سانحہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورچند سوالات

کئی دن سے ذہن عجیب کشمکش اور مخمصے کا شکار ہے۔

اس ذہنی پراگندگی کا سبب وہ سانحہ ہے جو سرزمینِ محبت، سرزمینِ علم و شعور، سرزمین ِاخلاق و کردار بہاولپور کی معروف یونیورسٹی میں پیش تو مبینہ طور پر مہینوں، سالوں سے آرہا تھا، منصہ شہود پر دو تین روز پہلے آیا، اور اہلِ دانش و درد کو عجیب الجھنوں سے دوچار کر گیا۔

مجھے اندازہ نہیں ہوسکا کہ قوم کے دانشوروں کا اس معاملے پر کیا نقطۂ نظر ہے، اور اس معاملے کے کیا انتظامی پہلو اور حقائق ہیں۔ اس کے کیا سیاسی محرکات ہیں؟مگرجو مصدقہ یا غیر مصدقہ معلومات سامنے آسکی ہیں، اور دو تین تبصرے اور تجزیے پڑھنے یا دیکھنے کو ملے ہیں، دل بہت مضطرب و بے قرار ہے۔

اس بے قراری میں مزید اضافہ حکومت کے اس فیصلے نے کیا ہے جس کے تحت بظاہر بہت متحرک، فعال اور اہل وائس چانسلر کو جن کی مدت ملازمت میں بس دوچار دن ہی باقی تھے، جامعہ کی سربراہی کے منصب سے علیحدہ کردیا گیا ہے۔

اس واقعے اور اس فیصلے نے میرے ذہن میں کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ مجھے اس بات پر سخت تشویش ہے کہ تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات میں موجود اساتذہ کی ادارہ جاتی اور غیر ادارہ جاتی تنظیموں کا مؤقف، مذمت، حمایت یا تصدیق یا تردید کچھ سامنے نہیں آیا، یا میری نظر سے نہیں گزرا۔ ان تنظیموں میں ملک بھر کے لاکھوں اساتذہ کی قیادت، تربیت اور تشکیلِ سیرت وکردار کا دعویٰ کرنے والی تنظیم بھی شامل ہے، اور مختلف مسالک کا پرچار کرنے والی تنظیمیں بھی۔ اساتذہ کے حقوق کی علَم بردار تنظیمیں بھی اور جامعات کی منتخب باڈیز بھی۔۔ ملک کی سیاسی، مذہبی جماعتیں بھی خاموش ہیں۔ ایسا سکوتِ مرگ ہے کہ الامان والحفیظ۔

یقیناً اس قوم میں بے شمار ”دانشور“ بھی ہیں، اور ”دان۔شور“ بھی اور ”دانش۔ وَڑ“ بھی، مگر سب اپنے فکری تعصبات و مفادات کے اسیر۔

اس نکتۂ نظر پر دلیل چوبیس کروڑ عوام اور اہلِ دانش میں سے دس بیس یا پچاس مجھ جیسے عامیوں کے چھوٹے بڑے ردعمل ہیں۔

سوال یہ نہیں کہ واقعہ چھوٹا ہے یا بڑا، سرکاری ادارے کا ہے یا دینی ادارے کا، پانچ ہزار کا ہے یا سات ہزار کا، ذمے دار کوئی شاہ ہے، میجر یا کسی علمی گھرانے کا سپوت۔ استاد ہے یا خود طالب علم۔

اس ایک واقعے کی گونج پورے معاشرے، ہمارے ڈوبتے اور برباد ہوتے اخلاقی، تعلیمی، معاشرتی نظام پر شاید نہیں بلکہ یقیناً آخری ضرب ہے۔ دینی تبلیغ، خطابات، مقالات، کانفرنسز، بیداریٔ شعور کی مسلسل متنوع جدوجہد، تعلیمی اداروں میں طلبہ کی بڑھتی تعداد کے تناسب، عزت مآب پروفیسرز کے بلند ہوتے گریڈز، سرکاری و نجی اداروں کے مالیاتی استحکام اور عالمی رینکنگ میں بلند ہوتے ادارہ جاتی معیار و گراف، ایچ ای سی کے منظور شدہ جرنلز کی انتہائی قابل قدر اور بلند ہوتی کیٹیگری اور اس میں مطبوعہ مقالات کی ریسرچ کی دنیا میں شاندار پذیرائی اور عزت مآب اساتذہ کے بین الاقوامی سطح پر بلند ہوتے معیار اور تعارف کے ہوا بھرے غبارے کو پھوڑنے کے لیے یہی ایک واقعہ چھوٹی سی سوئی کی حیثیت رکھتا ہے۔

