اُردو میں جمع بنانے کے لیے ’جات‘ کا لاحقہ لگانے کی وبا شاید پہلے پہل ہمارے ’تھانہ جات‘ کو لاحق ہوئی ہوگی، پھر غالباً وہیں سے معاشرے کے دیگر ’شعبہ جات‘ کو بھی لگ گئی۔ ابھی ابھی ایک خبر سنی ہے۔ سنتے ہی’’طبیعت اچانک رواں ہوگئی ہے‘‘۔ خبر کچھ یوں ہے: ’’محرم الحرام کے پیش نظر آئی جی جیل خانہ جات (پنجاب) نے جیل افسران کی چھٹیاں منسوخ کرکے تمام جیل افسران کو صبح سے شام تک اپنے دفاتر میں موجود رہنے کی ہدایت کردی ہے۔ دو جیل افسران اندرونِ جیل رہیں گے، جن میں سے ایک افسر اہلِ تشیع قیدیوں کی مجلس والی جگہ پر موجود رہے گا اور وائرلیس پر جیل انتظامہ سے مسلسل رابطہ رکھے گا‘‘۔
فیصلہ احسن ہے۔ خبر بھی مستحسن ہے۔ مگر ’جیل‘ کے ساتھ ’خانہ‘ لگانا کیوں ضروری جانا گیا؟ ہے کوئی واقفِ رازِ درونِ ’جیل خانہ‘ جو بتا سکے؟ سنا ہے جیل میں ہر طرف ’خانہ جات ہی خانہ جات‘ ہوتے ہیں۔ توکیا خبر اِنھیں ’خانہ جات‘ کو دیکھ کر کسی بوجھ بجھکڑ نے پورے جیل کو ’جیل خانہ جات‘ کا خطاب دے ڈالا ہو۔
’خانہ‘ گھر یا مکان کو کہا جاتا ہے۔ گھروں کے اندر واقع مرغیوں اور کبوتروں کی قیام گاہ کو بھی ’خانہ‘ کہتے ہیں۔ شطرنج کی بساط پر بنا ہوا وہ مربع بھی ’خانہ‘ ہے جس پر شطرنج کے مہرے بٹھائے جاتے ہیں۔ کسی شے کے رکھنے کو میز یا الماری میں کوئی گوشہ مخصوص کردیا جائے یا کوئی ڈبا الگ سے بنادیا جائے تو اُسے بھی ’خانہ‘ کہا جاتا ہے، مثلاً کاغذات کا خانہ، زیورات کا خانہ یا چشمے کا خانہ۔ جیل، زنداں، محبس وغیرہ میں مقام، گھر یا مکان کا تصور پہلے سے موجود ہے، لہٰذا ان ناموں کے ساتھ ’خانہ‘ لگانا تکرارِ لفظی ہے۔ ہاں قید خانہ اور بندی خانہ درست تراکیب ہیں کہ ان سے مراد قید و بند کی جگہ لی جاتی ہے۔
جب ’جیل خانہ‘ ہی نادرست ترکیب ٹھیری تو ’جیل خانہ جات‘ کو کیسے صحیح مان لیا جائے۔ مگر ماننا ہی پڑے گا۔ نہیں مانیں گے تو ہمارے ہاں مکمل ’محکمۂ جیل خانہ جات‘ موجود ہے جو فوراً حرکت میں آجائے گا اور آپ کی نقل و حرکت مسدود کرنے کو ساتھ لے جائے گا۔
خبر میں ایک لفظ ’تشیع‘ آیا ہے جس کا تلفظ خود بہت سے اہلِ تشیع بھی ’تَشی‘ کرتے ہیں۔یہ لفظ نہیں آساں۔اس لفظ کے ’ت‘ اور ’ش‘ پر زبر ہے۔ ’ی ‘پر تشدیدکے ساتھ پیش ہے۔اسے ’’تَشَی یُع‘‘ بولا جائے گا جیسے تغیر بولتے ہیں۔تَشَیُّع کا مطلب ہے شیعہ مذہب اختیار کرنا۔ اس کے مقابلے کا لفظ ’تَسَنُّن‘ ہے یعنی مذہبِ اہلِ سنت اپنانا۔ مکتب ِفکر یا مسلک ہی کو ’مذہب‘ کہا جاتا ہے۔ مکمل ضابطۂ حیات’ دین‘ کہلاتا ہے۔ اللہ کے نزدیک ’دین‘ صرف اسلام ہے۔ ’اسلام‘ کے لیے قرآن و حدیث میں ’مذہب‘ کا لفظ کہیں استعمال نہیں کیا گیا۔
