دارالمصنفین اعظم گڑھ کے رفیق اور ماہرِ لسانیات مولانا ابوالجلال ندوی اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے ساتھ قدیم زبانوں عبرانی اور سنسکرت کے بھی ماہر تھے۔ بقول مولانا عبدالمتین منیری بھٹکلی: ”مولانا ابوالجلال ندوی غالباً حمید الدین فراہی کے بعد واحد شخص تھے جنھوں نے باقاعدہ عبرانی زبان سیکھی تھی اور اہلِ کتاب کے مقدس اسفار براہِ راست پڑھتے اور سمجھتے تھے اور کئی علوم میں یکتا تھے۔ ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، ان کی تحقیق کا اہم محور ملّتِ ابراہیم اور دینِ حنیف کی کھوج تھی اور ہندوئوں میں رائج رامائن وغیرہ مذہبی داستانوں کے تانے بانوں کو فراعنہ مصر سے جوڑنا تھا۔“
مولانا ابوالجلال ندوی 22 اپریل 1894ء کو ہندوستان کے ضلع اعظم گڑھ کے ایک قصبے چرّیا کوٹ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی، اس کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء (لکھنؤ) میں داخل ہوئے۔ 1922ء میں ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے سید سلیمان ندوی نے انھیں دارالمصنفین کے رفیق کے منصب پر فائز کیا۔ دارالمصنفین میں مولانا کا قیام 1923ء سے 1928ء تک رہا۔ لسانیات، علم الاشتقاق اور تقابل ِادیان مولانا کی دلچسپی اور تحقیق کے خاص موضوعات تھے۔دارالمصنفین کی علمی و تحقیقی فضا نے ان کے ادبی و لسانیاتی ذوق کومزید پروان چڑھایا اور ان کی تحقیقات، بالخصوص مضامین اعلام القرآن اور تنقیدی تبصرے ”باب التقریظ والانتقادٗ“ کے عنوان سے ماہنامہ ”معارف“ (اعظم گڑھ) کے صفحات کی زینت بنے۔
معارف میں مولانا ابوالجلال ندوی کے شائع ہونے والے مضامین پڑھ کر ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے معارف کو لکھا تھا:
”مجھے یاد نہیں کبھی اس سے پہلے مولانا ابوالجلال ندوی کی کوئی چیز پڑھی ہو، گزشتہ سال میں ان کے جو مضامین چھپے ہیں، ان سے ایسا معلوم ہوا کہ آسمانِ علم پر ایک نیا کوکب دری، ایک درخشاں تارا نمودار ہوگیا ہے، خدا اسے بہت دن تاباں رکھے، ان کی تحقیقات قابلِ رشک ہیں۔ “
پانچ چھے برس دارالمصنفین میں قیام کے بعد مولانا مدرسہ جمالیہ عربک کالج کے پرنسپل ہوکر مدراس چلے گئے۔ قیام مدراس کے دوران مولانا کو متعدد مخطوطات پر تحقیق کے مواقع بھی میسر آئے مثلاً انھوں نے سنسکرت کے چند ایسے قدیم مخطوطات کو پڑھا جو تاڑ کے پتوں پر لکھے ہوئے تھے۔ مدراس کی ”ارل آف کینبر میوزیم لائبریری“ میں موجود مصری مخطوطات اور تصویری تحریروں پر بھی تحقیق کی۔ اسی کتب خانے میں موجود موئن جو دڑو کی مہروں کے کچھ عکس ان کی نگاہ سے گزرے اور انھوں نے ان مہروں پر کندہ حروف کو پہچان کر پڑھ لیا۔ قرآن مجید کے حروفِ مقطعات کو سمجھنے کے لیے انھوں نے تمام موجود زبانوں کے حروفِ ابجد اکٹھا کیے۔ کچھ مُردہ زبانوں کے ابجدی حروف بھی انھوں نے جمع کیے۔ تصویری نقوش والے حروف پر بھی ان کو دسترس حاصل ہوگئی تھی۔
1959ء میں مولانا پاکستان آگئے۔ یہاں ان کے متعدد مقالات پاکستانی رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوئے۔ جب کہ مولانا کے تحریر کردہ ہزاروں صفحات یادداشتوں کی صورت میں محفوظ ہیں لیکن تاحال ان کی اشاعت عمل میں نہیں آسکی ہے۔ نوّے سال کی عمر میں 14 اکتوبر 1984ء کو مولانا کا انتقال کراچی میں ہوا اور سعود آباد ملیر کے ایک قبرستان میں آسودئہ خاک ہوگئے۔