خاکم بدہن کاروباری مفادات و ترجیحات کو دنیا و آخرت کی کامیابی سے مربوط کرنے والے اداروں، شخصیات اور نظام ہائے تعلیم کے بھرم بھی ٹوٹنے کو ہیں۔

بہاولپور کا یہ واقعہ محض ایک واقعہ نہیں، جو چند دنوں بعد کسی نہ کسی قربانی کے بکرے کی ذبح ہوتے وقت کی دو تین ڈکاروں کے بعد دب جائے گا اور طاقتور لوگ یکے از سیاست دان، سرکاری اہلکار، اعلیٰ تعلیمی عہدے دار، مسلکی و مذہبی اہلِ درد سبھی بچ جائیں گے اور سرخرو قرار پائیں گے۔ بس تڑپتا، بلکتا اور سسکتا رہے گا اس قوم، انسانیت، اخلاق اور بے روح و جان تعلیم و تحقیق کا لاشہ۔

خیر یہ تو۔۔ میرے منہ میں خاک۔۔ اب نوشتۂ دیوار ہے، اور قوم کے دانش مند لوگ مفادات کی ریت میں منہ دیئے، حال و مستقبل سے نظریں چرائے مَست اور محوِ تماشا ہیں۔

انسانی زندگی کی تعمیر کے ذریعے رضائے الٰہی کے حصول کے دعویداروں کی پون صدی کی جدوجہد اور اساتذہ کی تربیت اور تشکیلِ کردار کے سرابوں کے پیچھے بھاگنے اور اپنے ہی کنویں کا مینڈک بنے رہنے کا یہی نتیجہ ہے،جس نے ہمیں بالکل نہیں ہلایا،نہ سوچنے،نہ بولنے پر مجبور کیا ہے۔ اصلاح اور انقلاب تو بس سب کتابوں کی زینت ہی بن کر رہ گیا ہے۔

وَھُم یحسَبون انھم یُحسِنون صُنعاً

وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ ہم اس رفتار اور معیار اور کردار سے انقلاب کی دہلیز تک پہنچ چکے ہیں۔

میں نے ان دانش مندوں کے ردعمل، مؤقف اور تجزیئے کے انتظار کی بات کی تو قومی سطح پر لاکھوں اساتذہ کی نمائندگی، مگر عملاً صرف تین ہزار ارکان کی تنظیم کے ایک بڑے صوبائی راہنما کا یہ مؤقف سامنے آیا، جو صرف میری وال پر ہی شیئر ہوا:

”محترم ڈاکٹر صاحب۔۔۔ تنظیم اساتذہ پاکستان معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے احباب سے مسلسل رابطے میں ہے۔ سوشل میڈیا نے اتنی گرد اڑادی ہے کہ حقائق واضح ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ احتیاط کا تقاضا ہے کہ ذمہ داران کا تعین ہونے تک انتظار کیا جائے۔ اس واقعے کے پس منظر میں تنظیم اساتذہ پاکستان اپنے اصولی مؤقف کو دہرا چکی ہے کہ اس طرح کی خرابیوں سے بچنے کا واحد طریقہ مخلوط نظام تعلیم کا خاتمہ ہے۔“

جناب! آپ اپنے صرف تین ہزار ارکان پر نظر نہیں رکھ سکے۔ تاحال مرکزی قیادت جو خود اسی ادارے میں ایک متحرک و فعال کردار ادا کرتی رہی۔ مجھ جیسے بے وقوفوں کی راہنمائی کے لیے کوئی مؤقف اور راہنما نکات نہیں بیان کرسکی۔ آگے کیا انقلابی تیر مار لیں گے سوائے لکیر پیٹنے کے!