ہاں تو بات ہورہی تھی ’جات‘ کی۔ کسی کوتوالی کے محرر نے پرچہ لکھا: ’جلسے پرغنڈہ جات نے ڈنڈہ جات سے حملہ کردیا‘۔ اگر یوں لکھ دیا جاتا کہ ’غنڈوں نے ڈنڈوں سے حملہ کردیا‘ تو کیسے ثابت ہوتا کہ پرچہ کوتوالی کے محرر نے کاٹا ہے۔ انگریزوں سے پہلے ہمارا ہر ‘Police Station’ ’کوتوالی‘ تھا اور ہر’Station House Officer’ ’کوتوال‘۔ شہر بھر کے تھانوں کا سربراہ ’کوتوالِ شہر‘ کہلاتا تھا۔ مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم لکھتے ہیں کہ ’’[کوتوال] مفرس ہے۔ فارسیوں نے ہندی الفاظ سے بنا لیا ہے‘‘۔ ہندی میں ’کوٹ‘ قلعے کو کہتے ہیں اور ’وال‘ محافظ کو۔گویا ’کوٹ وال‘ یا کوتوال کا مطلب ہوا قلعے اور حصار کا محافظ۔ عربی میں بھی ’وال‘ نجات دہندہ یا پناہ دینے والے کو کہتے ہیں۔ ’والی‘ کا مطلب ہے محافظ اور نگہبان۔ ہم سب کا اللہ والی ہے۔ خواتین ’اللہ بیلی‘ کہہ کر رخصت کرتی ہیں۔ یعنی اللہ تمھارا نگہبان ہو۔ ’بیلی‘ کا مطلب بھی محافظ و نگہبان ہے۔ کوتوال کا کام حفاظت و نگہبانی تھا۔ ’کوت‘ لکڑی کے اُس شکنجے کو کہتے تھے جس میں بندوق رکھی جاتی تھی۔ آج بھی ہمارے تھانوں کا اسلحہ خانہ ’کوت‘ ہی کہلاتا ہے۔ پہلے تھانوں میں ’پرچۂ ابتدائی‘ کاٹا جاتا تھا، اب ‘FIR’ کاٹی جاتی ہے۔ رپورٹ کا لفظ اُردو نے قبول تو کرلیا تھا مگر اس کی تارید کرکے یعنی اس لفظ کو ’اُردوا‘ کر۔ اکبرؔ کا یہ مشہور شعر دیکھیے جس میں ‘Report’ لکھوانے کا ذکر ہے:
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اِس زمانے میں
کوتوال سے سبھی ڈرتے ہیں، مگر ’بیگم کوتوال‘ کسی سے نہیں ڈرتیں۔ ’سیّاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا؟‘ اُلٹا کوتوال ہی اُن سے ڈرے ہے۔ کوتوال کیسا ہوتا ہے؟ مشتاق احمد یوسفی اپنے شہ پارے ’’حویلی‘‘ میں بشارت کے سسر کا ’مَس-خاکہ‘ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’چہرے، چال اور تیور سے کوتوالِ شہر لگتے تھے… نکلتا ہوا قد۔ چلتے تو قد، سینہ اور آنکھیں تینوں بیک وقت نکال کر چلتے تھے‘‘۔
گویا کوتوال کو بھی غنڈوں جیسے تیور بناکر چلنا پڑتا ہے۔ غنڈا اکثر الف ہوجاتا ہے۔ پس اس کے آخر میں الف لگانا واجب ہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ نہیں ہے کہ غُنڈَۃٌ لکھا جائے۔ البتہ فارسی اور پشتو میں غُنڈ یا غُنڈہ جمگھٹے اورجھنڈ کو کہتے ہیں۔ یہ صفت ہے۔ ایک جگہ جمع کیا ہوا یا کسی کے اردگرد جمع شدہ۔ ہماری مہمند ایجسنی میں مکانوں کے ایک جھنڈ (یعنی بستی) کا نام ’یکہ غنڈ‘ ہے۔ ’غنڈا‘ یا ہندی اور انگریزی کا ’گُنڈا‘ دراصل لچا، لفنگا، اوباش اور بدمعاش ہوتا ہے۔ مذکورہ محرر نے جس املا سے غنڈہ لکھا اُسی املا سے ’ڈنڈہ‘ بھی لکھ دیا۔ اچھا کیاکہ سب غنڈوں کو ’ہ‘ کے ڈنڈوں سے ہانکا۔کچھ لوگ انڈا کو بھی ’انڈہ‘ لکھتے ہیں۔ اس طرح بڑے سے بڑا انڈا بالکل چھوٹا سا ’انڈہ‘ لگنے لگتا ہے۔
