پاکستان ایک سیاسی تجربہ گاہ ہے۔ اس میں عمومی طور پر نظام کو چلانے کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں اوراپنی مرضی و منشا کے مطابق سیاسی نظام کی بساط سجائی جاتی ہے۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کا تصور اور سیاسی و جمہوری روایات کو پسِ پشت ڈال کر ہم قومی سیاست کو مضبوط بنانے کے بجائے کمزور کرنے میں شامل ہوتے ہیں۔ آج ملک میں جمہوریت نہ صرف کمزور ہے بلکہ اپنی اہمیت بھی کھو رہی ہے۔ ملک تیزی سے عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آئینی طور پر اِس سال 12اگست تک اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرلیں گی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مدت پوری کرنے سے کچھ دن قبل اسمبلیوں کو تحلیل کرکے عام انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس وقت نگران حکومت کی تشکیل کے معاملات پر پسِ پردہ گتفگو چل رہی ہے۔ حکمران اتحاد اور اسٹیبلشمنٹ نگران وزیراعظم کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ عمومی طور پر کہا جارہا ہے کہ حکمران اتحاد کی کوشش ہے کہ نگران حکومت یا نگران وزیراعظم کی تقرری ان کی مرضی اور منشا کے مطابق ہو۔ دوسری طرف سیاسی پنڈتوں کے بقول حکمران اتحاد کمزور ہے اور نگران وزیراعظم کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کو ہی کرنا ہے۔ نگران وزیراعظم کی تقرری سے ظاہر ہوگا کہ کھیل سیاسی قوتوں کے ہاتھ میں ہے یا اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں۔ ابتدائی طور پر مسلم لیگ (ن) نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام نگران وزیراعظم کے طور پر پیش کیا ہے اور پیپلزپارٹی نے اس کی نفی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہم سے مسلم لیگ (ن) نے اس نام پر مشاورت کی ہے، نہ ہمیں اعتماد میں لیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے بقول اسحاق ڈار کا نام متفقہ نہیں۔ خود بہت سے مسلم لیگی بھی حیران ہیں کہ اسحاق ڈار کا نام کیسے اورکیونکر پیش کیا گیا ہے! اسحاق ڈار کا نام ایک سنگین مذاق کے طور پر لیا جانا چاہیے اور اس سے حکومت کی انتخابات اور انتخابات کی شفافیت کی صحت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خود پی ٹی آئی کے سربراہ کے بقو ل نگران وزیراعظم کے طور پر اس نام کاسوچنا بھی ایک سنگین مذاق سے کم نہیں۔ دوسری جانب یہ خبریں بھی عام ہیں کہ مسلم لیگ(ن) اپنی مرضی کا نگران وزیراعظم لانے میں ناکام ہورہی ہے اوراس پر نوازشریف خاصے نالاں ہیں۔کچھ لوگوں کے خیال میں آنے والے دنوں میں مسلم لیگ(ن) بالخصوص نوازشریف اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان نیا ٹکرائو ہوگا اور یہاں شہبازشریف کا امتحان ہوگا کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کا بھی امتحان ہوگا کہ وہ کہاں کھڑی ہوتی ہے۔ ویسے بھی پیپلزپارٹی محض نوازشریف کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کے موڈ میں نہیں ہے۔ نوازشریف کو لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کو پی ٹی آئی کے خلاف استعمال کیا ہے اورانہیں وہ کچھ نہیں دیا جارہا جو ان کا حق بنتا ہے۔
بظاہر لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے واقعی کچھ نہیں سیکھا، یا ان کو لگتا ہے کہ انتخابات تو ہوں گے نہیں، ایسے میں اسحاق ڈار کا نام محض سیاسی کھیل کا ہی حصہ سمجھا جائے۔ کیونکہ آج بھی اسلام آباد کے سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ نگران حکومت آگے جاکر عبوری حکومت میں تبدیل کردی جائے گی۔یعنی انتخابات کسی بھی جواز کو بنیاد بنا کر اگلے برس2024ء تک ٹالے جاسکتے ہیں۔کیونکہ جو لوگ اس ملک میں حکمرانی کے نظام کا تعین کرتے ہیں اُن کو لگتا ہے کہ فی الحال مرضی کے نتائج کا ملنا مشکل نظر آتا ہے،اس لیے ہمیں انتخابات کو آگے لے کر جانا ہے اور یہی بنیاد بنانی ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات ممکن نہیں۔
اوّل: جواز یہ بنایا جارہا ہے کہ نئی مردم شماری کے بغیر عام انتخابات کو کسی بھی طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ یعنی جیسے ماضی میں نعرے لگتے تھے کہ ’’پہلے احتساب اورپھر انتخاب‘‘۔ لیکن اب ’’پہلے مردم شماری اور پھر انتخابات‘‘ کا نعرہ انتخابات کو پیچھے دھکیلنے کے کھیل کا حصہ ہوسکتا ہے۔
