مولانا وحید الدین خان کی تنقید کا جائزہ
مولانا مودودیؒ نے اپنے زمانے کے اسلوب میں جدید دور کے اذہان کے سامنے اسلام کی حقیقی روح اور اس کے مطالبات کو رکھا جس کے نتیجے میں عالم اسلام کی اکثریت نے ان کی اذان پر لبیک کہہ کر کام کا آغاز کیا۔ یہ کوئی قومیت یا مخلوقی کبریائی کی طرف اذان نہیں تھی، بلکہ توحیدِ کامل کی صدا تھی، جس کو پہلے سے لوگ محسوس تو کر رہے تھے لیکن واضح اور دو ٹوک الفاظ میں بیان کرنے سے قاصرتھے۔ مسلمانوں کے لیے درپیش چیلنج یہ تھا کہ وہ دورِ جدید سے جنم شدہ مسائل اور سوالات کا اسلام کی روشنی میں جواب تلاش کرسکیں۔ لیکن گلوبلائزیشن کے دور میں اس کی تشریح اور اس کا دفاع ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ بظاہر لوگ مخلوق کی خدائی میں خدائے واحد کی بندگی سے محروم تو نہیں تھے، لیکن صرف خدائے واحد کی جزوی، کلی اور ”الالہ الخلق و الأمر“ والی بندگی سے محروم ضرور تھے۔ اسی اثنا میں تنقید و تائید سے ماوراء مولانا مودودی ؒ صحابہ کرام والے بیانیے کو لےکر آئے تاکہ”لنخرج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ رب العباد“ بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ کی بندگی کی طرف لا سکیں۔
ملوکیت سے لے کر دور ِجدید تک دینِ اسلام کا تصور دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک تصور بادشاہ کا اور دوسرا مذہب کا۔ ان دو خودساختہ تصورات نے وقت گزرنے کے ساتھ ایسا رنگ پکڑا کہ کئی صدیوں تک یہ دین کا رنگ اختیار کرگئے تھے۔ دینِ اسلام کے حقیقی تصور کو دوبارہ سامنے لانے کے لیے ائمہ اربعہ اور محدثین کے ساتھ دیگر علماء نے بھی کوششیں کیں، جن میں نمایاں طور پر شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ، امام غزالیؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒوغیرہ نے اپنے حصے کی شمع جلائی۔ انہی حضرات کے بعد مولانا مودودیؒ جدید دور میں عالم کفر کے فتنہ انگیز زہریلے تیروں کے سامنے جواب کی صلاحیت کے ساتھ سینہ تان کر دین کی خدمت کے لیے کھڑے ہوئے۔ انہوں نے وہ فریضہ انجام دیا جو وقت کی شدید ضرورت تھی۔ اُس وقت ملوکی تصور ِدین کے غلبے میں جو تصور ِدین مولانا مودودی ؒنے پیش کیا، وہ وہی چودہ سو سال قبل اسلام کا حقیقی تصور تھا جس کے سامنے اور جس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے عالم کفر اُس وقت بھی کھڑا تھا اور آج بھی۔ اس تصور کو ہم زیادہ زیر ِبحث نہیں لاتے، اس لیے کہ اس کی توضیح و تشریح مولانا مودودی کی کتابوں اور لٹریچر میں موجود ہے۔ ہم یہاں مولانا مودودیؒ کے تصورِ دین پر تنقید کے نتیجے میں قائم ہونے والے تصورات اور اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اعتراضات کے جائزے سے پہلے مولانا مودودیؒ کے تصورِ دین کے بارے میں چند سطریں ملاحظہ کیجیے، تاکہ وہ بنیادی بات جس پر بحث ہو گی سامنے موجود ہو۔ مولانا مودودیؒلکھتے ہیں:
”حقیقت میں دین وہ ہے جو زندگی کا ایک جز نہیں بلکہ تمام زندگی ہو، زندگی کی روح اور اس کی قوتِ محرکہ ہو، فہم و شعور اور فکر و نظر ہو، صحیح و غلط میں امتیاز کرنے والی کسوٹی ہو، زندگی کے ہر میدان میں ہر ہر قدم پر راہِ راست وراہِ حق اور راہِ کج کے درمیان فرق کر کے دکھائے، اور راہِ کج سے بچائے، راہِ راست پر استقامت اور پیش قدمی کی طاقت بخشے، اور زندگی کے اس لامتناہی سفر میں جو دنیا سے لے کر آخرت تک مسلسل چلا جا رہا ہے، انسان کو ہر مرحلے سے کامیابی و سعادت کے ساتھ گزارے۔“ (اسلامی ریاست مولانا مودودی، صفحہ 32، اسلامک پبلی کیشنز لاہور، اشاعت 2018ء)
دین کے اسی مذکورہ جامع تصور کو پھر مولانا مودودیؒ نے قرآن کی عملی تفسیر (یعنی اسوئہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ) سے پیش کیا اور اسی دین کے قیام کے لیے اپنے بیشتر لٹریچر کے ساتھ، خاص طور پر سورہ شوریٰ کی آیت 33 سے اپنی تفسیر میں استدلال کیا۔(تفہیم القرآن: جلد 4 صفحہ 486، 87، 88، 89، ادارہ ترجمان القرآن پرائیویٹ لمیٹڈ لاہور۔ اشاعت ستمبر 2011ء)مولانا مودودیؒ کے تصورِ دین پر معترض حضرات میں مولانا وحید الدین خان ؒ، مولانا ابو الحسن علی ندویؒ اور جاوید احمد غامدی شامل ہیں۔
خان صاحبؒ مولانا مودودیؒ کے تصورِ دین کے دس سال حامی اور مبلغ رہنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مولانا مودودیؒ کا تصورِ دین صحیح نہیں تھا۔ دین کی اقامت، دین کا غلبہ یہ سب مولانا مودودیؒ کے اپنی طرف سے خود ساختہ تصورات ہیں۔ اس کے مقابل انہوں نے ”تعبیر کی غلطی“ لکھی، جس میں انہوں نے خود کو ایک کامل اور بلند ترین سطح پر فائز سمجھ کر اسے اسلاف کا دفاع قرار دیا ہے۔ اس کتاب میں مولانا وحید الدین خان نے مولانا مودودیؒ کی فکر پر تنقید کرنے کے بعد ایک عنوان ”صحیح تصورِ دین“ لکھا ہے جس میں انہوں نے اسلام کو جزوی طور پر سمجھنے کی سعی کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ یہ مولانا مودودی ؒکے تصورِ دین کے مقابلے میں درست تصورِ دین ہے۔ خان صاحب لکھتے ہیں:
”دین کی آخری حقیقت ایک باطنی ادراک ہے۔ دنیا کی زندگی میں ہمیں بس آخری مقام تک پہنچناہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم خداکو اپنے حقیقی الٰہ و معبود کی حیثیت سے پالیں۔ ہم اس سے حیاتی طور پر جڑ گئے ہوں، نہ کہ ہم کوئی سماجی ڈھانچہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہوں یا اس کو کھڑا کرنے کے لیے ہم نے جدوجہد کرڈالی ہو۔ اگر چہ حالات کا تقاضا ہو تو یہ کام بھی لازماً اہلِ ایمان کو کرنے ہوتے ہیں۔ مگر اس کی حیثیت اضافی ہے نہ کہ حقیقی“۔(تعبیر کی غلطی ص: 301۔ گڈ ورڈ بک انڈیا)مولانا وحید الدین خان صاحب ؒ جاوید احمد غامدی صاحب کو اپنا استاد مانتے تھے۔ کہتے ہیں ”اگر چہ یہ مجھ سے عمر میں چھوٹے ہیں لیکن علم میں مجھ سے بڑےہیں“۔ (
https: //youtu.be/aCrzV21qQ2Y)
