ایک لڑکا چھوٹی سی عمر میں مکتب سے ایک تختی چرا لایا اور اس کی ماں نے کچھ اس کو سرزنش نہ کی۔ اس طور اس کی عادت پڑ گئی اور بڑا ہوکر بڑا شاطر اور عیار چور ہوگیا۔ کئی مرتبہ قید ہوا، بید کھائے، لیکن باز نہ آیا۔
آخر کو حاکم نے اس کو بادشاہی خزانے کی چوری میں پھانسی کا حکم دیا۔ جب وہ پھانسی پر چڑھایا گیا تو اس نے حاکم سے درخواست کی کہ: ’’میں اپنی ماں کے کان میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ یہ میری خواہش ہے‘‘۔
حاکم نے اجازت دی تو اس نے اپنی ماں کے کان کے پاس منہ لے جاکر اس کا کان صاف کترلیا۔ ماں چلاّتی اور ہائے ہائے کرتی الگ کو بھاگی۔ لوگوں نے بھی لعنت ملامت کی کہ: ’’کمبخت تُو مرتے دم بھی بدی اور شرارت سے باز نہ آیا‘‘۔
اس نے جواب دیا: ’’صاحبو! میں اسی ماں کی بدولت اس درجے کو پہنچا ہوں۔ اگر یہ شروع سے مجھ کو ادب دیتی تو میں کیوں چوری کی عادت ڈالتا!‘‘
حاصل: لڑکوں کو ادب نہ دینا بے شک ماں باپ کا قصور ہے۔
(نذیر احمد دہلوی، ”منتخب الحکایات“)