کینیڈا جانے کی بُتّے بازی میں بے تاب رہا کرتے ہیں۔ (بُتّے بازی= حیلہ سازی، فریب دہی)
’آنکھ کھولنا‘ بھی محاورہ ہے،جس کا ایک مطلب زندگی کا آغاز کرنا ہے اوردوسر امطلب بغور مشاہدہ کرنا۔ ’کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ‘۔ الغرض آنکھ، چشم، عین، نظر، نگاہ اور نگہ پر تمام اُردو روزمروں، محاوروں اور ضرب الامثال کو جمع کیا جائے تو ایک کتاب تیار ہوجائے۔ پس ثابت ہوا کہ انکھیاں بڑی ’’نیامت‘‘ ہیں کہ آنکھیں کھولِیں تو اِس دنیا میں آگئے اور آنکھیں بند ہوئیں تو اگلے جہان پہنچ گئے۔