خان صاحب نے جاوید احمد غامدی صاحب کے علاوہ عصرِ حاضر کے علماء کے ساتھ ساتھ اسلاف میں سے بھی کسی پر نقد نہیں چھوڑا، جس پر ہم ” علماء پر تنقیدی جائزہ“ اِن شاءاللہ جلد ہی پیش کریں گے۔ خان صاحب کا تصورِ دین صحیح تھا یا نہیں، اس پر بات کرنے سے پہلے ہم آپ کے سامنے وہ واقعہ پیش کریں گے جومحمد احسن تہامی دار التذکير لاہور (محمد احسن تہامی صاحب، خان صاحب کا الرسالہ کا پاکستانی ایڈیشن شائع کرنے والے CPS کے اولین ارکان میں سے تھے۔ پاکستان سے دار التذير کے نام سے خان صاحب کی کتب کی اشاعت بھی انہوں نے شروع کی تھی)نے خان صاحب کی وفات پر ایک مضمون میں، جو الرسالہ خصوصی شمارہ داعی اسلام مولانا وحید الدین خان صاحب اگست، ستمبر2021ءمیں شائع ہوا، زیر بحث لائے ہیں۔ اس میں انہوں نے خان صاحب کے پاکستانی سفر کی ایک تاریخی روداد کوحصۂ تاریخ بنا دیا ہے، جس کے بعد وہ خان صاحب سے اور بھی متاثر ہوئے تھے۔ لکھتے ہیں:
”1991ء میں جناب نعیم بلوچ اور دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر مولانا محترم کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔ مولانا ایک ہفتے کے لیے تشریف لائے۔ ان کی رہائش کا بندوبست گارڈن ٹاون، لاہور میں جناب کرامت شیخ کے ہاں کیا گیا۔ یہاں فجر کی نماز کے بعد مولانا محترم سے استاد گرامی جاوید احمد غامدی کی معیت میں خصوصی نشستیں ہوئیں۔ ان مجلسوں میں استاد نے مولانا کے تصورِ دین پر چند سوالات اٹھائے۔ ان مجالس کے دیگر شرکا میں ڈاکٹر منیر احمد، طالب محسن، رفیع مفتی اور نعیم بلوچ شامل ہیں۔ میں وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتا جب مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے وقت مولانا نے غامدی صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ میری فکر پر پہلی مرتبہ آپ نے سنجیدہ علمی تنقید کی ہے۔ آپ کے نقد کی روشنی میں اپنی فکر کا اب مجھے ازسرنو مطالعہ کرکے جائزہ لینا پڑے گا۔ مگر افسوس کہ اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں“۔ (الرسالہ خاص شمارہ اگست ستمبر 2021ء، صفحہ 91، گڈ ورڈ بک انڈیا )
مذکورہ واقعہ اس نکتے کی نشان دہی کررہا ہے کہ خان صاحب جس تصورِ دین کو درست سمجھتے تھے، اس کو انہوں نے غامدی صاحب کے نقد پر تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس کی تھی، مگر تبدیل کیوں نہیں کیا؟ اس کو خان صاحب نے عمر کی طوالت کا تقاضا بتایا ہے۔ اب یہ بات ثابت ہوئی کہ خان صاحب کے تصورِ دین کو مولانا مودودیؒ کے بیان کردہ تصورِ دین کے مقابلے میں پیش کرنا ذہنی طفولیت کے جذبات ہی شمار کیا جائے گا۔ مولانا مودودیؒ پر دو ٹکوں کے مصنفین کی تنقیدی بارش ابھی تک برس رہی ہے، لیکن اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس تنقید سے ان کے احباب میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تصورِ دین کے حوالے سے مولانا کا جو موقف ہے وہ دو جمع دو مساوی چار کی طرح واضح ہے۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی تنقیدی کتاب ”عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح“ پر مولانا مودودی ؒنے اپنے خط میں کچھ یوں لکھا تھا کہ:
”عنایت نامہ مؤرخہ 5 صفر 99 ھ ملا، اور اس کے ساتھ آپ کی تازہ کتاب ”عصرِ حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح“ کا ایک نسخہ بھی موصول ہوا۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ میری جس چیز کو آپ نے خدشات کا موجب سمجھا اس پر تنقید فرمائی۔ مزید میری جن چیزوں کو آپ دین اور اہلِ دین کے لیے مضرت رساں یا موجبِ خطر سمجھتے ہوں ان پر بھی آپ بلاتکلف تنقید فرمائیں۔ میں نے کبھی اپنے کو تنقید سے بالاتر نہیں سمجھا، نہ میں اس پر بُرا مانتا ہوں۔ البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ میں ہر تنقید کو برحق مان لوں، اور ناقدین کے بیان کردہ خدشات اور اندیشوں کو صحیح تسلیم کرلوں۔“ (رانے چراغ حصہ دوم ص: 279، 280، مکتبہ شباب العلمیہ، ندوہ روڈ لکھنؤ اشاعت ششم 2010ء۔ (اسی طرح اس کا ذکر”عصرِ حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح“ میں بھی موجود ہے۔)
مولانا مودودی ؒنے اپنے اوپر تنقیدی کتاب میں اگرچہ خود کو تنقید سے مبرا نہیں سمجھا ہے لیکن اپنے تصورِ دین، اپنی فکر اور اپنی تحریک کے حوالے سے ان کے یہ دوٹوک الفاظ کافی ہیں کہ: ”البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ میں ہر تنقید کو برحق مان لوں، اور ناقدین کے بیان کردہ خدشات اور اندیشوں کو صحیح تسلیم کرلوں۔“
مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے موقف کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ کسی پر تنقید اور کسی کی تائید سے بالاتر ہوکر دنیا سے مخاطب ہوئے، جس کو خان صاحب ؒاور غامدی صاحب تعبیر کہتے ہیں اور اس کے مقابل میں بغیر کسی قوی برہان کے تنقیدی اسلوب میں اپنے موقف کو پیش کرنے کی کوشش کی۔
خان صاحب کی کتاب ”تعبیر کی غلطی“ پر مولانا مودودیؒ کا آخری کمنٹ یہ تھا، جو کہ ہر ذی علم قاری کو ان کی کتاب پڑھنے کے بعد نظر آتا ہے کہ:
”میرا خیال یہ ہے کہ آپ کا مطالعہ نہایت ناقص ہے، آپ نے غلط نتائج نکالے ہیں اور میرے مسلک کو بھی آپ پوری طرح نہیں سمجھے ہیں، بلکہ اس کی ایک غلط تعبیر آ پ نے کرلی ہے۔ لیکن غضب یہ ہے کہ اس مضمون میں آپ اپنے آپ کو ایک بہت اونچے مقام پر فائز سمجھ کر کلام فرمارہے ہیں، اور آپ کا انداز ِکلام یہ ہے کہ جو شخص بھی آپ کے نقطہ نظر کوقبول نہیں کرتا وہ جاہل و نادان بھی ہے اور ضال ومضل بھی۔ اب میری مشکل یہ ہے کہ علم کی کمی کے ساتھ جو اس طرح کے زعم میں مبتلا ہو اُس سے مخاطب ہونے کی مجھے عادت نہیں ہے۔“ )عبیر کی غلطی: صفحہ 118، گڈ ورڈ بک انڈیا )
اس کے بعد تو کوئی بات نہیں بنتی جس پر کوئی بحث کریں۔ اس لیے کہ مولانا مودودی ؒنے انہیں دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا ہے” آپ نے غلط نتائج نکالے ہیں اور میرے مسلک کو بھی آپ پوری طرح نہیں سمجھے ہیں بلکہ اس کی ایک غلط تعبیر آ پ نے کرلی ہے“۔ یعنی جو بات خان صاحب بتا رہے ہیں یہ سرے سے مولانا مودودیؒ کے تصور کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتی، جس پر عامر عثمانی صاحب نے خان صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:
”مولانا مودودی کا یہ (مذکورہ) ریمارک پڑھ کر ہمیں ان پر غصہ آیا تھا، ہم واقعی اس کتاب کو پڑھنے سے قبل خان صاحب کی استعداد کے بارے میں کافی حسن ِظن رکھتے تھے، کم سے کم انہیں عربی کا فارغ التحصیل تو سمجھتے ہی تھے۔ لیکن جوں جوں کتاب کو پڑھا، حسنِ ظن کے شیش محل کی ایک ایک دیوار پاش پاش ہوتی چلی گئی اور ماننا پڑا کہ مولانا مودودی کا بحث سے اجتناب غلط نہیں تھا۔ آخر ایسے شخص سے کوئی سنجیدہ اور علمی انسان مباحثے میں وقت کیوں برباد کرے گا جو چند سال ریل کی ڈرائیوری کرلینے کے بعد سمجھتا ہو کہ اب وہ پیچیدہ سے پیچیدہ مشین کے میکنزم اور تکنیک کا ماہرانہ کام کر سکتا ہے“۔ (ماہنامہ تجلی دیوبند، تنقید نمبر، فروری مارچ 1965ء)
میں حیران ہوں کہ اگر مولانا مودودیؒ کا تصورِ دین درست نہ ہوتا تو مدرسۃ الاصلاح، مدرسہ دیوبند، مولانا مودودی کے معاصرین وغیرہ میں اتنا کوئی رجلِ رشید نہیں تھا کہ مولانا مودودی ؒکے تصورِ دین پر تنقید کرکے بتا دیتا کہ یہ تصور قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ اور ان کے معاصر مدرسہ دیوبند کے اکابر مولانا اشرف علی تھانویؒ کو جب مولانا منظور نعمانیؒ نے جماعت اسلامی کا دستور بھیج کر اس پر کمنٹ چاہا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ یہ خلافِ اسلام نہیں ہے لیکن بس میرا دل اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ (”مولانا مودودی کے ساتھ میری رفاقت کی سرگزشت اور اب میرا موقف“، صفحہ: 138، مجلس نشریات اسلام کراچی، اشاعت مارچ 1980ء بار اول)
دل کا قبول نہ کرنا کسی شے کے غلط ہونے دلیل نہیں بن سکتا۔ ویسے مولانا اشرف علی تھانوی صاحب اپنی عمر کے آخری مرحلے میں تھے۔ 1941ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی اور 1943ء میں مولانا اشرف علی تھانوی صاحب فوت ہوئے تھے۔ عمر کے اس حصے میں ان کا کیسے اپنے طرز پر کام کرنے کے بجائے ایک نئے طرز کے ساتھ اتفاق پیدا ہوجاتا؟
کیا صاحبِ تدبر قرآن امین احسن اصلاحیؒ کوئی طفل مکتب میں سے تھے کہ دار الاصلاح چھوڑ کر مولانا مودودی کی رفاقت میں ایک غلط تصورِ دین کے تحت دارالاسلام میں شامل ہوئے تھے، جو جاوید احمد غامدی اور خان صاحب دونوں کے استاد تھے۔ اگر مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے مولانا مودودی ؒکے تصورِ دین پر تنقیدی قلم نہیں اٹھایا، جس نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی سوچ و تدبر میں گزارا تھا تو ان کے شاگردوں کے بے جا کنفیوژن پیدا کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مولانا مودودیؒ نے اپنا تصورِ دین ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ میں خالص قرآنی آیات اور عربی لغت کے مصادر سے پیش کیا ہے۔ اب اگر کوئی ان کے سامنے اس تصورِ دین کے خلاف علمی میدان میں کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بھی قرآن ہی کو برہان بنا کر لے آئے، نہ کہ زَمن ملوکی سے مغلوب و متاثر علماء کے اقوال و آراء کو۔ اس لیے کہ مولانا مودودی ؒکا تصورِ دین رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کے دور ہی کا اوّل ایڈیشن ہے جس میں زَمن ملوکی کے درباری علماء کے اقوال و آثار کی آمیزش نہیں ہے۔