معاملہ دراصل یونیورسٹی اور اساتذہ کے ووٹوں کا ہے بہرحال جنہیں ہم چھیڑنا اور کھونا نہیں چاہتے۔

باقی رہا مخلوط تعلیم کے چورن کا پرانا نسخہ.. تو جب یہ نظام اتنی گہری جڑیں اختیار کررہا تھا کدھر تھے آپ اور آپ کا اصولی مؤقف؟ میرے ایک سوال پر طویل خاموشی چھاگئی کہ آپ کے اپنے ارکان کے عظیم اداروں میں مخلوط تعلیم پر آپ کی نظر کیوں نہیں؟

طلبہ کی اسلامی نظریاتی تنظیم۔۔ جس کی ان دنوں اس واقعے کے پس منظر میں تعلیمی اداروں میں موجودگی کو خاص اہمیت دی جارہی ہے، اور دلیل کے طور پر جناب حسن نثار صاحب کے دو جملوں پر عمارت تعمیر کی جارہی ہے۔

ویسے کمال ہے قرآن و حدیث کی تعلیمات اور افکارِ مودودی اور جمعیت کی طویل جدوجہد اور مضبوط مؤقف کی موجودگی میں حسن نثار صاحب کے دو جملوں کی زیادہ وقعت بنادی گئی۔

جمعیت کے ناظم اعلیٰ نے بھی چند گھسی پٹی سطروں کے بیان سے اپنا انقلابی فرض ادا کردیا:

”پاکستان کی جامعات میں بڑھتے ہوئے غیر اخلاقی واقعات اور اس میں انتظامیہ کا ملوث ہونا ہمارے تعلیمی نظام کے منہ پر طمانچہ ہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا حالیہ واقعہ انتہائی شرمناک بھی ہے اور اذیت ناک بھی۔ ان الزامات کی تحقیقات کروا کے ایسے واقعات میں ملوث بھیڑیوں کو عبرت کا نشان بنادینا ضروری ہے۔

گزشتہ چند سالوں میں ملکِ پاکستان کی جامعات میں طالبات کو ہراساں کرنے، بلیک میل کرنے اور منشیات فروشی کے گھناؤنے واقعات میں اضافہ تشویشناک ہے۔ ان واقعات پر مخصوص لبرل ٹولے کی منافقانہ خاموشی اور حکمران طبقے کی مجرمانہ بے حسی قابلِ مذمت ہے۔

ایسے تمام عوامل کے تدارک کی واحد صورت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مخلوط نظام تعلیم کا خاتمہ اور اسلامی نظامِ تعلیم کا قیام ہے۔

یقیناً یہ بڑا مضبوط گریز ہے اپنی ذمہ داریوں سے۔۔ مگر۔۔ اسلامی انقلاب کے دعویداروں اور دنیا و آخرت کی کامیابیوں کے کلید برداروں کی جامعات اور اداروں سے تو مخلوط تعلیم فی الفور ختم کر ہی سکتے ہیں۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ آپ کے ہوتے ہوئے، آپ کے مضبوط مؤقف اور طویل جدوجہد کے ہوتے ہوئے اور خرابی کی اصل نشاندہی اور ادراک کے باوجود ان اداروں میں مخلوط تعلیم کا سلسلہ کیوں شروع ہوا، اور وہ بھی عالم اسلام کے نامور مفکرین کی سرپرستی میں؟

مجھے یقین ہے کہ میری یہ تلخ نوائی نہ تو برداشت ہوگی، نہ کارِ تریاقی کرے گی۔ لیکن کسی کو تو اب سوچنا اور بولنا ہے۔

میں خود ایک مخلوط ادارے کا سوا پانچ سال تک سربراہ رہا، جو بنیادی طور پر لڑکوں کا ادارہ تھا۔ مجھے یہاں 2012ء کے وسط میں تعینات کیا گیا تھا۔

