اسرائیلی پارلیمان نے عدلیہ کے پَر کتر دیے
پیر 24 جولائی کو اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) نے عدالتوں کے اختیارات محدود کرنے کے سلسلے میں عدالتی اصلاحات (Judicial Overhaul) بل کا پہلا قانون صفر کے مقابلے میں 64 ووٹوں سے منظور کرلیا۔ حزبِ اختلاف کے 56ارکان نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ منظور شدہ بل کے مطابق عدالتوں کو حکومت اور وزارتی فیصلوں کی ”معقولیت“ کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ قانون کی منظوری کے بعد ایک سال سے جاری احتجاج میں شدت آگئی ہے۔
دنیا بھر کے سیاست دانوں کی طرح اسرائیلی حکمرانوں کو بھی شکایت ہے کہ عدالتیں ان کے کاموں میں مداخلت کرتی ہیں۔ چنانچہ گزشتہ برس کے اختتام پر اقتدار سنبھالتے ہی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی کی قدامت پسند حکومت نے عدالتی اصلاحات کا مسودہ قانون (بل) کنیسہ میں پیش کردیا۔ بنیادی طور پر اس بل کا مقصد کنیسہ سے منظور شدہ قوانین کو عدالتی جائزوں سے تحفظ، اور قانون سازی و عوامی پالیسیوں پر عدلیہ کے اثر رسوخ کو محدود کرنا ہے۔ اسی طرح عدالتی تقرریوں پر حکومت کے صوابدیدی اختیارات میں اضافہ ان اصلاحات کا حصہ ہے۔ عام اسرائیلی اسے عدلیہ کے پر کترنے کی کوشش قرار رہے ہیں۔
مجوزہ بل کے قانون بن جانے کی صورت میں اسرائیلی عدالتِ عظمیٰ کے کسی بھی فیصلے کو کنیسہ واضح اکثریت، یعنی 61 ووٹوں سے غیر مؤثر کرسکتی ہے۔ اسی طرح ججوں کی تقرری کے لیے جوڈیشل کونسل کا فیصلہ محض سفارش ہوگا جس کی منظوری وزارتِ انصاف دے گی، اور اہم تقرری کے لیے کنیسہ سے منظوری لی جائےگی۔
عدالتی اصلاحات کا یہ قانون اسرائیلی قدامت پسندوں کی تزویراتی (Strategic) حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ بی بی کی قیادت میں حلف اٹھانے والی موجودہ حکومت، اسرائیلی تاریخ کی سب سے انتہا پسند انتظامیہ ہے۔ قوم پرست سیکولر جماعت لیکڈ، خوشنودیِ رب پارٹی (Noam)، جماعت عزمِ یہود (Otzma Yehudit)، دینِ صہیون پارٹی (Religious Zionism)،پاسبانِ توریت(شاس) اور توریت پارٹی پر مشتمل اس اتحاد کو 120 رکنی کنیسہ میں 64 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
شدت پسند حکومت کا ایک اور طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس کے کئی رہنمائوں پر بددیانتی اور قانون شکنی کے مقدمات چل رہے ہیں بلکہ ایک بڑی اتحادی جماعت کے سربراہ سزا یافتہ ہیں۔ شاس پارٹی کے قائد اور توریت و تلمودکے عالم اٰریہ مخلوف درعی (Aryeh Makhlouf Deri) کو بے ایمانی، رشوت ستانی، ٹیکس فراڈ اور منتخب نمائندے کی حیثیت سے عوام کا اعتماد پامال کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا ہوچکی ہے۔ یہ جرم 1999ء میں ثابت ہوا لیکن پارلیمانی استثنیٰ کی بناپر حضرت جیل سے باہر ہیں۔
عزمِ یہود پارٹی کے قائد، 46 سالہ اتامر بن گوئر (Itamar Ben-Gvir)کے خلاف جو وزیر قومی سلامتی یا پولیس منسٹر ہیں، نفرت انگیز تقریر (hate speech)کے الزام میں کئی بار پرچے کٹے۔ انہوں نے سابق اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن کو قتل کی دھمکی دی تھی، جس کے ایک ہفتے بعد جناب رابن قتل کردیے گئے۔
وزیرخزانہ اور دینِ صہیون جماعت کے سربراہ بیزلیل اسموترش (Bezalel Smotrich) پر اسرائیلی فوج نے الزام لگایا ہے کہ یہ عرب مہاجر کیمپوں میں اشتعال انگیزی کے ساتھ تخریب کاری میں مصروف ہیں۔ اسموترش بھی اشتعال انگیزی کے الزام میںزیرحراست رہ چکے ہیں۔
