گیارہ سالہ بیٹی کا آزاد کشمیر اسمبلی میں مختصر تاریخی اور جذباتی خطاب
تہاڑ جیل دہلی میں مقید کشمیر کے سربرآوردہ راہنما محمد یاسین ملک کی گیارہ سالہ صاحبزادی رضیہ سلطان نے آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سے ایک تاریخی، جذباتی اور مختصر خطاب کیا۔ اجلاس کی صدارت اسپیکر قانون ساز اسمبلی چودھری لطیف اکبر کررہے تھے، جبکہ ایوان میں وزیراعظم چودھری انوارالحق اور کئی سابق وزرائے اعظم بھی موجود تھے۔ انہوں نے اپنے والد کے مقدمے کی بات کی اور کہا کہ 9 برس سے وہ اپنے والد سے نہیں مل پائیں۔ اس موقع پر ان کی والدہ مشال ملک بھی مہمانوں کی گیلری میں موجود تھیں۔ رضیہ سلطان جو کشمیری کڑھائی سے مزین مخصوص لباس ’’پھیرن‘‘پہنے ہوئے تھیں، انگریزی میں تقریر کررہی تھیں اور ایوان میں موجود لوگ اُن کی تقریر کو پوری توجہ اور انہماک سے سن رہے تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز اس شعر سے کیا:
یارانِ جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی
رضیہ سلطان کا کہنا تھا کہ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ یاسین ملک بین الاقوامی طور پر کشمیر کی مزاحمت کی علامت ہیں۔ انہوں نے کہا: میں صرف دو سال کی تھی جب آخری بار اپنے والد سے ملی، میرے والد کو ایک جھوٹے مقدمے میں سزا سنائی گئی ہے۔ انہوں نے نریندر مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اگر میرے والد کو کچھ ہوا تو اس کی ساری ذمہ داری براہِ راست مودی پر عائد ہوگی۔ انہوں نے اپنا خطاب ”ہم کیا چاہتے ہیں… آزادی“ کے نعرے پر ختم کیا۔
وزیراعظم چودھری انوارالحق نے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ رضیہ سلطان کی تقریر کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے عالمی اداروں اور سفارت خانوں کو بھیجا جائے۔ یہ ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک نسل کےدرد و کرب کی کہانی ہے۔
رضیہ سلطان کا یہ خطاب ایسے وقت میں ہوا جب ڈیڑھ ماہ بعد بھارت کی ہائی کورٹ یاسین ملک کے مقدمے کا ازسرنو جائزہ لینے جارہی ہے، اور اس درخواست کا جائزہ لیا جانا ہے جس میں ان کی عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں بدلنے کی استدعا کی گئی ہے۔ بھارت کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے نے چند ماہ قبل عدالت سے کشمیری راہنما محمد یاسین ملک کو سزائے موت دینے کی استدعا کی ہے جس کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے معاملے کی مزید سماعت کے لیے یاسین ملک کو اصالتاً طلب کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ گویا کہ اب یاسین ملک عدالت میں دوبارہ پیش ہوکر اپنی صفائی پیش کریں گے۔یوں عدالت نے این آئی اے کی درخواست قبول کرکے یاسین ملک کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔
57 سالہ محمد یاسین ملک کو منظر سے ہٹانا کیوں ضروری ہوگیا ہے ؟ اس کی کئی توجیہات ہیں۔محمد یاسین ملک کشمیر کی مسلح جدوجہد کے بانیوں میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1980ء کی دہائی میں اسلامک اسٹوڈنٹس لیگ سے کیا اور 1987ءکے انتخابات میں وہ مسلم متحدہ محاذ کے امیدوار کے چیف پولنگ ایجنٹ او رپُرجوش حامی تھے۔اسی دوران دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے پر انہیں کشمیر پولیس نے گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا۔بعد میں انہوں نے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے بینر تلے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور ان کا شمار سری نگر شہر کو کنٹرول کرنے والے لبریشن فرنٹ کے چار شہرئہ آفاق ایریا کمانڈروں میں ہونے لگا۔تین عشرے سے جاری کشمیری مزاحمت نے اپنے آخری موڑ پر درجنوں ناموں کی چھانٹی کرنے کے بعد تین بڑے ناموں کو اپنی قیادت کے طور پر چن لیا تھا۔ان میں سید علی گیلانی،میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک شامل تھے۔ان تینوں شخصیات میں قدرِ مشترک ان کی عوام میں جڑیں، ساکھ اور پذیرائی تھی۔میرواعظ عمرفاروق سری نگر کے ڈائون ٹائون علاقے اور جامع مسجد کے گردونواح میں عوام کے بے تاج بادشاہ تھے، تو اس سے باہر کی دنیا پر سید علی گیلانی کا راج تھا۔