2010ء میں جب پنجاب کے 26 کالجوں کو خودمختار بنایا گیا (بعد ازاں عدالت کے حکم پر یہ فیصلہ معطل ہوا)، ادارے میں بی ایس چارسالہ پروگرام شروع کیا گیا تو کالج کی انتظامیہ اور اساتذہ نے بغیر کسی حکومتی دباؤ یا حکم کے یہاں لڑکیوں کا داخلہ اس لیے جائز قرار دیا کہ اس طرح لڑکے بھی زیادہ داخلہ لیں گے۔ تیرہ سال گزرنے کے باوجود اگرچہ بہت اخلاقی مسائل تو پیدا نہیں ہوئے، تاہم انتظامی مسائل کا بہت سامنا کرنا پڑا، اور اس خود اختیار کردہ راستے کے بہت سے نشیب و فراز بھگتنے پڑے۔ میں نے بھرپور کوشش کی کہ طالبات کے داخلے کو ختم کرکے مخلوط تعلیم کے عفریت سے جان چھڑائی جائے، مگر کامیابی نہیں ہوئی۔

کہتے ہیں جب ہنڈیا چولھے پر رکھ کر نیچے آگ لگادی جائے گی تو ممکن نہیں کہ ہنڈیا اُبلنے نہ لگے۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا میرے سابقہ ادارے میں بہت شدید قسم کی اخلاقی خرابیاں موجود نہیں، تاہم ہنڈیا کے اُبلنے کے کچھ آثار ضرور موجود ہیں جن کی جانب طلبہ و طالبات نے نشاندہی کی۔ بعض تصاویر بھی بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس سے میں نے منع کردیا کہ مجھے نہ بھیجیں کہ یہ نہ مجھ سے متعلق ہیں، نہ میں کچھ اصلاح احوال کرنے کی پوزیشن میں ہوں، نہ ہی مسئول۔

اگرچہ میں نے بعض امور کی نشاندہی کی، مگر سزا بھی بھگتی کہ لوگوں نے خرابی دور کرنے کے بجائے ائینے ہی کو توڑنا مناسب سمجھا۔

میرے ناقص خیال میں معاملہ جو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی نہج تک پہنچا اور دیگر اداروں کے معاملات واحوال کو بھی زبان مل گئی، کے کئی پہلو ہیں۔

پہلا یہ کہ ملک میں سوشل، الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا کے ذریعے ایک عرصے سے اخلاقی بے راہ روی کے سامان بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہیں۔ معاشرے میں ان کا ہدف اور مرکز ہمارا خاندانی نظام، اخلاقی اقدار اور دینی روایات و تعلیمات کے ساتھ تعلیمی نظام اور ادارے ہیں، جس کے نتائج اب ظاہر ہورہے ہیں۔

دوسرا، ہمارے نااہل حکمران، اداروں کی نااہل انتظامیہ اور بصد احترام بعض نااہل اور مفاد پرست اساتذہ ہیں۔

حکمرانوں اور سیاست دانوں کے نزدیک نہ تو قومی مفادات کی اہمیت ہے، نہ قومی نظریئے کی، نہ قومی مسائل ان کی ترجیح ہیں۔ تعلیم، اخلاق، کردار اور مستقبل کی نسل سے تو ان کا کوئی رشتہ ہے نہ مفاد، سوائے اپنی سیاست کے ایندھن کے۔ ان کے اخلاق، کردار، شعور اور معاشی مستقبل سے تو ان کا کچھ واسطہ نہیں لگتا۔

بے شمار سیاسی سفارشوں، سماجی تعلقات اور منتوں مرادوں کے بعد اداروں کی سربراہی سنبھالنے والے نااہل منتظمین کے عملی تصوراتِ حیات میں اپنے اداروں کے ماحول، طلبہ کی اخلاقی تربیت وغیرہ کا نہ کوئی ایجنڈا ہے،نہ شعور۔ مال بنانے اور اگلی منزل و عہدے کی طرف پیش قدمی کا ماحول سازگار کرنے اور پیش بندی کے ساتھ موجود سے زیادہ پروٹوکول اور سہولیات و مراعات کے حصول کا ہدف انہیں دیگر ذمے داریوں سے غافل یا آنکھیں بند کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ شاید ایسا ہی کچھ بہاولپور میں ہوا۔

رہے معزز اساتذہ کرام۔۔ تو یہ پہلو بہت ”مشکل البیان“ ہے۔ دوسروں پر تنقید کرنا تو یقیناً آسان ہے، سارے جہاں کا جائزہ لینا بھی کچھ مشکل نہیں، مگر اپنا جائزہ لینا اور اپنی خامیوں پر نظر ڈالنا انتہائی حساس اور مشکل تر ہے۔

