پچھلے جمعے کا پہلا جملہ تھا: ’’اگر ہندوستان والے اپنے ریلوے اسٹیشنوں کو ’پھک پھک اڈّا‘ کہہ سکتے ہیں تو پاکستان والے اپنے ٹی وی اسٹیشنوں کو ’بک بک اڈّا‘ کیوں نہیں کہہ سکتے؟‘‘ اِس پر ہمسایہ ملک کے کئی مردو زن اِک دوجے کا دامن تھامے لَین بنائے ’چھک چھک، پَھک پَھک، پوں پوں‘ کرتے چلے آئے اس عاجز کو مزید عاجز کرنے، کہ پھک پھک اڈّا نہیں بھک بھک اڈّا ہوتا ہے، اور اب نہیں ہوتا، پہلے ہوتا تھا۔
یہ آزادی سے قبل کا قصہ ہے۔ انگریزوں نے ہندوستان کی زمین پر جب پہلے پہل پٹریاں بچھائیں تو اہلِ زمین کے کان وغیرہ کھڑے ہوگئے کہ یہ گورے ہماری زرخیز زمینوں کو لوہے سے باندھ کر گھسیٹتے ہوئے انگلستان کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن جب گوروں نے اِن پٹریوں پر کوئلے کی دہکتی آگ سے ’بھک بھک‘ کرتے دھواں دھار کالے بھجنگ انجن دوڑا دیے، جو اتنی تیز اورچیختی ہوئی سیٹی مارا کرتے تھے کہ ’کان میں جالگتی تھی چھری سی‘ تب ان اسٹیشنوں کو ’بھک بھک اڈّا‘ کہا گیا تھا۔ اب کوئی نہیں کہتا۔
کھام گاؤں، ضلع بلڈانہ، صوبہ مہاراشٹر کے جناب یونس ندیم لکھتے ہیں: ’’پھک پھک اڈّا نہیں، بھک بھک اڈّا ہمارے صوبے مہاراشٹر کی مراٹھی زبان میں ریلوے اسٹیشن کو کہا جاتا تھا مگر آزادی سے پہلے۔ یہ بات میرے قابلِ احترام اُستاد ناظم اللہ صاحب نے، جن کی عمر اب 90 سال سے زائد ہوچکی ہے، مجھے بتائی تھی۔ اب تو مراٹھی زبان میں بھی اس لفظ کی موت واقع ہوچکی ہے‘‘۔ دکن سے محترمہ ثریا سلطانہ نے حسنِ ظن سے کام لیا اور کہا: ’’بھک بھک اڈّا شاید غلطی سے پھک پھک اڈّا لکھ گیا ہے‘‘۔ مگر بنگلور سے ڈاکٹر حلیمہ فردوس نے غضِ بصر سے کام لیا اورصرف کلمۂ تحسین سے نوازنے پر اکتفا کیا: ’’امالہ کا جائز و ناجائز فرق اس قدر باریک بینی سے بیان کیا کہ جواب نہیں‘‘۔
اُدھر الٰہ آباد والے ڈاکٹر محمد سلیم صاحب اور ممبئی والے ندیم صدیقی صاحب کا پختہ خیال ہے کہ اپنی زبان کی برتری کے احساس سے سرشار اُردو والوں نے ہندی بولی کا مذاق اُڑانے کے لیے ایسی اصطلاحات خود گھڑی (یاگڑھی) ہیں۔ ندیم صدیقی صاحب نے مزید بتایا کہ ہندی کا مذاق اُڑانے والوں میں رگھوپتی سہائے فراقؔ گورکھپوری بھی شامل تھے۔ انھوں نے فراقؔ صاحب کے کچھ قصے بھی سنائے۔ مان گئے صاحب!، نہیں کہا جاتا ہوگا بھک بھک اڈّا، مگر جب کانپور ریلوے اسٹیشن کے ’بلند گو‘ پر ایک تیز نسوانی آواز گونجتی ہے کہ ’’ہاؤڑہ ایکسپریس اپنے نردھارت سمے سے اَڑھائی گھنٹے وِلمب سے پرویش کررہی ہے‘‘ تو اجنبی مسافرکے اوسان وغیرہ خطا ہوجاتے ہیں کہ یا اللہ! میں کس سے پوچھوں کہ ’’بھائی جی! یہ ہاؤڑہ ایکسپریس کیا کررہی ہے؟مجھے تو اسی پر سواری گانٹھنی ہے‘‘۔
