”عجیب سی حرکتیں ہیں سر اس کی۔ کسی کے پاس نہیں جاتی، اگر کوئی ٹچ بھی کردے تو بری طرح ری ایکٹ کرتی ہے۔“
”سر! بس پورے دن گول گول گھومتا ہی رہتا ہے، گاڑیوں کی لائن بناتا رہتا ہے، یا پھر ایک کونے میں اپنے مخصوص کھلونوں سے ہی کھیلتا ہے۔
میں نے گوگل پر سرچ کیا۔ یہ Autism کیا ہوتا ہے سر؟“
یہ سوال اب کلینک میں اکثر پوچھا جانے لگا ہے۔
کبھی کبھی والدین بچوں کو لے کر آتے ہیں اور دورانِ گفتگو یا ان کے معائنے کے دوران اندازہ ہوجاتا ہے کہ عام رویّے کی نسبت اس بچے/ بچی کا رویہ مختلف ہے،
مثلاً آپ نام سے مخاطب کرتے ہیں مگر وہ آپ کی طرف متوجہ نہیں۔ آپ چیک کرنا چاہیں تو شدید ردعمل نظر آئے۔ مسلسل کمرے میں چکر لگاتا رہے، ایک جگہ ٹک کر نہ بیٹھے، وغیرہ وغیرہ۔
ضروری نہیں کہ ہر وہ بچہ جس کا رویہ عام بچوں سے مختلف محسوس ہو وہ Autism کا شکار ہو۔ کسی اور وجہ سے بھی وہ آپ کو مختلف لگ سکتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ جب کوئی غیر معمولی بات محسوس ہو تو اس پر والدین سے کھل کر گفتگو کرنی چاہیے۔
بچے کسی نہ کسی طریقے سے آپ کے ساتھ کمیونیکیشن کرتے ہیں، اپنی پسند، ناپسند کا اظہار کرتے ہیں،اور Autism یا Autism Spectrum Disorder میں سب سے بڑا مسئلہ ہی کمیونیکیشن (Communication) یا حسیات (Sensory) کے مسائل کا ہے۔
جب کلینک میں بچوں کا چیک اپ کروائیں تو اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ عمر کے مختلف حصوں میں بچے مختلف کام کرلیتے ہیں، اگر وہ آپ کے ساتھ آنکھیں نہیں ملا رہے، اپنے نام پر متوجہ نہیں ہورہے، بچوں کے ساتھ کھیلنے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے، مسلسل صرف ایک مخصوص انداز میں ہی کھیل رہے ہیں، گھوم رہے ہیں، ایک ہی طرح سے ہاتھوں کو حرکت دے رہے ہیں، کھلونوں کی قطار بنارہے ہیں، ایک ہی لفظ کو، یا آپ کے کہے ہوئے کسی لفظ کو بار بار دہرا رہے ہیں تو سوالات ضرور ہونے چاہئیں۔ کیا فیملی میں ایسا کوئی اور ہے؟ پہلی بار والدین نے نوٹس کب لیا؟ وغیرہ وغیرہ۔ Autism یا Spectrum Disorder پر مسلسل ریسرچ جاری ہے، کہا جاتا ہے کہ مغربی ممالک میں زیادہ بچوں میں پایا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں بھی ایسا نہیں کہ موجود نہ ہو۔ ہمارے ہاں چونکہ کسی بھی مسئلے کو ٹالنے کی عادت ہے اس لیے بہت سے مواقع پر جہاں پہلے ہی مسئلے کو پکڑ لینا چاہیے وہاں پر اس کو ٹالا جاتا ہے، جس کی وجہ سے Early Intervention یعنی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش میں تاخیر ہوتی ہے۔
چونکہ ابھی تک اس بیماری کی کوئی خاص وجہ دریافت نہیں ہوئی، اور اس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ شاید Genes یا پھر نئی معلومات کے مطابق کچھ خاص پروٹین کی کمی یا نائٹرک آکسائڈ کی زیادتی کی وجہ سے ہے۔مگر یہ تمام معلومات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں اور کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی، اس لیے کوئی دوا ایسی نہیں جو کہ مخصوص انداز میں استعمال کی جاسکے۔
بچوں میں یہ مسئلہ یعنی Autism چونکہ کمیونیکیشن کا ہے، اس لیے اس کے حل کے لیے انفرادی طور پر کام کیا جاتا ہے، اس میں مختلف قسم کی تھراپیز (Therapies) کی جاتی ہیں۔
زبان کی بہتری کے لیے Speech Therapy، زندگی سے متعلق چھوٹے چھوٹے کام مثلاً کپڑے پہننا، جوتے پہننا، خود سے نہانا وغیرہ، سکھانے کے لیے Occupational therapy، اس سے جڑے نفسیاتی مسائل کے لیے سائیکو تھراپی، اور اگر واقعی کچھ اعصابی مسائل ہیں جیسے کہ جھٹکے، ڈپریشن یا Anxiety وغیرہ… تو پھر ان کے حل کے لیے ادویہ۔
اصل بات یہ ہے کہ بچوں کو اگر ابتدائی دور میں ہی Diagnosed کرلیا جائے، ان کے مسائل کو سمجھ لیا جائے کہ یہ بچے Communication اور inter personal Skills میں دیگر بچوں سے مختلف ہیں، تو ان کے لیے ڈاکٹر، والدین، ٹیچر اور تھراپسٹ کو ذرا مختلف انداز سے سوچنا اور کام کرنا ہوگا، اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم ان بچوں کی کوئی مدد کرسکیں، ورنہ ان بچوں کے سوچنے کا طرز بالکل مختلف ہوتا ہے۔ یہ بہت ہی Literal انداز میں سوچتے ہیں، اور اس کی طرح عمل بھی کرتے ہیں۔ مذاق سمجھ نہیں پاتے اور مخصوص گفتگو کے سوا ان کو باتیں بنانا بھی نہیں آتیں۔ اس لیے کچھ لوگ ان کو بے وقوف اور منہ پھٹ بھی گردانتے ہیں۔
اپنے اردگرد موجود ایسے بچوں کا خیال کریں اور ان کی اور ان کے والدین کی مدد کریں۔، Autism اور Autism Spectrum Disorder کا فی الحال کوئی حتمی علاج نہیں، مگر اس کی تھراپی سے ان کی زندگی میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