عمیق مشاہدے اور معاملے کے سنجیدہ جائزے سے یہ نتیجہ نکلنا بعید نہیں کہ معاملے کی اصل جڑ اور فساد کی اصل بنیاد یہیں ہے۔

اگر اساتذہ اپنا نہایت ذمے دارانہ مثبت کردار ادا کریں تو ایسے حالات پیدا ہونا ممکن ہی نہیں خواہ سیاسی کشمکش، انتظامی نااہلی اور اخلاق باختگی کی کیسی ہی کوششیں جاری ہوں۔

قطع نظر بعض پاکیزہ کردار اساتذہ کے، اکثر اساتذہ دہرے تہرے مزے میں رہتے ہیں۔ پنجابی کے محاورے ”چوپڑیاں تے دو دو“ کی مجسم تصویر۔

خوشامد اور باہمی منافرت، بغض و حسد اور کھینچا تانی کے مستقل ماحول میں اساتذہ کی اولین ترجیحات اور تمام تر مساعی کا محور صرف اگلے گریڈ میں اپنی ترقی، اگلے عہدے کا حصول، اپنے گروپ کی مضبوطی اور ادارے کے معاملات میں بھرپور اثر پذیری اور زیادہ سے زیادہ مالی مفادات کا حصول ہی ہوتا ہے۔

یہ تو ایک چوپڑی ہے…دوسری چوپڑی زنانہ ماحول کے وہ اثرات وثمرات جن کی تفصیل کے بیان کی ضرورت نہیں۔بس یونیورسٹیوں اور مخلوط اداروں کے ماحول اور باہر نکلتی تفصیلات سے آگاہ ہولیں،بہت کچھ اندازہ لگانا ناممکن نہیں رہے گا۔اب تو کچھ مخفی بھی نہیں رہا۔

اگرچہ بے شمار صاحبِ کردار اساتذہ موجود ہیں،مگر فطرتِ انسانی اور جبلتِ مردانی کا شکار ہوجانا کچھ بعید نہیں۔

سمسٹر سسٹم بنفسہٖ شاید برا نہ ہو،مگر ہمارے ماحول اور تعلیمی نظام اور قومی مزاج میں یہ سسٹم قطعی مس فٹ ہے۔ اس کے فوائد نہ ہونے کے برابر،اور ہمہ نوع نقصانات اس قدر ہیں کہ یہ ایک الگ اور مستقل موضوعِ کلام ہے۔ان میں سے بیشتر وہی ہیںجو سانحۂ بہاولپور کے اصل محرکات ہیں اور جن کے اثرات ملک کے دیگر سرکاری ونجی اداروں میں محسوس کیے جارہے اور منظرعام پر آرہے ہیں۔

ان نقصانات سے ماوراء ایک نقصان تحصیل وتکمیلِ علم نہیں،بلکہ محدود ترین معلومات کا حصول ہے۔کسی بھی علم و فن کے بنیادی اور مصدقہ مصادر و مراجع تک رسائی اور زیر نظر عنوانات سے مکمل آگاہی تو یکسر مفقود ہے اور گوگل اور دیگر سرچ انجنز کی دی گئی معلومات پر انحصار بڑھ گیا ہے۔اس کے علاوہ طلبہ و طالبات کی مصروفیات غیر نصابی سرگرمیوں اور مختلف راستوں سے محض نمبروں اور cgp کی بہتری کا حصول ہی رہ گیا ہے۔

شاندار ڈگری.. علمی استناد و و احصاء کے بغیر محض کاغذ کا پرزہ بن کر رہ گئی ہے۔جن طلبہ کے پاس ڈگری کے ساتھ صلاحیت واہلیت موجود ہے ان کے لیے ترقی کا ہر راستہ کھلا ہے۔

اب آئیے ہر قلم اور ہر زبان پر رواں،ہر تجزیئے اور تبصرے کا محور نکتہ.. موجودہ تعلیمی بربادی کا ایک اور بڑا پہلو ”مخلوط تعلیم“۔