پچھلے کالم کے امالے کا ہالہ دنیا میں دُور دُور تک اُجالا کر گیا۔ اگرچہ لکھ دیا تھا کہ ’امالہ‘ کا معاملہ ایسا نہیں کہ ایک کالم میں سمٹ جائے۔ پھر بھی کئی ’سُسرے‘ اور ’سالے‘ چڑھ دوڑے کہ ہماری تو آن کے لالے پڑگئے۔ ہمارے تو امالے کیے ہی نہیں گئے۔ سالے کا امالہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ ’سالا‘ الف ہی پر ختم ہوجاتا ہے۔ مگر یہ سسرجی کو کیا سوجھی کہ اپنا امالہ کرانے آگئے؟معلوم ہوا کہ جس لفظ کا امالہ کیا جاتا ہے وہ سسر نہیں’سسرا‘ ہے۔ مگر یہ ساری تضحیک و تحقیرآخر ہمارے اِن معزز سسرالی رشتے داروں ہی کے حصے میں کیوں آتی ہے؟ یہی نہیں، کسی شخص کی تحقیر بالجہر مقصود ہو تو اُسے بھی اِنھیں رشتوں سے پکارلیا جاتا ہے اور تحقیرِ مزید کے لیے ’اَبے‘ کا سابقہ بھی ساتھ لگادیا جاتا ہے۔
لاہور سے برادرگرامی، مشہور کالم نگار و نظامت کار محترم سجاد میرؔنے کالم پر تبصرہ فرماتے ہوئے لکھا: ’’خوب وضاحت کی۔آپ بہتر جانتے ہوں گے، ایک آدھ جگہ میں نے لکھا ہوا پڑھا ہے، شاید مولوی عبدالحق کے ہاں، کہ بعض معاملات میں لفظ امالے کے بغیر لکھا جائے گا مگر بولنے میں تلفظ امالے والا ہوگا۔ مثال غالب کے اسی شعر کی ہے، لکھنے میں کلکتہ آئے گا مگر بولا کلکتے جائے گا‘‘۔
بات آپ کی درست ہے۔ بابائے اُردو کے زمانے تک بیشتر ایسا ہی تھا۔ مگر ہمارے زمانے کے برق گفتار برقی صحافی جیسا لکھا ہو ویسا ہی پڑھتے اور بولتے ہیں۔ اِمالہ نہیں کرتے۔ صحافی ہی نہیں، وزیرخارجہ بھی ’’اس مقدمہ کو بند کمرہ میں سننے کے فیصلہ پر مطمئن نہیں‘‘۔
لندن شریف سے محترم شریف اعوان صاحب لکھتے ہیں:’’نہایت خیال افروز تحریر ہے۔ ماشاء اللہ۔ ’امالہ‘ کے مفہوم میں ایک نہایت لطیف اضافہ ہوا ہے۔ بزرگوں کے ساتھ امالہ نہ کرنا۔ بمعنی ان کی بات کو ہلکا نہ لینا، گستاخی نہ کرنا وغیرہ گویا پہلی دفعہ اُردو محاورے کا حصہ بنا ہے۔ یا کم از کم ہم جیسوں کے علم میں پہلی دفعہ آیا ہے۔ سبع عشرہ کے اختلافِ قرأت میں ایک موضوع ’امالہ‘ بھی ہے۔ مثلاً روایت حفص عن عاصم میں (جو کہ ہمارے ہاں رائج ہے) امالہ نہیں کرتے۔ دوسری قرآت مثلاً روایت حمزہ کوفی میں (جو مغرب، افریقہ وغیرہ میں رائج ہے) لازماً کرتے ہیں۔ ’واللیل اذا سجے۔ ما ودّعک ربک و ما قلے‘۔علی ھذالقس۔ قرآنی تجوید و قرات میں ’امالہ‘ محض صوتی پہلو رکھتا ہے اور ادائی سے متعلق ہے۔ اس میں مطالب کی تبدیلی یا تحریف نہیں ہوتی۔ جب کہ اردو میں اس سے تحقیر و تصغیر کا پہلو بھی نکل سکتا ہے‘‘۔
جی ہاں! امالہ کرنے کے بہت سے دیگر پہلوؤں کی طرح قرآنِ مجید کی قرأت میں امالہ کرنے کے پہلو سے بھی ہمیں کالم میں پہلوتہی کرنا پڑی اور اس پہلو سے بھی کہ مُلّا جی کی تحقیر و تصغیرکرنے کو چودھری جی اکثر اُن کا اِمالہ کرکر اور ’مُلّے‘ کہہ کر پکارا کرتے ہیں کہ’اِدھر آ‘۔