دوئم: معاشی صورتِ حال کو بنیاد بنایا جائے اورکہا جائے کہ پہلے ہمیں معیشت درست کرنی ہے، اس کے بعد انتخابات کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔
سوئم: ملک میں امن و امان اور دہشت گردی کو بنیاد بنا کر بھی انتخابات سے فرار حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ایک عمومی رائے یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی بھی فوری انتخابات یعنی نومبر میں انتخابات کے حامی ہیں۔ایسا نہیں ہے، مسلم لیگ (ن) کو بھی فوری طو رپر انتخابات قبول نہیں۔ اگرچہ وہ مسلسل کہہ رہی ہے کہ انتخابات ہی ناگزیر ہیں،لیکن اسے اندازہ ہے کہ موجودہ معاشی حالات اورمہنگائی میں انتخابات میں جانے کا مطلب سیاسی خود کشی ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں بھی یہی سوچ موجود ہے کہ اگر ہم معاشی معاملات اور مسائل کا بوجھ خود اٹھانے کے بجائے نگران حکومت پر ڈال دیں تو لوگ اگلے چھے ماہ میں ہماری حکومت کو بھول جائیں گے اور مہنگائی سے جڑا سارا غصہ نگران حکومت پر نکلے گا۔ایک تاثر یہ بھی دیا جارہا ہے کہ حکومت کوہر صورت انتخابات کا راستہ اختیار کرنا ہوگا،کیونکہ امریکہ اور آئی ایم ایف کا جو دبائو ہے اس سے نکلنے کے لیے بھی مقررہ وقت پر عام انتخابات کاہی راستہ بچتا ہے۔اس لیے انتخابات کا ہونا یا نہ ہونا ایک ابہام پیدا کررہا ہے، کیونکہ اگر مرضی کے نتائج نہیں ملتے تو پھر اس مشق کیا فائدہ ہوگا! یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مرضی کے نتائج کے لیے بہت زیادہ دھاندلی اور سیاسی انجینئرنگ کرنا ہوگی جو خود انتخابی نتائج سمیت پورے انتخابی عمل کو ہی متنازع بنادے گی۔ اصل مسئلہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کا ہے، اور یہاں بدستور پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری ہے، اور انتخابات اگر وقت پر نہیں ہوتے تو اس کی وجہ بھی پی ٹی آئی کے سیاسی بندوبست کا نہ ہونا ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں یہ پریشانی بھی موجود ہے کہ اگر ان انتخابات میں پی ٹی آئی کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتی تو پھر انتخابی نتائج ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوں گے، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے سے ہی نتائج ان کے حق میں ہوسکتے ہیں۔ اصل جنگ بھی ان ہی دو صوبوں میں ہونی ہے اوران کے نتائج کو بنیاد بناکر ہی اگلی حکومت کا نقشہ کھینچا جائے گا۔
ایک بڑا ابہام یہ پیدا کیا جارہا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کو تفویض کردیا گیا ہے، اور اگر وہ انتخابات کی بروقت تاریخ نہیں دیتا تو پھر انتخابات کو آگے لے جایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ الیکشن کمیشن کہہ چکا ہے کہ اگر حکومت نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر انتخابات چار سے چھ ماہ آگے جاسکتے ہیں۔ دوسری طرف نگران وزیراعظم کے اختیارات میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے تاکہ اگر واقعی انتخابات کو آگے کرنا مقصود ہو تو نگران وزیراعظم اس کام میں مدد کرسکے۔ بنیادی طور پر انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے، دونوں کے پیچھے اصل کھیل یہی ہے کہ پورے انتخابی عمل پر نقب لگائی جائے۔ انتخابات اورانتخابی نتائج سمیت اگلی حکومت اگر اسکرپٹ کے تحت بنتی ہے تو انتخابات کا ہی راستہ اختیار کیا جائے گا، وگرنہ دوسری صورت میں انتخابات سے گریز کیا جائے گا۔ ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہی کروائے جائیں لیکن اس میں آخر ی لمحات تک ابہام رکھا جائے تاکہ نہ تو کوئی انتخابی مہم چلاسکے اورنہ ہی ووٹر کو متحرک کیا جاسکے۔ کیونکہ ایک خدشہ یہ ہے کہ گیارہ کروڑ سے زائد نوجوان ووٹرز اگر واقعی ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشنوںکی طرف جاتے ہیں تو پھر ان کا انتخاب پی ٹی آئی ہی ہوگی۔ اس لیے بھی دو ابہام پیدا کیے جارہے ہیں، اول یہ کہ انتخابات نہیں ہوں گے، اور دوئم، اگر ہوں گے تو عمران خان کو کسی بھی صورت قبولیت حاصل نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کو انتخابات کے لیے فری ہینڈ یا لیول پلیئنگ فیلڈ دی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے یہ تاثر عام ہے کہ نئی نگران حکومت بنتے ہی عمران خان کی گرفتاری متوقع ہے یا ان کو نااہل کردیا جائے، اور ان کی گھر میں نظربندی بھی کی جاسکتی ہے۔ بقول اسٹیبلشمنٹ کے ترجمان فیصل واوڈا کے: اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوگا۔ وہ کس کی مرضی سے یہ بیان دے رہے ہیں یا اُن کو یہ معلومات کون دے رہا ہے؟ یہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگرایسا ہوتا ہے تو پھر یہ بات بھی تسلیم کرلینی چاہیے کہ پورے انتخابی نظام کو ہی مشکوک بنادیا جائے گا، اور اس مصنوعی انتخابی عمل سے ملک کا سیاسی اورمعاشی بحران ایک بار پھر بڑھے گا، اور اس میں کئی طرح کے شدت کے پہلو دیکھے جاسکتے ہیں۔
اسی طرح مسلم لیگ (ن) یہ تاثر عام کررہی ہے کہ انتخابی شیڈول آتے ہی نوازشریف کی واپسی ممکن بنادی جائے گی۔ لیکن ایک اہم اور دلچسپ تاثر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے یہ دیا جارہا ہے کہ وہ نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تقرری کے بعد ملک میں آئیں گے۔ مسلم لیگ (ن) سمجھتی ہے کہ نئے چیف جسٹس کی موجودگی میں نوازشریف کے لیے کوئی مشکل نہیں ہوگی اور وہ ان کی آمد میں سہولت کار کا کردار ادا کریں گے۔ یعنی نئے چیف جسٹس کے آنے سے قبل ہی اُن کو متنازع بنانے کا کھیل بھی شروع کردیا گیا ہے، اورایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ ان کی آمد سے ہی نوازشریف کی واپسی ممکن ہوسکے گی۔ شہبازشریف جس شاندار انداز سے نوازشریف کو اگلے وزیراعظم کے طور پر پیش کررہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نوازشریف کی واپسی اتنی آسانی سے ممکن نہیں ہوگی۔ کیونکہ نوازشریف آنا تو ضرور چاہتے ہیں لیکن اُن کی پہلی اور آخری خواہش یہ ہوگی کہ ان کی آمد میں جو بھی سیاسی، انتظامی اور قانونی رکاوٹیں ہیں انہیں دور کیا جائے، کیونکہ وہ کسی بھی قسم کے خطرے کی موجودگی میں آنے سے گریز کریں گے۔ شہبازشریف چاہتے ہیں کہ اس کھیل میں نوازشریف بغیر کسی شرائط کے ان کی حمایت کو یقینی بنائیں تاکہ ان کی غیر موجودگی میں وہ خود کو اسٹیبلشمنٹ میں اگلے وزیراعظم کے طور پر قابلِ قبول بناسکیں۔ ویسے بھی اسٹیبلشمنٹ کسی بھی صورت نوازشریف پر دوبارہ اعتماد کے لیے تیار نہیں، اور اگر واقعی اسے بھی مسلم لیگ (ن) کی حمایت کرنا پڑی تو اس کی پہلی چوائس شہبازشریف ہی ہوں گے۔ بہت سے سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اگرچہ 2018ء کے انتخابات اسکرپٹ کے تحت ہوئے تھے اورعمران خان کی حکومت بھی ان ہی کی مدد سے آئی تھی تو اِس بار 2023ء میں اور زیادہ کھل کر اسکرپٹ کے تحت سیاسی نظام کی بساط بچھانے یا اسے بگاڑنے کا کھیل عروج پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بقول ان کو اگلے عام انتخابات کی کوئی مقصدیت نظر نہیں آرہی اور ایسے لگتا ہے کہ نئے انتخابات سے بھی بحران کم نہیں ہوگا بلکہ مزید بڑھے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن ہوں، نوازشریف ہوں، شہبازشریف ہوں یا آصف علی زرداری… سب کے لیے سب سے بڑا چیلنج انتخابات میں عام آدمی کو مطمئن کرنا ہے، کیونکہ ان کو لگ رہا ہے اور جو بھی عوامی سروے آرہے ہیں وہ حکومت کے لیے اچھے نہیں۔ اس لیے اگرچہ یہ سب جماعتیں بظاہر عام انتخابات کے بروقت انعقاد پر متفق نظر آتی ہیں مگر اندرونِ خانہ انتخابات کو اسی صورت قبول کرنے کے لیے تیار ہیں اگر نتائج ان کی مرضی کے مطابق ہوں۔ انتخابات سے فرار کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں اپنے آئین، قانون، جمہوریت سب کو ہی پیچھے چھوڑنا ہوگا۔ کیونکہ انتخابات میں تاخیر سے آئینی اور سیاسی مسائل ابھریں گے اورملک نئے بحران سے دوچار ہوگا۔لیکن کیونکہ ہماری سیاسی تاریخ مہم جوئی اور ایڈونچرز سے جڑی ہوئی ہے اور ہم اس کھیل کو کھیلنے کے عادی ہیں، اس کھیل میں آئین اور قانون کی حکمرانی کی فکر نہ پہلے کبھی ہمیں تھی اورنہ اب ہے، یہی وجہ ہے کہ جمہوری قوتیں خود ہی اپنے فیصلوں سے دست بردار ہوکر اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ مضبوط بنانے کے کھیل میں شامل ہیں۔ یہی سیاسی اور جمہوری قوتوں کی ناکامی ہے، جس کی بھاری قیمت عوام سمیت اس ملک اور یہاں کی سیاست اور جمہوریت کو بھی ادا کرنی ہے۔