میں اور میرے ہم عمر وہم عصر اپنے بچپن سے مخلوط تعلیم کے خلاف لیکچرز،گروپ ڈسکشنز اور مدلل و مؤثر گفتگو سنتے آئے اور پڑھتے رہے۔ حتیٰ کہ مخلوط تعلیم کی شدید قباحتیں قرآن وحدیث کی آیات وتعلیمات کی طرح پختہ اور ازبر ہوگئیں۔

میدانِ کار میں قدم رکھا تو مخلوط تعلیم کے نظریات کی دھجیاں اڑتی دکھائی دیں۔صدمہ تب ہوا جب مخلوط تعلیم کے خلاف دہائیوں سے برسرِ پیکار مفکرین و مدبرین کے اپنے اداروں میں مخلوط تعلیم کے سلسلے جاری ہوئے۔

مخلوط تعلیم بجائے خود اس ساری ناخوشگوار صورت حال کا کلیدی سبب اور نکتۂ تفکیر و تدبیر ہے،مگر اس کے حوالے سے عملی دوغلاپن بھی لمحہ فکریہ اور معاملے کا اہم پہلو ہے۔

فروختِ تعلیم کے ذمے داروں کی ہوسِ دولت اور والدین کی اپنی اولاد کے معاملات سے بے نیازیوں نے بھی معاملے کو سنگین بنادیا ہے۔
مقامِ شکر ہے کہ جوں جوں وقت گزر رہا ہے اور اصل حقائق سامنے آرہے ہیں،بہاولپور کے واقعے کی سنگینی اور اہلِ درد کی تکلیف و تشویش میں کمی آرہی ہے۔
لیکن مسائل کی بنیاد نہ صرف بہاولپور، بلکہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں اور نظام میں اپنی جڑیں گہری کرچکی ہے۔
الحمد للہ اس قوم میں اہلِ درد اور اربابِ دانش کی کمی نہیں ہے۔قوم کی فکری وعملی راہنمائی کے لیے مضبوط نظریاتی بنیادوں کے حامل مفکرین اور مدبرین، رجالِ رُشد ہر طبقۂ فکر میں موجود اور قومکی راہنمائی کے لیے تیار ہیں۔ضرورت ہے کہ وہ ان تازہ مسائل اور الارمنگ حالات پر مل بیٹھیںاور تعلیم وتدریس کے محفوظ قومی نظام پر جامع مباحثے،مذاکرے اور ڈائیلاگ کا اہتمام کریں۔
چھوٹا منہ،بڑی بات…میری ناقص تجویز ہے کہ
اولاً:سرکاری نہ سہی،نجی جامعات و کالجز میں بیک جنبشِ قلم فی الفور مخلوط تعلیم ختم کی جائے۔
ثانیاً: کسی بھی مخلوط درسگاہ کے اساتذہ فی الفور ملازمتیں اور مناصب چھوڑ کر ملک وقوم کی خاطر غیر مخلوط اداروں میں اپنی خدمات پیش کریں اور سرانجام دیں،کہ اُن کی ان اداروں میں موجودگی کے باوجود نہ تو مخلوط تعلیم کے سلسلے رک سکے،نہ اس کے بھیانک اثرات تھم سکے۔

چلتے چلتے یہ حقیقی واقعہ بھی سن لیجیے کہ 80 کی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی میں ایک دانشور اور پڑھاکو طالب علم جو بعد میں پاکستان کے بڑے بیوروکریٹ بھی بنے،انہوں نے اپنی تعلیم کے اختتام پر اپنی سب کتابیں جسے انہوں نے خوب چاٹ رکھا تھا،اپنے ہی شہر کے ایک دوسرے دانشور اسٹوڈنٹ کو دے دیں۔
یہ واقعہ ان ہی کے الفاظ میں سنیے:

” آج۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت یاد آئے، یونیورسٹی ہاسٹل سے رخصتی کے آخری ایام میں انہوں نے اچانک مجھے سب کتب لے جانے کی دعوت دی، میں نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگے” ان میں جو لکھا ہے، عمل کی دنیا میں اس کے بالکل الٹ ہے“ ، تب میں کچھ نہ سمجھ سکا، بیس سال بعد سمجھ میں آنے لگا“۔
فاعتبروا یا اولی الابصار