ہجری سال جسے اسلام سے خصوصی نسبت ہے، کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے جس کی یکم تاریخ حضرت عمر فاروقؓ خلیفہ ثانی کی شہادت کی یاد دلاتی ہے جب کہ دس محرم الحرام نواسۂ رسولؐ حضرت امام حسینؓ کے یوم شہادت کے طور پر منایا جاتا ہے، اسی طرح ذوالحج ہجری سال کا ماہ آخر ہے جس کی دس تاریخ کو دنیا بھر میں امت مسلمہ حضرت ابراہیم ؑکے ہاتھوں رب کریم کے حکم پر اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ گویا اسلامی سال کا آغاز بھی اطاعت و شہادت سے ہوتا ہے اور انجام بھی راہ خدا میں سب کچھ، حتیٰ کہ جان جیسی عزیز ترین متاع بھی قربان کر دینے کا درس اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، اسلام در اصل حق و باطل کے مابین کشمکش ہی کا دوسرا نام ہے، وہ وقت کے خدا کہلانے والے بادشاہ نمرود اور ابراہیم خلیل اللہ کے مابین کشمکش ہو، یا فرعون و موسیٰ کے مابین یا پھر رسول آخر الزمان، محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی ؐکی ابوجہل و ابو لہب سے کشمکش ہو۔ حق و باطل کا یہ معرکہ آج بھی جاری ہے اور تا ابد جاری رہے گا۔ امام حسین ؓ اور یزید کے مابین معرکہ بھی اسی کشمکش کی ایک کڑی تھا، ہر سال دنیا بھر کے مسلمان حضرت امام حسین کی شہادت کی یاد اپنے اپنے انداز میں مناتے ہیں، دور حاضر میں اسی کشمکش کے علم بردار اور جدوجہد کے داعی، بیسویں صدی کے مجدد، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒنے امام حسینؓ و یزید کی کشمکش کا جو تجزیہ کیا ہے، اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ نہ تو اس دور میں لوگوں نے اپنا دین تبدیل کر لیا تھا، اور نہ ہی نماز روزے پر پابندی لگی تھی، پھر امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کیوں کیا؟ اور اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی کیوں دی؟ کیا انہیں یزید سے کوئی ذاتی بغض و عناد تھا، جو ان کی شہادت کا باعث بنا؟ یا پھر دنیاوی جاہ و اقتدار کے حصول کی خواہش اس کا سبب تھی؟ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یزید کا کردار ایک خلیفۃ المسلمین کے شایان شان نہیں تھا اور نہ ہی اپنے پیش رو خلفائے اسلام کے کردار سے مطابقت رکھتا تھا، تاہم امام حسینؓ کے یزید کے ہاتھ پر بیعت نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ اسلامی ریاست کی روح، اس کے مزاج اور اس کے نظام خلافت میں تبدیلی کا آغاز تھی۔ یزید کے تخت نشینی سے جس طرز حکمرانی کا آغاز ہوا اس میں تقویٰ کی بجائے عیش پسندی اور خلافت کی بجائے انسانی بادشاہت کا رنگ نمایاں تھا، نہ صرف یہ بلکہ اسلامی ریاست کی سب سے بڑی ذمہ داری امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکو ترک کر دیا گیا تھا۔ نواسۂ رسولؐ نے اپنی جان کا نذرانہ اس لیے پیش نہیں کیا کہ حج یا عمرے پر پابندی لگ گئی تھی بلکہ انہوں نے یہ دیکھا کہ اسلامی دستور کے بنیادی اصولوں میں تبدیلی آ رہی ہے جن میں خلیفہ المسلمین کا آزادانہ انتخاب، اظہار رائے کی آزادی، شورائی نظام، خدا اور خلق کے سامنے جوابدہی، بیت المال کو امانت سمجھنا، قانون کی حکمرانی اور قانون کے لحاظ سے شہریوں میں مساوات شامل ہیں۔ امام علی مقامؓ کی یہ عظیم قربانی ہمیں ہر سال یہ یاد دلاتی ہے کہ جب زمین پر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کا حکم چل رہا ہو اور خالق کی بجائے مخلوق کی مرضی مسلط ہو چکی ہو تو ایک سچے مسلمان کو اپنے رب کی رضا کی خاطر اور اسلامی نظام کے نفاذ اور غلبے کے لیے اپنی جان، مال اور وقت سمیت تمام صلاحیتوں کو اس راہ میں لگا دینا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ آج اسلام جن حالات سے دو چار ہے، وہ حضرت امام حسینؓ کے زمانہ سے کس قدر مختلف ہیں، کیا آج مسلمان کہلانے والے حکمرانوں کے اقتدار میں اسلامی اقدار پامال نہیں کی جا رہیں؟ دینی اصولوں کی دھجیاں اڑائی نہیں جا رہیں؟ مسلمان ممالک کا سارا معاشی نظام سود پر استوار نہیں؟ شراب، جوا، اور بد چلنی عام نہیں، فحاشی و عرفانی اور بے حیائی کو سرکاری سرپرستی میں فروغ نہیں دیا جا رہا؟ عدل اور انصاف معاشرے سے معدوم نہیں ہو چکا؟ جس کی لاٹھی، بھینس پر بھی اس کا قبضہ نہیں ہے؟ جھوٹ عام اور سچ عنقا نہیں ہو چکا ہے؟ اس کے باوجود ہمارا طرز عمل کیا ہے؟ ہم ہر سال بڑے اہتمام سے عاشورہ محرم مناتے ہیں مگر امام حسینؓ کے پیغام کو یکسر فراموش کر چکے ہیں، کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم امام حسینؓ کی شہادت کے نام پر خوب آنسو بہاتے ہیں، ان کے نام پر ماتم بھی کر لیتے ہیں، ان کی یاد میں سبیلیں لگاتے اور لنگر کھاتے اور کھلاتے ہیں، لیکن ہم وہ کام کرنے پر تیار نہیں جو امام حسینؓ نے کئے، ہم تعظیم محرم میں وہ وہ کام کرتے ہیں جن کا امام حسینؓ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ حضرت امام حسینؓ نے جن کو روکنے کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ ہم نے ان تمام ممنوعات کو حضرت امام علی مقام اور ان کے نانا، رحمۃ اللعالمینؐ نے جن سے باقاعدہ روکا، منع کیا، ہم نے انہیں باقاعدہ دینی رسوم کا درجہ دے کر اپنا لیا ہے۔ کوئی نہیں سوچتا کہ ہمارے اس کردار سے شہید کربلا کی روح کس قدر بے چین ہوتی ہو گی؟ اسے ہماری حرکات سے کتنی تکلیف پہنچتی ہو گی ہم سوچے سمجھے بغیر، آنکھیں بند کئے وہ سب کچھ کرتے چلے جا رہے ہیں، جس کی روک تھام کے لیے امام حسینؓ نے جہاد اور کشمکش کا راستہ اختیار کیا… آئیں امام کی سنت کو زندہ کریں۔ وقت کے یزید کا انکار کریں ۔ اس کی خاطر اپنی جان، مال اور وقت سمیت سب کچھ قربان کر دینے کا عزم کریں… اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ امام حسینؓ کی حقیقی پیروی کا احساس ہمارے روح و قلب میں بیدار فرمائے… آمین …….(حامد ریاض ڈوگر)