خود اعتمادی اور مسلمان حکمراں

خود اعتمادی جو انسان کی بہترین دولت ہے، اور ہر زمانے میں انسان اس سے متمتع ہوتا رہا ہے، یہاں تک کہ قدیم فرماں روائوں اور ظالموں نے بھی ان سے یہ دولت نہیں چھینی، لیکن نام نہاد ’’جمہوریتوں‘‘ اور ’’ترقی پسند قیادتوں‘‘ نے مسلم اور عرب اقوام کو اس دولت سے بھی محروم کردیا، ان کی خوداعتمادی جاتی رہی، ان کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہے نہ اپنی عقل پر، نہ اپنی کارگزاریوں پر۔ طالب علم میں اگر خوداعتمادی نہ ہو تو کتنا ہی ذہین ہو، امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ فوج کا ایک سپاہی اگر تلوار نہ رکھتا ہو تو کوئی زیادہ فکر کی بات نہیں، بندوق نہ ہو کوئی حرج نہیں، گولیاں ختم ہوجائیں جب بھی کوئی پریشانی کی بات نہیں، لیکن اگر اسے اپنے اوپر اعتماد نہ ہو، اپنے اصول و نظریات پر اعتماد نہ ہو، اپنے دین پر اعتماد نہ ہو تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔

اس قوم کو پہنچنے والا سب سے بڑا نقصان یہی ہے، جس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔

اقوام و ملل کی مثال رواں دواں نہر جیسی ہے، اس میں جھاگ اٹھتا ہے، پتھر آتے رہتے ہیں، لکڑیاں بھی بہتی رہتی ہیں، اور نہر کی روانی میں کوئی فرق نہیں آتا۔

فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ(الرعد:17)

ترجمہ: ’’جھاگ خشک ہوکر اڑ جاتا ہے اور جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہوتا ہے وہ زمین پر ٹھیر جاتا ہے‘‘۔

زندگی میں نہ مصائب و آلام کی چنداں اہمیت ہے، نہ شکست و ناکامی کی۔

اہمیت ہے قوم کی خود شناسی اور خود اعتمادی کی، ضمیر کی بیداری کی اور گرد و پیش کے صحیح شعور و ادراک کی۔

لیکن جب قوم کا احساس اتنا مُردہ ہوجائے کہ اسے فتح و شکست کا فرق ہی نہ محسوس ہو، اس کا شعور اتنا خام ہوکہ دوست دشمن میں تمیز نہ کرسکے، اسے نہ دشمن سے عداوت ہو، نہ دوست سے محبت، تو ایسی قوم خود ہی اپنے لیے خطرہ اور اپنے آپ کی دشمن بن جاتی ہے۔

ہماری موجودہ قیادت نے ہم کو اس صلاحیت اور قوت کے اس خزانے سے عاری اور بے بہرہ کردیا ہے، حالانکہ اسی کی بدولت ہم نے تاریخ کے ہر دور میں ایسے حملوں اور مصیبتوں کا سامنا کیا ہے کہ کسی دوسری قوم کو ان سے سابقہ پڑتا تو وہ تاریخ کے صفحات کی زینت بن کر رہ جاتی، لیکن اس امت نے پختہ ایمان، زندہ شعور اور اسی خوداعتمادی ہی کی وجہ سے تاریخ کے ہر موڑ پر بڑے بڑے مہیب اور مہلک حملوں کا مقابلہ کیا ہے۔ ایک شکست خوردہ فوج بھی اگر ایمان اور ایمانی اور نبوی تربیت کے پیدا کردہ اسلحہ سے عاری نہ ہو تو اس کی ہمت پست نہیں ہوسکتی، اور بالآخر کامیابی اس کے قدم چومے گی۔ کیا آپ نے غزوۂ حمرا الاسد کا واقعہ نہیں پڑھا؟ رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے اصحاب (رضوان اللہ اجمعین) زخموں سے چُور غزوۂ احد سے واپس ہوتے ہیں، انہوں نے ابھی میدانِ جنگ کی گرد بھی نہیں جھاڑی ہے، اسی کٹھن موقع پر رسول اللہﷺ آگے بڑھ کر قریش سے دوبدو ہونے کا حکم دیتے ہیں، کامیابی کے نشے میں جن کے دماغ آسمان پر پہنچ رہے تھے۔

دنیا کی کسی بھی فوج کو اتنے زخم لگے ہوئے ہوں تو وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی تھی، لیکن وہ لوگ دوبارہ مقابلے کے لیے بڑھے، اگرچہ مقابلہ نہیں ہوا، کیونکہ قریشی الٹے پیروں واپس ہوگئے۔
(سید ابوالحسن ندویؒ۔عالم عربی کا المیہ)

مجلس اقبال
تجھے گُر فقر و شاہی کا بتا دوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی

علامہ اقبال انسان کی اصل حقیقت عرفان خودی کو بتاتے ہیں کہ جس انسان نے اپنی حقیقت اور اپنی اہمیت یعنی زمین پر اللہ کا نائب ہونے کو جان لیا اس نے کامیابیوں کی شاہ کلید حاصل کرلی۔ اسی چابی سے ہر مشکل سوال کا تالا کھل جائے گا۔ وہ نوجوانوں کو اپنی خودی پہچان کر اس کی حفاظت کا درس دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان غریبی میں بھی شاہی کرسکتا ہے اگر اس نے اپنی خودی کو پہچان لیا۔ انہوں نے کہاکہ خودی کی حفاظت و نگہبانی کرکے انسان غریب رہ کر بھی بے نیاز زندگی کا لطف حاصل کرسکتا ہے۔ اسی کو غریبی میں شاہی قرار دیتے ہیں۔ اپنے بیٹے جاوید کے نام سے خطاب میں ایک جگہ فرمایا: ’’میرا طریق امیری نیں فقیری ہے۔ خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر‘‘۔ خودی کی پہچان تو انسان کو مزاجاً بے نیاز بنادیتی ہے اور وہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے اپنے آپ کو جھکاتا نہیں۔