وزیراعظم کا دورہ گوادر ،وزیراعلیٰ کی عدم شرکت

اگست، جولائی2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں کے اختتام کا مہینہ ہے۔ بلوچستان کے اندر عدم اعتماد کی چال چل کر وزیراعلیٰ جام کمال خان ہٹادیے گئے، جس کے بعد سنجیدگی دیکھنے کو نہ ملی۔ غیر آبرومندانہ ماحول میں حکومت چلائی گئی۔ عبدالقدوس بزنجو سے کام نکالا جاتا رہا ہے، وہ وزیراعلیٰ انیکسی میں مقید رہے ہیں۔ طویل وقت سوتے رہے ہیں۔ ان کی دماغی حالت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ان کی حکومت میں اتحادی اور حزبِ اختلاف صوبے کی ذلت، گراوٹ اور پستی سے نظریں چرائے اپنے فوائد سمیٹنے میں جتے رہے۔ حکومت اپنے عیوب چھپانے اور عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کی خاطر وفاق سے ٹکرائو کی فضا بنانے کی کوشش کرتی رہی۔ این ایف سی ایوارڈ میں حصہ اور گیس رائلٹی واجبات اگرچہ جائز مطالبہ ہے۔ وفاق کا طرزعمل یقینا استحصالی ہے مگر سچ یہ ہے کہ یہ کٹھ پتلی حکومت ان ایشوز کو محض موم کی ناک بنانے کے مصداق اچھالتی رہی۔

وزیراعظم شہبازشریف نے 27 جولائی کو گوادر کا دورہ کیا۔ ان کے ہمراہ گورنر بلوچستان عبدالولی کاکڑ، وفاقی وزراء احسن اقبال، اسعد محمود،آغا حسن بلوچ، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے ماہی گیروں میں امدادی چیک تقسیم کیے، طلبہ میں لیپ ٹاپ بانٹے، کئی منصوبوں کا افتتاح کیا اور سنگِ بنیاد رکھا۔ ان میں چائنا ایکسپو سینٹر،102 کلومیٹر بسیمہ خضدار روڈ، 55 کلومیٹر آواران جھل جاؤ روڈ، نیو گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ اور132 کے وی کی پنجگور ناگ بسیمہ نال ٹرانسمیشن لائن شامل ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو نے دورے سے ایک روز قبل سوتے میں بیان داغ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم دورہ کرنے کے بجائے دورے پر آنے والے اخراجات عوام پر خرچ کریں۔ انہوں نے کہا کہ دورے پر یومیہ پانچ کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ترقیاتی منصوبے انتظامی محکموں کے ذریعے مکمل کرکے عوام سے ان کا افتتاح کرایا جائے۔ یہ مضحکہ خیز مشورہ دیتے ہوئے انہیں اپنی اور اپنی حکومت کی لوٹ مار، بے اعتدالیاں، میرٹ کی پامالیاں، نوکریوں کی فروخت یاد نہیں آئی، نہ جامد ترقیاتی منصوبے دکھائی دیے، یہاں تک کہ شہر کوئٹہ کے اندر چھوٹی چھوٹی شاہراہوں کی تعمیر بھی ادھوری ہے، اگست2022ء کے مون سون کی تباہ کاریوں کے نشانات اب تک موجود ہیں، قومی شاہراہ این65 ایک سال بعد بھی بحال نہیں ہوسکی ہے۔ اس کے لیے اگر وفاقی حکومت، مولانا اسعد محمود اور این ایچ اے ذمہ دار ہیں تو ساتھ صوبائی حکومت کی گلوخلاصی بھی نہیں ہوسکتی۔ وفاقی وزیر اسعد محمود نااہل ثابت ہوئے کہ جو وزیراعظم شہبازشریف کے ہمراہ پنجرہ پل کے مقام پر دورے کے وقت موجود تھے۔ لسبیلہ اور کئی مقامات پر پل بہہ چکے ہیں جو اب تک تعمیر نہیں ہوسکے۔ این 65 پنجرہ پل کے مقام پر سیمنٹ کے پائپ ڈال کر مٹی کی بھرائی کرکے ٹریفک چھوڑ دی جاتی ہے، اور یہ پائپ ذرا سی بارش سے پھر بہہ جاتے ہیں۔ سیمنٹ کے پائپوں اور مٹی کی بھرائی پر اب تک کروڑوں روپے خرچ ہوچکے ہیں، لیکن ہنوز عارضی اقدامات ہورہے ہیں۔ شہر کوئٹہ کے اندر سیلاب سے تباہ شاہراہیں اب تک تعمیر نہیں ہوسکی ہیں، جو خالصتاً صوبائی حکومت کے دائرۂ کار میں آتی ہیں۔ ٹوپی ڈرامہ وزیراعظم کے دورۂ گوادر میں شرکت نہ کرنے کی بات پھیلانے کا کیاگیا۔ بات پھیلائی گئی کہ گوادر احتجاجاً اس لیے نہیں گیا کہ وفاق صوبے کا حق دینے سے گریز کررہا ہے۔ حالاں کہ سچ یہ ہے کہ وزیراعلیٰ موصوف سورہے تھے۔ انہوں نے صوبے کے حقوق کے لیے احتجاج کا عذر محض خفت مٹانے کے لیے پیش کیا۔

بہرحال جیسے تیسے یہ حکومت اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ صوبے کے اندر پارٹیوں کی تلاش کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے چند ارکانِ اسمبلی پہلے ہی پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں۔ شنید ہے کہ اب پچھتا رہے ہیں۔ عبدالقدوس وغیرہ نے فی الوقت بلوچستان عوامی پارٹی کو زندہ رکھنے کا فیصلہ کررکھا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے جام کمال خان، سینیٹر انوار الحق کاکڑ، سینیٹر سرفراز بگٹی، صوبائی وزیر محمد خان لہڑی، سرفراز ڈومکی، سابق وزیراعلیٰ جان جمالی اور چند دوسرے، مسلم لیگ (ن) سے بات پکی کرچکے ہیں۔ فضا سازگار رہے گی تو مزید بھی مسلم لیگ (ن) سے وابستہ ہوجائیں گے۔ بلوچستان میں تحریک انصاف کی صفائی کردی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی دست برداری بھی کوئٹہ میں کرائی گئی۔ وہ 2جون کو خاموشی سے کوئٹہ پہنچے یا پہنچائے گئے، اور کوئٹہ پریس کلب میں نمودار ہوکر تحریک انصاف سے تعلق نہ رکھنے اور سیاست سے دست برداری کا اعلان کردیا۔ بے چارے پھر بھی نہ بخشے گئے۔ بدعنوانی کے الزامات میں جکڑے ہوئے ہیں جبکہ قاسم سوری روپوش ہیں۔

nn