اور تو اور خود وزیرازعظم پر بدعنوانی اور مالی بے ضابطگی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے دوران انھوں نے استثنیٰ کے سہارے پیشیوں سے جان چھڑائی اور جب حکومت ختم ہوگئی تو کورونا کے نام پر عدالت کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے، حتیٰ کہ گزشتہ سال دسمبر میں وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ انھیں استثنیٰ کی چھتری دوبارہ حاصل ہوگئی۔
اسرائیلی قدامت پسندوں کو اپنے نظریاتی ایجنڈے کی تکمیل میں عدالت کی جانب سے رکاوٹ کا سامنا ہے۔ مدارس کے طلبہ کے لیے لازمی فوجی تربیت سے استثنیٰ، دیوار گریہ کے اردگرد اختلاطِ مرد و زن، سرکاری اسپتالوں، پیر خانوں (old age facilities)، کنیسہ کے ریستوران اور دوسرے عوامی مقامات پر کوشر (حلال) کھانے کی فراہمی یقینی بنانے جیسے کئی معاملات پر عدالت حکم امتناعی جاری کرکے رنگ میں بھنگ ڈال چکی ہے۔ فلسطینیوں کے معاملے میں دوسرے اداروں کی طرح اسرائیلی عدلیہ نے بھی آنکھیں بند کررکھی ہیں لیکن حومش قبضہ بستی کو غیر قانونی قرار دینے پر اسرائیلی سپریم کورٹ 2005ء سے بہت مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے مؤقف پر قائم ہے۔
قومی و نظریاتی معاملات کے علاوہ برسراقتدار سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی مقدمات کی زد میں ہیں، چنانچہ عدالت کو قابو میں رکھنا بی بی اور ان کے رفقا کے لیے ضروری ہے۔ اشتراکِ اقتدار معاہدے کے تحت کنیسہ میں ایک قانونی ترمیم بھی پیش کی جانی ہے جس کے ذریعے جناب درعی کے استثنیٰ کو قانونی تحفظ فراہم کردیا جائے گا۔ بی بی یہ بھی چاہتے ہیں کہ استثنیٰ کے تحفظ کو حاضر کے ساتھ سابقین تک توسیع دے دی جائے۔ قانون کے علما کو یقین ہے کہ اس قسم کے فرمائشی قوانین کو عدالت کالعدم قرار دے دے گی۔ اسی لیے پہلے مرحلے میں عدلیہ کے، حکومت اور وزارتی فیصلوں کی ”معقولیت“ پر سوال اٹھانے کے حق کو معطل کردیا گیا ہے۔
عدالتی اصلاحات کے بل پر احتجاج اُس وقت سے جاری ہے جب اس کا ابتدائی مسودہ کابینہ نے اس سال جنوری میں منظور کیا تھا۔ ہنگاموں کی بنا پر 27 مارچ کو بل پر بحث معطل کرکے حکومت نے اس میں ”مناسب“ ترمیم کے لیے حزبِ اختلاف کو دعوت دی، لیکن 5 ماہ طویل مذاکرات کے باوجود دونوں فریق کسی ایک نکتے پر بھی متفق نہ ہوسکے۔ کنیسہ کی دونوں عرب جماعتیں اخوانی نظریات کی حامل رعم اور لبرل و سیکولر حداش مذاکرات میں شریک نہیں ہوئیں۔ عرب جماعتوں کا مؤقف تھا کہ اسرائیل کے عرب شہریوں کو عدلیہ سے انصاف کی کوئی امید نہیں، تاہم دونوں جماعتوں نے وعدہ کیا کہ ان کے دس ارکان رائے شماری کے دوران بی بی کے مجوزہ فسطائی عدالتی پیکیج کے خلاف ووٹ دیں گے۔ حزبِ اختلاف نے مذاکرات میں ناکامی کا ذمہ دار حکومتی وفد کی ”شدت پسندی“ کو قرار دیا۔ مذاکرات بے نتیجہ ہونے پر وزیر انصاف نے بل پر بحث کا دوبارہ آغاز کیا اور گزشتہ ہفتے اس پیکیج کا پہلا قانون منظور کرلیا گیا۔
معقولیت پر سوال اٹھانے کے حق سے محروم ہوجانے کے باوجود 26 جولائی کو عدالتِ عظمیٰ نے اعلان کیا کہ بینچ اس قانون کی معقولیت پر داخل کی جانے والی کسی بھی درخواست کی سماعت کو تیار ہے۔ عدلیہ کے اس عزم پر مشتعل ہوکر بی بی نے خبردار کیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے ”معقولیت“ قانون کو کالعدم قرار دے دیا تو اسرائیل ”سرزمینِ بے آئین“ بن جائے گا۔
قانون کی منظوری کے بعد حکومت مخالف مظاہروں کا دائرہ پورے ملک تک پھیل گیا ہے۔ دارالحکومت تل ابیب میں مظاہرین جو قومی پرچم لہرا رہے تھے اس پر حکومت کی شدت پسندی ظاہر کرنے کے لیے سرخ رنگ چھڑک دیا گیا۔ اس پر ایک فلسطینی خاتون نے طنزیہ انداز میں کہا ”بھولے اسرائیلیو! رنگ چھڑکنے کی کیا ضرورت ہے! یہ پرچم تو ہزاروں فلسطینی بچوں کے لہو سے پہلے ہی سرخ ہے“۔