یہ سید علی گیلانی ہی تھے جنہوں نے جنرل پرویزمشرف کے کریک ڈائون کے نتیجے میں دم توڑتی ہوئی کشمیری مزاحمت کو اپنی تقریروں سے ایک نئی تگ وتاز دی،جس کے بعد اچانک ہی عسکریت سے فاصلہ قائم کرتا ہوا کشمیری سماج ایک بار پھر عسکری نوجوانوں کے گردجمع ہوگیا تھا۔ انہوں نے کشمیری شہیدوں کے جنازوںکو اُس وقت اونرشپ دی جب سیاسی قیادت کو عسکریت سے دورکیا جا چکا تھا۔جبکہ کشمیر کی ایک آزاد ریاست کا نظریہ رکھنے والے محمد یاسین ملک سری نگر کے پرانے شہر سمیت وادی کے طول وعرض میں اپنا اثر رسوخ رکھنے والی شخصیت تھے۔سید علی گیلانی اور یاسین ملک میں ایک قدرِ مشترک یہ تھی کہ دونوں کنٹرول لائن کی دوسری جانب یعنی آزادکشمیر بلکہ پاکستان، برطانیہ اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں اپنی حمایت رکھتے تھے۔اپنے مضبوط حلقہ ہائے اثر رکھنے والے ان سیاسی راہنمائوں کی ٹرائیکا دستِ قدرت کے ہاتھوں اُس وقت ٹوٹ گئی جب سید علی گیلانی کا انتقال ہوگیا۔میر واعظ عمر فاروق کوبھارت نے 5 اگست 2019ءسے گھر میں نظربند کردیا، اور یہ سیدعلی گیلانی کی ہی نظربندی کا اسٹائل ہے جنہیں کم وبیش دس سال تک دنیا سے کاٹ کر نظربند رکھا گیاتھا اور اسی عالم میں ان کا انتقال ہوا۔میرواعظ کو جامع مسجد کے پُرجوش نمازیوں سے دور رکھے ہوئے چار سال گزر گئے ہیں۔
بھارت کے اخبار دکن ہیرالڈ نے ایک رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ محمد یاسین ملک سید علی گیلانی کے بعد کشمیر کے موجود منظر پر وہ واحد راہنما تھے جو نڈر، بے خوف اور کشمیر میں مزاحمت کی ایک نئی لہر اُٹھانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔نوجوانوں کو ان کی باتوں میں سوز اوردرد ملتا ہے اور وہ ان کی باتوں کو قبول کرتے ہیں۔یاسین ملک کی ذات میں پنہاں یہی پوٹینشل ان کا سب سے بڑا دشمن بن گیا اورسید علی گیلانی کی حیات کے ڈوبتے سورج کے بعد آسمان ِ حریت پرکسی نئی شخصیت کے طلوع کے اندیشے کے باعث محمد یاسین ملک کا ’’انتظام ‘‘ضروری ہو گیا تھا۔یاسین ملک کو اپریل 2019ءمیں دہشت گردی کے لیے فنڈز منتقل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ 24مئی 2022ءکو انہیں بھارتی عدالت نے سزائے عمرقید سنادی،جس کے بعد ا ب نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی نے عدالت سے عمرقید کو سزائے موت میں بدلنے کی درخواست کی ہے۔این آئی اے کی طرف سے کی جانے والی یہ استدعا نہ صرف ایک ذہنیت کا پتا دے رہی ہے بلکہ بھارت اور نریندر مودی کے مستقبل کے عزائم کا بھی کھلا اظہار ہے۔ ایجنسی کی اس اپیل کے بعد کشمیر میں سراسیمگی پیدا ہوچکی ہے اور یہ سوال زبان زدِ عام ہے کہ کیا نریندر مودی کی حکومت اگلے انتخابات کو جیتنے کے لیے یاسین ملک کو افضل گورو کے انداز میں سزائے موت دے سکتی ہے؟
گزشتہ برس دہلی میں بھارتی عدالت نے تحریک آزادی کے راہنما محمد یاسین ملک کو عمرقید کی سزا سنائی تھی۔ یاسین ملک پر 120 الزامات پر مبنی فردِ جرم عائد کی گئی تھی جس کا دفاع کرنے سے انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ پہلے سے لکھا ہوا فیصلہ سنائیں اور مجھے پھانسی دیں، میں اپنے دفاع میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ یاسین ملک کی اس بات کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ بھارتی اداروں کی طرف سے یاسین ملک کو سزائے موت دینے کے حق میں دلائل دیے گئے تھے جن کا ذکر عدالت نے اپنے فیصلے میں بھی کیا تھا۔ محفوظ فیصلہ سنائے جانے کے دن یاسین ملک کو دوبارہ سخت حفاظتی حصار میں عدالت لایا گیا تھا۔ اس موقع پر جج نے کہا تھا کہ استغاثہ نے عدالت سے ان کی سزائے موت کی درخواست کی ہے، جس پر یاسین ملک نے کہا کہ وہ عدالت سے کسی قسم کی بھیک نہیں مانگیں گے مگر عدالت کو ان کے سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔ جج نے یہ کہہ کر ”اب ان باتوں کا وقت گزر گیا ہے“ سوالوں کا سامنا کرنے کے بجائے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ یاسین ملک کو سزا سنائے جانے کے دن کشمیر میں ہڑتال تھی جبکہ بھارتی فوج نے کسی بھی صورتِ حال سے بچنے کے لیے شہر و دیہات میں کرفیو نافذ کررکھا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ بھارتی حکومت کی تشفی یاسین ملک کی عمرقید سے نہیں ہورہی اور وہ انہیں سزائے موت دلوانا چاہتی ہے۔