پیشِ نظر کتاب مولانا ابوالجلال ندوی کے درجِ ذیل متفرق مضامین پر مبنی ہے جو مختلف جرائد و رسائل میں شائع ہوئے تھے:
1۔ آغازِ کلام، 2۔ دعوتِ عشق، 3۔ شق القمر و خضر کا ذکر، 4۔ اسلام اور سرمایہ داری، 5۔ حبِ مال اور دعوتِ قرآنی، 6۔ ایام حج، 7۔ مسجد اور باجا، 8۔ سیاست اور اسلام، 9۔ حقیقی جمہوریت۔ ایک نعمتِ عظمیٰ، 10۔ ایمان اور آزمائش۔ لازم و ملزوم، 11۔ بنی اسرائیل کی غلامی کا ایک اور ثبوت، 12۔ مسلمانوں کے پہلی صدی کے طبی کارنامے، 13۔ مسلمانوں کے ایرانی علوم پر احسانات، 14۔ خواتینِ اسلام کے علمی کارنامے، 15۔ خواتینِ اسلام کی سیاسی بصیرت، 16۔ سلاطینِ مغلیہ کے عہد میں پولیس کا انتظام، 17۔ الفاظ کو اپنانا، 18۔ دروزیوں کا مذہب، 19۔ مستدرک حاکم کا مطبوعہ نسخہ، 20۔ لطیف آرکاٹی، 21۔ اسلامی شمسی و قمری سال، 22۔ سرِ اکبر یا اُپنشد، 23۔ ویدوں کے ظاہر کنندہ اور پیدائشِ دنیا از روئے وید
جب کہ ماہنامہ معارف (اعظم گڑھ) میں ”باب التقریظ والانتقاد“ کے تحت شائع ہونے والے درجِ ذیل تبصرے و تنقیدی مضامین بھی اس میں شامل ہیں:
1۔ سلسلہ حق، 2۔ اخبار الاندلس۔ جلد اوّل، 3۔ خلافتِ موحدین، 4۔ سرگزشتِ الفاظ، 5۔ الوراثۃ فی السلام، 6۔ اخبار الاندلس۔ جلد دوم، 7۔ المجمع العلمی العربی، 8۔ ینابیع المسحییۃ، 9۔ جدید دنیائے اسلام، 10۔ اخبار الاندلس۔ جلد سوم، 11۔ تاریخِ اسلام، 12۔ نظریہ اضافیت، 13۔ دینِ کامل، 14۔ مراۃ الشعر، 15۔ مقتطف کی جوبلی، 16۔ نبراس الساری فی اطراف البخاری، 17۔ ادب العرب، 18۔ تلقیح فہوم اہل الاثر، 19۔ مشرقی کتب خانہ پٹنہ، 20۔ خمیس اللغات، 21۔ مشرقی کتب خانہ بانکی پور، 22۔ بیداریِ ہند۔ جلد اول، 23۔ ترجمان السنۃ، 24۔ مشکلات القرآن
علاوہ ازیں مولانا کے بارے میں معظم جاوید بخاری، مولانا ثناء العمری، محی الحق فاروقی اور مولانا عبدالمتین منیری کے مفصل مضامین بھی کتاب کی زینت ہیں جن سے مولانا کی شخصیت اور کام کے بارے میں مفید معلومات ملتی ہیں۔
صاحبِ کتاب معظم جاوید بخاری لکھتے ہیں:
”سنہ 1915ء سے لے کر سنہ 1948ء تک مولانا نے متعدد مضامین لکھے ہیں اور وہ کسی ایک رسالے میں نہیں بلکہ درجنوں رسالوں میں شائع ہوئے ہیں۔ ایسے رسائل و جرائد میں شائع ہوئے ہیں جن کے نام تک معلوم نہیں ہیں۔ خصوصاً مدراس اور بنگلور میں شائع ہونے والے رسائل کے مضامین تک رسائی ممکن نہیں۔ یہ تالیف گو مکمل نہیں ہے کیونکہ ابھی بھی مولانا مرحوم کے متعدد مضامین گرفت سے باہر ہیں۔ اس بات کی بھی توقع ہےکہ آئندہ ایام میں مجھ جیسا کوئی اور مداح بھی باقی رہ جانے والے بکھرے ہوئے مضامین کو یکجا کرنے کی کوشش ضرور کرے گا۔ ان متفرق مضامین کی نوعیت و افادیت بھی کسی لحاظ سے کم نہیں ہے، علمی و دینی حلقہ احباب ان سے بھرپور استفادہ پائیں گے۔“
اپنے عہد کی ایک عبقری شخصیت کے ان نادر و نایاب مضامین کی تدوین و تہذیبِ نو اور کتابی صورت میں بارِ دگر ان کی اشاعت علمی دنیا پر ایک قرض تھا جسے بخاری صاحب نے بحسن و خوبی ادا کرنے کی سعی کی ہے، جس کے لیے وہ ہمارے شکریے کے مستحق ہیں۔