صرف چند ہزار سرمایہ کاروں کے منافع کے لیے لاکھوں افراد بدترین زندگیاں گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں
یہ حیران کُن بات نہیں ہے کہ اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی جاری کردہ رپورٹ میں کراچی کا شمار دنیا کے ناقابلِ رہائش شہروں میں کیا گیا ہے۔ یہ نتائج 5 عناصر یعنی استحکام، صحتِ عامہ، تعلیم، ثقافت و ماحولیات اور انفرااسٹرکچر کو مدنظر رکھ کر اخذ کیے گئے ہیں۔ فہرست میں شامل 173 شہروں میں سے کراچی کا نمبر 169واں ہے۔
بلاشبہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، لیکن ایک بڑا شہر ہونے کی حیثیت سے اس کی حالت خاصی تشویش ناک ہے۔ سندھ کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی حصہ کراچی میں مقیم ہے۔ مالی وسائل اور آمدن کا ایک بڑا حصہ کراچی فراہم کرتا ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے اقتصادی فوائد کی خاطر کراچی کو بااختیار بننے سے روکنے کے لیے متنازع انتظامی اقدامات کیے ہیں۔
2010ء میں 18ویں ترمیم کے بعد سندھ کے وزیراعلیٰ اور کابینہ اراکین نے کچرا اٹھانے سے لے کر پبلک ٹرانسپورٹ چلانے تک، تمام ترقیاتی اور انتظامی امور اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ پھر شہریوں کو اپنی روزمرہ کی ضروریات کے حوالے سے فیصلہ سازی میں حصہ لینے کا حق بھی نہیں دیا گیا۔
کراچی کے سیاسی معاملات پیچیدہ نوعیت کے ہیں۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ سیاسی گروہوں، جماعتوں اور سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو فیصلہ سازی کے اختیارات حاصل ہیں، لیکن حقیقت میں یہاں اور بھی کئی گاڈ فادر ہیں۔ رسمی اور غیر رسمی ترقیاتی کام کرنے والے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ انہیں اپنے کاروبار کو جاری رکھنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ انہیں بلاتعطل فراہم ہوتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سرمایہ کاری کے لیے بلا روک ٹوک زمینوں کی فراہمی دیکھتے ہیں، یوں مقامی آبادیوں کو بے گھر کیا جاتا ہے اور کچی آبادیوں اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی آبادیوں سے لوگوں کو بےدخل کردیا جاتا ہے۔
صرف چند ہزار سرمایہ کاروں کے منافع کے لیے لاکھوں افراد بدترین زندگیاں گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ سے وابستہ کاروباری حضرات کو شہری انتظامیہ، تجربہ کار انجینئرز، آرکی ٹیکٹس، ٹھیکے داروں اور دیگر خدمات فراہم کرنے والوں کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔ یوٹیلٹی ایجنسیاں بھی ان اسکیموں کو سروسز فراہم کرنے کے لیے اپنے قوانین میں تبدیلیاں لے کر آتی ہیں۔
شہر کے وسطی علاقوں میں رہنے والے افراد پانی کی سپلائی میں تعطل سے نبردآزما ہیں، جبکہ ایم 9 موٹر وے پر قائم ہاؤسنگ سوسائٹی کے لوگوں کو پانی کی فراہمی میں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
اگر پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے بات کی جائے تو پرانی منی بسیں اور بڑی بسیں چلانے والوں کی جگہ اب تجارتی کمپنیوں نے لے لی ہے جو شہر کی سڑکوں پر نظر آنے کے لیے مہنگی بسیں اور دیگر مشنیری خریدتے ہیں۔
انتظامیہ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم (بی آر ٹی) سے شہر میں ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری آئے گی، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اگر تمام 7 بی آر ٹی لائنز بھی فعال ہوتی ہیں تو وہ 170 ارب کی لاگت کے ساتھ بھی شہر کے صرف 9 فیصد مسافروں کی ضروریات ہی پوری کرسکیں گی۔
درحقیقت بی آر ٹی کی وجہ سے بڑی کنسلٹنگ فرمز، سول اور دیگر ٹھیکے داروں، سپلائرز، خدمات کی فراہمی کرنے والوں و دیگر کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ عام شہری، خاص طور پر یونیورسٹی روڈ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں مقیم لوگوں کو بی آر ٹی پر ہونے والے کام کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے جس نے گاڑیوں کے لیے سڑک کو نمایاں طور پر تنگ کردیا ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں روزانہ رجسٹر ہوتی ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں بی آر ٹیز کے لیے خصوصی راستہ بنانے کا آخر کیا جواز ہوسکتا ہے؟ کراچی کی سڑکوں کی خستہ حالی کی وجہ سے گاڑیوں اور مسافروں کو بےانتہا مسائل کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہری دورانِ سفر غصہ، مایوسی اور بےبسی جیسے احساسات کا سامنا کرتے ہیں۔
اب کراچی کے پاس ’منتخب‘ میئر، ٹاؤن کونسل چیئرمین، یونین کمیٹی چیئرمین، کونسلرز اور دیگر منتخب نمائندے ہیں جنہیں دستیاب قانونی اختیارات کے تحت کام کرنا ہوگا۔ اگر ان کی قسمت اچھی ہوئی تو انہیں کام کرنے کے لیے کچھ فنڈز فراہم کردیے جائیں گے۔ توقع ہے کہ ان فنڈز سے ضروری اخراجات پورے کیے جاسکیں گے۔
مینجمنٹ، مرمت اور بحالی کے کاموں کے لیے مقامی حکومت کو صوبائی حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یوں صوبے کی دو بڑی حکومتوں کے درمیان اختیارات کا وہی روایتی کھیل ایک بار پھر شروع ہوجائے گا۔
تاہم یہ ممکن ہے کہ منتخب مقامی حکومت کے حکام ایسے طریقہ کار اپنائیں جن سے وہ حالات کو اپنے اور شہر کے مفاد میں تبدیل کرسکیں۔ اپنے عہدے کو استعمال کرتے ہوئے کونسلرز اور یوسی چیئرمین اپنے متعلقہ حلقوں میں جاکر شہریوں کے مسائل سن سکتے ہیں اور رہائشیوں سے روابط قائم کرسکتے ہیں۔
یہ منتخب نمائندگان سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنان، عوامی خدمت کا جذبہ
رکھنے والے افراد، کاروباری اور تجارتی افراد اور تعلیم کے شعبے کے افراد کے ذریعے ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دے سکتے ہیں جہاں شہر کے بنیادی اور اہم مسائل پر بحث کی جاسکے۔
کراچی کو قابلِ رہائش بنانے کے لیے انتظامیہ، سیاسی اشرافیہ اور کاروباری قیادت کو اہم معاملات پر اتفاقِ رائے کرنا ہوگا۔
اس حوالے سے شہر کی میٹروپولیٹن حدود کا تعین، تعمیرات کو ایک ضابطے میں لانا، شہر کے ورثے کو ثقافتی حیثیت دینا اور اس کی حفاظت کرنا، سڑکوں کی مرمت، امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے برادریوں کو منظم کرنا، اور آلودگی پر قابو پا کر ماحولیات کو بہتر بنانا، جیسے عوامل ابتدائی اقدامات ہوسکتے ہیں۔
[بشکریہ:Dawn.com]