عام لوگوں کے ساتھ احتجاج کا دائرہ اسرائیلی فوج، خفیہ اداروں، ڈاکٹروں اور سائنس دانوں تک وسیع ہوگیا ہے، اور حساس اداروں میں اس قانون کے خلاف بے چینی کے آثار نمایاں ہیں۔ فوج کے رکن محفوظہ یا reservists تربیت پر آنے سے انکار کررہے ہیں۔ اسرائیل میں لازمی فوجی تربیت کا نظام رائج ہے اور ہر صحت مند شہری سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بوقتِ ضرورت دفاعِ وطن کے لیے ہتھیار اٹھائے گا۔ محفوظ دستے کے سپاہیوں نے مظاہرین سے اظہارِ یکجہتی اور تربیت سے انکار کی علامت کے طور پر تل ابیب کی مرکزی شاہراہ پر اپنے فوجی جوتے لٹکادیے۔ رضاکار فوجیوں کی بڑی تعداد بھی احتجاجاً کام چھوڑ چکی ہے۔ دفاعی حکام نے اسرائیل کی جنگی تیاری خطرے میں پڑنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
اسرائیل کے جوہری سائنس دان بھی اب میدان میں ہیں اور اسرائیل کے خفیہ اداروں کے مطابق 10 انتہائی سینئر جوہری سائنس دانوں نے عدالتی ترامیم منظوری کے خلاف مستعفی ہونے کی دھمکی دی ہے۔ وزارتِ تعلیم کے ڈائریکٹر جنرل آصف ظلال (Asaf Tzalel)یہ کہہ کر مستعفی ہوگئے کہ اب پڑھانے کو رہ ہی کیا گیا ہے۔ سرکاری جامعات کے بہت سے اساتذہ بھی مستعفی ہورہے ہیں۔
اسرائیل کے عبرانی چینل 13 نے 27 جولائی کو رائے عامہ کا ایک جائزہ شایع کیا ہے جس کے مطابق 28 فیصد اسرائیلیوں نے ملک چھوڑنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ اگر عدلیہ کنیسہ کے زیرنگیں آگئی تو جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ختم ہوجائے گی۔ اس جائزے میں 54فیصد اسرائیلیوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ بل نے فوج کو تقسیم کردیا ہے جس سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑسکتی ہے، جبکہ 56 فیصد
اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ خانہ جنگی اسرائیل کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔
دوسری طرف بی بی مُصر ہیں کہ عدالتی اصلاحات سے جمہوریت مضبوط ہوگی۔ امریکی ٹیلی ویژن ABC سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم اسرائیلی جمہوریت میں انھی اقدار و خصوصیات کی تجدید کررہے ہیں جو تمام جمہوریتوں میں مشترک ہے، یعنی اکثریت کی مرضی اور اقلیت کے حقوق کے درمیان توازن، جس کے لیے مملکت کی تینوں شاخوں کے درمیان اعتدال ضروری ہے۔
قانون سازی اسرائیل کا اندرونی معاملہ ہے، لیکن انتہاپسند اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں تشدد کی آگ بھڑکاکر عوامی تحریک کا رخ موڑنے کی کوشش خارج از امکان نہیں۔ وزیر دفاع یوآوو گیلنٹ (Yoav Gallant)نے صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے حماس، ایران اور حزب اللہ کے خفیہ اجلاس کا شوشا چھوڑ کر پیش بندی کا آغاز کردیا ہے۔ اسی کے ساتھ لیکڈ رکن کنیسہ نسم وطری (Nissim Vaturi) نے ایک نیا مسودہ قانون پیش کیا ہے جس کے تحت انتخابات کی ذمہ دار سینٹرل الیکشن کمیٹی (CEC) کے فیصلوں کو چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ الیکشن کمیٹی کے ارکان کا انتخاب کنیسہ کرتی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں CEC نے عرب جماعت البلد کی مملکت سے وفاداری مشکوک قرار دیتے ہوئے اسے انتخاب میں حصہ لینے سے روک دیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے کمیٹی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ بادی النظر میں نسیم وطری بل کا مقصد عرب جماعتوں کو انتخابات کے عمل سے باہر کرنا ہے۔
………………..
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