لغات میں بتایا گیا ہے کہ ’جات‘ اور ’جاتی ‘ ہندی الفاظ ہیں۔ مطلب: اولاد، نسل، برادری، قوم، گوت وغیرہ۔ یہ لفظ اُردو میں ’ذات‘ ہے۔ ’جات‘ سے ’جاتا‘ بھی بنایا گیا اور ’جایا‘ بھی۔ معنی:’جنا ہوا‘ یا ’زائیدہ‘۔ نیا نیا جنا ہوا ’نوزائیدہ‘ ہوتا ہے۔ ’ماں جایا‘ وہ بھائی ہے جو ایک ہی ماں سے ہو۔ ’جاتا‘ کا لفظ اُردو کے ایک محاورے میں بھی آتا ہے: ’’جورُو نہ جاتا، اللہ میاں سے ناتا‘‘۔ یعنی بیوی بچے کوئی نہیں، بس اللہ وارث ہے۔ گویا جن لوگوںکے ’جورُو جاتا‘ پایا جاتا ہے، اُن کا اللہ میاں سے کوئی ناتا نہیں ہوتا۔ زن مرید کہیں کے۔
’جات‘ کا مطلب بتانے سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ ’جات‘کا لفظ ’جمع بنانے کے آلے کے طور پر‘ لغات میں نہیں ملا۔ اس کے باوجود ہمیں پرچہ جات، پرزہ جات، پارچہ جات، حوالہ جات، مسالہ جات، میوہ جات، صوبہ جات، جیل خانہ جات، محکمہ جات بلکہ محکمہ جاتی کارروائی بھی سننے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔ نہ جانے ’محکمے‘ لکھنے یا پڑھنے میں کیا مشکل ہے اور ’محکمانہ کارروائی‘ کرنے میں کیا دشواری ہے۔ ’محکمہ جیل خانہ جات‘ کو بھی آسان کرکے ’محکمۂ جیل‘ لکھا، پڑھا اور بولا جا سکتا ہے۔ اس کے آئی جی صاحب بھی ’آئی جی محکمۂ جیل‘ ہوجانے میں تنزلی نہیں، ترقی ہی محسوس کریں گے۔ پرچے، پُرزے، پارچے، حوالے، مسالے، میوے اور صوبے لکھنے سے بھی جمع ہی کا تاثر پیدا ہوگا۔ مگر پھر ’جات‘ جیسے مفید لاحقے کا کیا مصرف ہوگا؟ یہ ایسی جادوئی چیز ہے کہ جس لفظ کی جمع معلوم نہ ہو فوراً اس کی’جمع جات‘ بنادیتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر غازی علم الدین کی رائے سے متاثر ہوکر ہمارا یہ خیال بنا کہ ’مُندَرِج‘ کی جمع’ مُندَرِجات‘ کو دیکھ کر کسی ذہین اور طباع شخص نے جمع بنانے کا یہ قاعدہ ایجادکرلیا ہوگا، چناں چہ اسی قاعدے کے تحت لوگ باگ مُندَرِجات کو بھی اب ’مَندَرْجات‘ بولنے لگے ہیں۔
ہم نے تو صاحب، ایک مؤقر سرکاری جامعہ کی دو روزہ عالمی کانفرنس کے ’کارروائی نامے‘ میں بھی اُن ’مقالہ جات‘ کی فہرست دیکھی جو وہاں پیش کیے جانے والے تھے۔ دیکھتے ہی مذکورہ عنوان پر انگشت نمائی کرتے ہوئے کانفرنس کے منتظم اور میزبان سے گلہ کیا:
’’قبلہ! ہمارا تو گمان تھا کہ یہاں وقیع مقالات پڑھے جائیں گے مگر آپ شاید ان عالم فاضل پروفیسروں اور ڈاکٹروں سے ’مقالہ جات‘ پڑھوانے پر تُلے ہوئے ہیں‘‘۔
پہلے تو بے چارے بے بسی سے ہمارا منہ دیکھتے رہے، پھر یکایک اپنے ’دنداں جات‘ نکال کر اپنے ’مسوڑھا جات‘ کی نمائش کرنے لگے۔