نیویارک (امریکا) سے اسمٰعیل سعید صدیقی کی یہ رائے موصول ہوئی ہے کہ ’’امالے کے بغیر بھی ’اَبّے‘ کی ایسی تیسی پھر سکتی ہے: سب حریان تھے اُس نے ایسا ابّا کہاں سے لبّا تھا‘‘۔ کراچی کے نئے ناظم آباد سے نعیم الحسن صاحب نے پوچھا ہے: ’’کربلا کے علاوہ اور کون کون سے سخت مقامات ہیں جن کا امالہ نہیں کیا جاتا؟‘‘صاحب! بہت سے مقامات ہیں، مثلاً امریکا، برطانیہ، کینیڈا، ایشیا، آسٹریلیا، برما، افریقا، ایتھوپیا، موریطانیہ اور صومالیہ وغیرہ کا امالہ کرنا بھی چاہیں تو نہ کر پائیں۔ یقین نہ آئے تو کوشش کرکے دیکھ لیجے۔
کراچی ہی سے برادرِ بزرگ اور ریڈیو پاکستان کراچی کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر جناب اقبال اعظم فریدی نے توجہ دلائی ہے:
’’امالہ علمِ طبیعیات کی بھی اصطلاح ہے۔ ریڈیو میں اگر جاری نشریات دوسرے اسٹوڈیو کی ریکارڈنگ کے ساتھ ریکارڈ ہونے لگتیں تو ریکارڈنگ انجینئر اسے ’عملِ امالہ‘ کہہ کر اپنی کوتاہی کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ برادرِ محترم ابونثر! شاد و آباد رہیے‘‘۔
جی اچھا… جی ہاں! ہم نے بھی ثانوی جماعتوںسے جامعاتی جماعتوں تک، یعنی جامعہ کراچی کے شعبۂ ریاضی و شعبۂ طبیعیات تک، سائنسی تعلیم اُردو میں حاصل کرنے کا شرف پایا ہے۔ علم طبیعیات کا ’عملِ امالہ‘ بھی مائل کرنے یا میلان پیدا کرنے ہی کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ مثلاً کسی تار یا تاروںکے لچھے میں سے بجلی گزر رہی ہو تو اس کے گرداگرد ایک برقی میدان پیدا ہوجاتا ہے۔ اس برقی میدان میں موجود کسی موصل میں اگر جمالِ ہم نشیں اثر کر جائے اور اُس کو بھی ’برقا‘ دے تو اس اِمالے کو ’برقی امالہ‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح مقناطیس کے گردا گرد بھی مقناطیسی میدان پیدا ہوجاتا ہے۔ مقناطیسی میدان میں مستقل رہنے والی چیز مثلاً لوہے کی کسی چیز میں مقناطیسیت آجائے تو یہ امالہ ’مقناطیسی امالہ‘ کہلاتا ہے۔ مولانا ظفرعلی خان کو بھی ایسے ہی ایک امالے سے سابقہ پڑ گیا تھا… اپنے ’کان ہی پور‘ میں… سو، فرمایا:
یہ مقناطیس کی دعوت تھی، آہن کیسے رد کرتا؟
میں کلکتہ سے رخصت ہو کے سیدھا کانپور آیا
(ملاحظہ فرمائیے مولانا نے بھی’ کلکتہ‘ ہی لکھا ہے،جی نہ مانے تو ’کلکتے‘ پڑھ لیجے)بجلی سے بھی مقناطیسیت پیدا ہوجاتی ہے۔ کسی برقی قوتِ متحرکہ کے گرداگرد جو مقناطیسی میدان جنم لیتا ہے، اُس میدان میں موجود برقی موصل کے اندر مقناطیسیت پیدا ہوجائے اور اس برقی مقناطیسیت کے اثر سے وہ خود بھی متحرک ہوجائے( یعنی اُسے بھی’حال‘ آجائے) تو اسے ’برقناطیسی امالہ‘ کہتے ہیں۔ برقناطیسی امالے ہی نے موٹر ایجاد کی ہے۔خوب یاد آیا، انگریزی آلے ‘Inductor’کے لیے ہماری پیاری زبان میں کتنا خوب صورت نام ہے: ’اِمالہ گر‘۔